عشق کا عین !۔ قاری حنیف ڈار
امام مالک رحمہ اللہ مدینے میں ھمیشہ ننگے پاؤں چلتے تھے کہ ان کے جوتے کہیں اس جگہ کو نہ چھو لیں جہاں نبئ کریم ﷺ کا پاؤں مبارک پڑا تھا ،، آخر عمر میں مسجد نبوی میں درسِ حدیث کو موقوف کر دیا ،، اور جماعت کی نماز میں بھی نہیں جاتے تھے ،، جب کچھ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ امام مالک مغرور ھو گئے ہیں تب وضاحت کی کہ میں جریان البول کے مرض میں مبتلا ھوں ، اس مرض میں غدود کی وجہ سے مثانہ مکمل بند نہیں ھوتا اور پیشاب قطرہ قطرہ چلتا رھتا ھے ، فرمایا کہ میں اس حالت میں نبئ کریم ﷺ کے پڑوس میں نہیں رہ سکتا ،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاد کے گھر کیطرف پاؤں کر کے نہیں سوتے تھے اسی طرح کے واقعات کئ دیگر بزرگوں کے بارے میں بھی مروی ہیں ،،
امام احمد رضا خان بریلوی سچے عاشقِ رسولﷺ اور بےبدل فقیہہ تھے مگر افسوس کہ ان کو پروپیگنڈہ کر کے بدنام کر دیا گیا ، جن جن بدعات و رسوم کے خلاف انہوں نے فتوے دیئے لوگوں نے ان بدعات کو انہی کی طرف منسوب کر کے ان کو بدنام کیا ،، جبکہ حیقیت یہ ھے کہ ان کے پائے کا فقیہہ اور مدحِ رسول ﷺ کرنے والا ھند نے پیدا نہیں کیا ،،
طاعون کی وبا پھیل گئ حالت یہ تھی کہ دفنانے والے میسر نہیں تھے اور لوگ جا بجا مرے پڑے تھے ، ایسے میں امام احمد رضا رحمہ اللہ بھی بظاھر اسی وبا میں مبتلا ھو گئے ، بخار تھا کہ ٹوٹ کر نہیں دے رھا تھا ، طاعون کی ساری نشانیاں موجود تھیں مگر امام احمد رضا کو جب بھی ھوش آتا تو فرماتے کہ مجھے طاعون نہیں ھے ، مجھے طاعون لاحق نہیں ھو سکتا ،، اللہ پاک نے شفا دے دی تو شاگردوں نے پوچھا کہ آخر آپ کو یہ یقین کیوں تھا کہ آپ کو طاعون نہیں ھو سکتا ؟
آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ھے کہ جس نے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لی (
قال صلى الله علية وسلم من رأى صاحب بلاء فقال :
"الحمد لله الذى عافانى مما ابتلاك بة وفضلنى على كثير ممن خلق تفضيلا عوفى من ذلك البلاء كائنا ما كان عاش”)
تعریف اس اللہ کی کہ جس نے مجھے بچا لیا اس بیماری سے جس میں آپ مبتلا ہیں اورمجھے اپنی مخلوق میں سے بہت ساروں پر فضیلت دی ،، جب تک وہ بندہ زندہ رھے گا اس مرض میں مبتلا نہیں ھو سکتا ،،
چونکہ میں نے ایک طاعون زدہ مریض کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لی تھی لہذا مجھے یقین تھا کہ کم از کم مجھے طاعون کبھی لاحق نہیں ھو سکتا کوئی اور بیماری ھو سکتی ھے ، یہ ھوتا ھے ایمان ایک عاشقِ رسول کا اپنے رسول ﷺ کے فرمان پر !
ایک نواب صاحب تھے جو کہ نواب نان پارہ کہلاتے تھے کیونکہ وہ غریبوں کو روٹیاں تقسیم کیا کرتے تھے ،، نواب نان پارہ نے مولانا احمد رضا بریلوی سے کہا کہ وہ اس کی شان میں کوئی قصیدہ کہیں ،، یہ کام اس زمانے میں عام تھا اور شعراء مختلف امراء کی شان میں قصیدے اور سہرے پڑھ کر مال بٹورا کرتے تھے غالب نے بھی اس کام سے کافی کمایا ھے ،،
نواب صاحب کی فرمائش کو امام احمد رضا نے اس شان سے رد کیا کہ سننے والے میں وجد طاری ھو جاتا ھے ،، آپ نے پوری ایک نعت لکھی جس میں نواب نان پارہ کے مطالبے کو نہایت حکمت اور حقارت کے ساتھ رد کر دیا
؎ کروں مدحِ اھل دول رضا ،پڑے اس بلا میں میری بلا !
میں گدا ھوں اپنے کریم ﷺ کا ، میرا دین پارہ ناں نہیں !
پارہ ناں کا مطلب ھے روٹی کا ٹکڑا ،،
پوری نعت پڑھیئے
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی ٴ دل و جاں نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی در ہے نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہی آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
کرے مصطفی کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جراتیں
کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں
کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں کہ خلد نہ ہو وہ نکو وہ نکوئی کی بھی ہے آبرو
مگر اے مدینہ کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں
ہے انہیں کے نور سے سب عیاں ہے انہیں کے جلوہ میں سب نہاں
بنے صبح تابش مہر سے رہے پیش مہر یہ جاں نہیں
وہی نور حق وہی ظل رب ہے انہیں سے سب ہے انہیں کا سب
نہیں ان کی ملک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
ترا قد تو نادر دہر ہے کوئی مثل ہوتو مثال دے
نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں
نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا
کہو اس کو گل کہے کیا کوئی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں
کروں مدح اہل دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہٴ ناں نہیں