عذاب قبر کے خلاف روایت، تحریر: زاہد حسین جانب حق
میں نے آپ دوستوں سے کہا تھا کہ میں عذاب قبر کے خلاف روایت پیش کروں گا لیکن اس روایت کو بیان کرنے سے پہلے میں اپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ میں سے کوئ مسلمان یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ کے رسول دین کے متعلق کسی سوال کا جواب اپنی طرف سے دے دیا کرتے تھے ۔ امید ہے کہ آپ میں سے کوئ مسلمان بھی ایسا نظریہ ہرگز نہیں رکھتا ہوگا ۔ اسی یقین کو لے کر آپ کے ساتھ عذاب قبر کی نفی سے متعلق روایت شیئر کی جاتی ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی عورت ان کی خدمت کیا کرتی تھی ۔حضرت عائشہ اس کے ساتھ جب کوئی نیکی کرتیں تو وہ انہیں یہ دعا دیتی کہ اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے ایک مرتبہ نبی ﷺ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا یارسول اللہ کیا قیامت کے دن سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوگا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا نہیں لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہومیں نے عرض کیا کہ یہودیہ کے ساتھ میں جب بھی کوئی بھلائی کرتی ہوں تو وہ یہی کہتی ہے کہ اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے نبی ﷺ نے فرمایا یہودی جھوٹ بولتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹی نسبت کردیتے ہیں قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہ ہوگا‘‘ مسند احمدجلد 11حدیث نمبر 25025
ایسی روایت آپ زندگی میں کبھی کسی روایتی عالم یا عذاب قبر ماننے والوں کے منہ سے نہیں سنیں گے کیونکہ ہمارے علماء ایسی روایات کو جو اِن کے عقائد کے خلاف ہوں انہیں عام لوگوں میں بیان ہی نہیں کرتے ۔مجھے بھی یہ روایت اس طرح معلوم ہوئی کہ شمارہ حبل اللہ مجلہ 23 صفحہ 33 میں توحیدی جماعت کے اہل حدیثوں کے ساتھ بحث میں اس کا زکر موجود تھا ۔نہ جانے اور کتنی ایسی روایات ہونگی ہیں جو علماء نے عام لوگوں سے چھپا رکھی ہیں یا انہیں اپنی کتابوں مں زکر ہی نہیں کیا ۔ اس روایت سے عذابِ قبر کی نفی اخذ نہیں ہوتی بلکہ یہ روایت واضح طور پر عذاب قبر کو رد کردیتی ہے اور یہ بھی ثابت کردیتی ہے کہ یہ عقیدہ یہودیوں کا تھا
یہودی جو منافق بن کرمسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اورانکے اندراپنے نظریا ت پھیلارہے تھے وہ بھلا اس روایت کو کیسے گوارا کرتے تو انہوں نے اس روایت کو لے کر اس میں کچھ تبدیلیاں کردیں تو اب یہی روایت کتب روایات میں کچھ الفاظ کے اضافے اور تبدیلی سے مختلف جگہوں پر اپ کو نظر آئے گی ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں کتاب الصلواۃ میں یہی روایت اس طرح بیان ہوئی کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے پوچھنے پر اللہ کے رسول نے عذاب قبر کا اقرار کیا اور فرمایا "میں اللہ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں”
پھر بخاری میں ہی کتاب الجنائز میں حضرت عائشہ کے پوچھنے پر الفا ظ یوں آئے "ہاں عذاب ہوتا ہے” اور اسی باب میں ایک اور قول یوں پیش ہوا کہ ہاں عذابِ قبر حق ہے آپ نے غور کیا کہ ایک ہی روایت کو مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ۔کسی میں اللہ کے رسول کا جواب کچھ ہے اور کسی میں کچھ جس سے ثابت ہواکہ اصل روایت کو بدلنے کی ہر طرح سے کوشش کی گئی ۔ خود مسند احمد کی اس روایت کو بیان کرنے والوں میں بھی کوئ ایک ایسا راوی موجود تھا جس نے اس روایت کو بدلنے کی کوشش کی اور آخر میں یہ الفاظ اپنی طرف سے ڈال دئے کہ کچھ عرصے بعد اللہ کے رسول کو بعد میں ایک وحی کے زریعے بتایا گیا کہ عذاب قبر حق ہے ۔
علماء حضرات اس مذکورہ روایت کو رد تو نہ کرسکے کیونکہ احمد بن حنبل نے اس کو اپنی مسند میں بیان کیا لیکن افسوس کہ اس میں اضافہ کیئے گئے پیرا گراف کو صحیح مان کر اللہ کے رسول پر ایک نہایت سنگین الزام لگا دیا ۔ سنیے اہل حدیث عالم مفتی دامانوی صاحب فرماتے ہیں کہ ” ان مختلف احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عائشہ صدیقہ کو پہلی مرتبہ ایک یہودی عورت نے عذاب قبر کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی نبی ﷺ نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا بعد میں آپ پر وحی بھیجی گئی اور آپ ﷺ کو عذا بِ قبر کے متعلق بتایا گیا” (عقیدہ عذاب قبرصفحہ 36)
ان کے مطابق اللہ کے رسول نے عذاب قبر کی نفی اپنے پاس سے کردی تھی بعد
میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ عذاب قبر تو ہوتا ہے۔ افسوس کہ ایک طرف یہودی عورت کو سچا ظاہر کردیا گیا اور اللہ کے رسول کو نعوذ باللہ بے علم ٹہرادیا اور یہ کہ اللہ کے رسول کے متعلق یہ عقیدہ رکھ لیا گیا کہ وہ دین کی بات اپنے پاس سے بتادیا کرتے تھے۔ یہ ایک بہتان عظیم ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ پر جب بہتان لگا تو اللہ کے رسول نے اپنے پاس سے اُن کی صفائی تک پیش نہیں کی جب تک اللہ نے وحی نازل نہ کردی اور یہاں تو معاملہ ہی دین کا تھا اس پر اللہ کے رسول اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ علماء کی طر ف سے جان بوجھ کر نہ سہی لیکن انجانے میں ہی اللہ کے رسول پر کس قدر سنگین الزام عائد کیا گیا ہے۔اس کے بعد
تین اہم سوال
سوال نمبر۱ عذاب قبر کے انکار والی اس روایت کا یہ واقعہ 10ہجری نبیﷺ کی وفات سے صرف ایک سال پہلے پیش آیا۔اگر ہم اس روایت کے بعد والے حصے کو صحیح مان لیں جس کے مطابق اللہ کے رسول کو عذاب قبر کے انکار کے کچھ عرصے بعد وحی کرکے عذاب قبر کے متعلق آگاہ کیا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا اللہ کے رسو ل نے نبوت کے بعد 22سال تک مسلمانو ں سے عذاب قبر بیان ہی نہیں کیا اور وہ بتاتے بھی کیسے انہیں تو روایت کے اضافی پیرے کے مطابق خود معلوم نہیں تھا کہ عذاب قبر ہوتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس روایت کے دوسرے پیرا کو ماننے کے بعد عذاب قبر کی ان روایات کا کیا بنے گا جوبقول ان علماء کے اللہ کے رسول دس ہجری سے پہلے سے بتاتے آ رہے تھے؟۔ اِس طرح تو وہ تمام روایات جوعذاب ِقبر سےمتعلق سنائی جاتی ہیں کیا خود بخود ہی باطل نہیں ٹہرجاتیں ؟
سوال نمبر3 یہ روایت جو تین چار طریقوں سے بیان ہوئی ان سب میں اللہ کے رسول کا جواب مختلف کیوں ہے ۔مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس روایت کے دوسرے پیرے کو سچا مانتے ہیں جبکہ روایت کا دوسرا پیرا من گھڑت ہے کیوں کہ اللہ کے رسول نے خود امام بخاری کے مطابق عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال پوچھنے پر عذاب قبر کے حق ہونے کا پہلے ہی اظہار کر ہی دیا تھا توپھرمسند احمد میں یہ کہنا کہ اللہ کے رسول کو بعد میں عذاب قبر کی خبر دی گئی تھی کیا ویسے ہی جھوٹا ثابت نہیں ہوجاتا ۔ اب شیخصیت پرست امام بخاری کو بچائیں یا ان کے استاد امام احمد بن حنبل کو یہ ان کا معاملہ ہے بحرحال دونوں کی بیان کردہ ایک ہی واقع سے متعلق روایات میں سے کسی ایک کو مان کر دوسری کا انکار کرتے ہوئے منکر حدیث کے اس فتوے سے ہر گز نہیں بچ سکتے جو وہ ہول سیل میں دوسروں کو بانٹتے ہیں ۔
نوٹ :اس واقعے کی تمام روایات میں ایک یہودی عورت کا زکر ہےجس سے معلوم ہوا کہ عقیدہ عذاب قبرخالص یہودیوں کا ہی پیش کردہ ہے۔
عذاب قبر سے متعلق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مسند احمد جلد 11 روایت نمبر 25025 جس کا پہلا پیرا عین قران کے مطابق ہے اسے میں نے کل پوسٹ کیا تھا ۔ یہ صرف ایک روایت نہیں بلکہ ایک واقع ہے جو کتب روایات میں کوئ دس جگہ بیان ہوا ہے ۔ اور جو واقعہ ہوتا ہے اس میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اس کو بیان کرنے والے اپنی طرف سے بھی کچھ نمک مرچ ساتھ لگا دیتے ہیں اور بعض لوگ واقعے کی بہت سی چیزوں کو مکمل ہی بدل دیتے ہیں جیسے کہ اس واقعے میں حضرت عائشہ صدیقہ تک کا سوال سب میں یکساں ہے لیکن اس کے بعد جو اللہ کے رسول کی طرف سے جواب آیا وہ سب میں ایک جیسا نہیں ۔ اس سے ایک تو یہ بات ثابت ہوگئ کہ یہ لوگ جو عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم جو حدیث تمہیں بتارہے ہیں یہ اللہ کے رسول کا قول ہے اگر اللہ کے رسول کا قول ہوتا تو لفظ بہ لفظ ایک ہوتا ۔ آج اگر کوئ شیکسپیر کے اقوال کسی ریفرنس کے ساتھ کوٹ کرتا ہے تو سیم الفاظ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ کیسی روایات ہیں کہ ایک محترم برگزیدہ ہستی کی جانب سے جو جواب دیا جارہا ہے اور اس کو بقول ان کے سند کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تو ان روایات میں اللہ کے رسول کا جواب ہر جگہ مختلف ہے اس طرح ان کا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ یہ زخیرہ بڑی ہی احتیاط کے ساتھ منتقل ہوا ہے جب الفاظ ہی محتلف ہیں تو ایسی احتیاط کو 21 توپوں کی سلامی 😀شیطان نے پہلے کچھ ناموں کو بہت بڑا بڑا بنادیا پھر ان ناموں کے ساتھ اپنی طرف سے پیش کی جانے والی چیزوں کو منسوب کرکے ان کو بھی بڑا بڑا کردیا ۔ اب انسان چھوٹا ہوگیا ہے اس کی عقل چھوٹی ہوگئ ہے لیکن محدثین بہت بڑے بڑے ہوگئے ہیں اتنے بڑے کہ مسند احمد کی یہ روایت جو بخاری کی روایت کے بالکل برعکس ہے اس کا انکار کرنے کی بھی ہمت ان کے پیروکاروں میں نہیں رہی ۔ مسند احمد کی اس روایت کو ماننے سے یہ لازم آجاتا ہے کہ اللہ کے رسول دین کے متعلق باتیں بھی اپنی طرف سے کرجایا کرتے تھے بعد میں انہیں وحی کے زریعے بتایا جاتا تھا ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ عظمت رسول پر جان بھی قربان ہے یہ سب خیالی باتیں ہیں ایک روایت قربان نہیں ہوسکتی تو جان کیا قربان کریں گے ۔