عورت اور مرد قرآن کے استعاروں میں تحریر قاری حنیف ڈار

اللہ پاک نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ مختلف انداز میں مرد اور عورت کی نفسیات ، دائرہ کار اور آپس کے تعاون اور مودت و محبت کی ضرورت کو واضح کیا ھے ،،مثلا !!وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى. وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى. وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنثَى. إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى.رات کی قسم جب وہ خوب گاڑھی ھو کر چھا جائے، اور دن کی قسم جب وہ خوب چمک اٹھے، اور اس حکمت کی قسم جس کے ساتھ نر اور مادہ کو پیدا کیا گیا ، بے شک تمہارے دائرہ کار اور جدوجہد کے میدان الگ ھیں ،،گویا رات کی خوبی مکمل سیاہ اور گاڑھی ہونے میں ہے ، چمکدار ھونا نہیں ، بلکہ مکمل رات ھونے میں ھے جس میں خوب گاڑھا اندھیرا ھو تا کہ سکون و اطیمنان انسان کے دل و دماغ کی گہرائیوں تک اترے ،خوب گہری نیند آئے خوب چارجنگ ھو اور انسان جب صبح اٹھے تو خوب تر وتازہ دل و دماغ کے ساتھ اٹھے ،،،عورت کی خوبی آدھی عورت اور آدھا مرد ھونا نہیں ، بلکہ مکمل عورت ھونے میں ھے ، عورت ھونا عیب نہیں معاشرے کی ضرورت ھے اور یہ ضرورت عورت ھو کر ھی پوری ھو سکتی ھے ،، آدھی عورت آدھی ضرورت ھی پوری کرتی ھے ،، عام طور پر عورتیں شادی سے پہلے تک ھی مکمل اور پوری عورت ھوتی ھیں جبکہ شادی کے بعد مرد بننے کی جدوجہد میں گزار دیتی ھیں ، اس کا نتیجہ وھی ھوتا ھے جس کا ذکر آگے چل کر دیگر آیات کی روشنی میں سامنے آئے گا ،، گھر برباد ھو جاتا ھے ، طلاق ھو جاتی ھے ، یا میاں بیوی دونوں ذھنی مریض بن جاتے ھیں ،، خواتین اکثر جب اکیلی بیٹھتی ھیں تو اپنی اپنی فتوحات شیئر کرتی ھیں کہ کون کون اپنے شوھر کو کتنا عورت بنا لینے میں کامیاب ھوئی ھے ، اور خود کتنے فیصد مرد بن چکی ھے ،،مرد دوسرے کی عورت میں کشش اس کے عورت پن کی وجہ سے محسوس کرتا ھے کیونکہ یہ بھولی بھالی باھر اتنی سہمی سہمی ، گم سم نظر آتی ھیں اور اپنا عورت پن شو کرتی ھیں کہ دوسرا مرد تڑپ کر رہ جاتا ھے اور سوچتا ھے کہ یہ کتنا خوش قمست مرد ھے جس کو یہ مکمل ھرنی نما عورت نصیب ھوئی ھے ، جبکہ مجھے نہ صرف بُل بلکہ ریڈ بُل ملا ھے ،،جس طرح عورت اپنے اندر آئستہ آئستہ مردانہ صلاحیتیں انسٹال کرتی چلی جاتی ھے مرد کے دل سے دور ھوتی چلی جاتی ھے ، اور وہ کسی عورت کی تلاش میں رھتا ھے ، بیوی کی شکل کی خوبصورتی ایک ثانوی مسئلہ بن جاتی ھے ، یہ خوبصورتی جال کا کام تو دیتی ھے مگر پنجرے کا کام کبھی نہیں دیتی ، بعض بد صورت یا کم خوبصورت بیوی کے ساتھ مرد کے حسنِ سلوک اور پیار محبت پر دوسری عورتیں دانتوں میں انگلیاں دبا لیتی ھیں کہ بیوی دیکھو ” منہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتھا ” مگر شوھر دیکھو کیسے آگے پیچھے پھرتا ھے ،
دوسری جانب مرد جتنا عورت بنتا چلا جاتا ھے بیوی کی نظر سے گرتا چلا جاتا ھے ، عورت کو اس مرد کی تلاش ھوتی ھے جس پر وہ بھروسہ کر سکے ، جو اس کی خاطر ایک ٹھوس سوچ سوچنے والا ھو اور اس سوچ کا عملی جامہ پہنانے والا بھی ھو ، جس کے سپرد معاملہ کر کے وہ بےفکر ھو کر سو سکے کہ اب یہ کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا ، نہ کہ ممی ڈیڈی ٹائپ شوھر جو خود بیوی کو ھی ھر وقت ٹہوکے مار کر پوچھتا رھے کہ ” اب کیا کروں ؟ ” اگر مرد کی سوچ بھی عورت نے ھی سوچنی ھے تو مرد کی مردانگی کا کیا فائدہ ؟دوسری آیات میں دن کو روزی روٹی اور رات کو بس سکون کے طور پر بیان فرمایا ،،
عورت اور رات ھمیشہ سکون کے استعارے میں استعمال ھوئے ھیں جبکہ مرد اور دن روزی روٹی کے استعارے میں استعمال ھوئے ھیں ،،ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا و جعل بینکم مودة و رحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون (سورہ روم’ 21)اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ھے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری نسل سے جوڑے پیدا کئے تا کہ تم ان سے سکون حاصل کرو ، اور تم میں مودت اور رحمت رکھ دی- اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ھیں ،،(( وَمِن رَّحْمَتِہِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْكُنُوا فِيہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ …القصص))
اور یہ اس کی رحمت کے مظاھر میں سے ھے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن رکھے تا کہ تم اس سے سکون پاؤ اور اللہ کا فضل ڈھونڈو اور تا کہ اللہ کا شکر کرو ،((هو الذي خلقكم من نفس واحدة وجعل منها زوجها ليسكن إليها( الاعراف) ))
وھی ھے جس نے تمہیں پیدا کیا ایک جان سے اور بنائی اس کی بیوی تا کہ اس سے سکون حاصل کرے ،،(( قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ) ( القصص-71)کہہ دیجئے کہ کیا تم نے بصیرت کی نظر سے دیکھا ھے کہ اگر اللہ دن کو تم پر قیامت تک مستقل کر دے تو کون دوسرا خدا ھے جو تمہارے لئے رات لے کر آئے جس میں تم سکون پا سکو ؟ کیا تم دیکھتے نہیں ھو ؟؟مرد گھریلو زندگی کو لے کر چلنے والی گاڑی کا انجن ھے ،جبکہ عورت اس انجن کو ٹھنڈا کرنے والا ریڈی ایٹر ھے ، یہی سکون ھے ،، جتنا اھم انجن ھے ویسا ھی اھم یہ ریڈی ایٹر بھی ھے ، مرد باھر سے گرم آئے تو عورت کو اپنے رویئے اور باڈی لینگویج سے اس کو ذرا سکون کا احساس دلانا چاھئے ، بجائے اس کے کہ وہ تندور سے نکل کر آئے تو گھر والی نے آگے جھنم بھڑکا رکھی ھو ،، اگر معیشت کا پہیہ عورت کی نوکری کے بغیر چل سکتا ھے تو عورت کو جاب کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاھئے ، سوائے تعلیم اور طبی میدان کے جہاں عورت کی تعلیم کے لئے عورت کی ھی اشد ضرورت ھے ، عورت کی ھر چیز اس کے شوھر کی امانت ھے یہاں تک کہ وہ صبر جو وہ اپنے باس کی ڈانٹ ڈپٹ اور جاب سے متعلق اور دیگر دفتری بے انصافیوں پر کرتی ھے وہ صبر بھی شوھر اور گھر کی امانت ھے جس کو وہ دفتر میں خرچ کر آتی ھے اور گھر میں ھر ایک کے گلے پڑتی پھرتی ھے ،، جب عورت باھر کام کرنا شروع کر دے تو اب مرد کو اس سے وابستہ اپنی توقعات کو بھی ذرا دھیما کر لینا چاھئے ، ایک تو اس وجہ سے کہ وہ بھی اس کی طرح اب باھر سے گرم ھو کر آئی ھے اور اسے گھر میں سکون درکار ھے ۔ دوسرا معاشی طور پر بھی اس نے آدھے مرد کا کام شروع کر دیا ھے۔ چنانچہ اب اسے آدھی عورت پہ ھی گزرا کرنا ھو گا اور دونوں کو صبر سے کام لے کر بچے پالنا ھونگے،والدین میں سے والد کو اللہ پاک نے سورج اور والدہ کو چاند سے تعبیر کیا ھے ،، جیسا کہ سورہ یوسف میں گیارہ بھائیوں کو گیارہ ستارے اور ماں باپ کو چاند سے تشبیہہ دی ھے ،إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (یوسف-4)والد کا کام بیٹے کی تربیت کرنا ھے کہ سورج دن کا سبب ھے اور یہ دن معیشت کے لئے ریڑھ کی ھڈی ھے ، اس کا بیٹا دن ھے تو بچے کو تجارت اور روزی روٹی کمانے کے گر سکھائے جبکہ بہو اور بیٹی رات ھے ،، چاند کا کام رات کو منور کرنا ھے لہذا والدہ کا کام اپنی بیٹیوں کی تربیت اور بہو کو مناسب رویئے کے ساتھ اس طرح تیار کرنا ھے کہ بیٹے کے آنگن کا چاند ثابت ھو اور بیٹی اپنے سسرال کا چاند ثابت ھو ،،سورہ والشمس میں فرمایا ؎وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا.- قسم ھے سورج کی اور اس کی روشنی کی ،وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاهَا. اور قسم ھے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا آتا ھے،وَالنَّهَارِ إِذَا جَلاَّهَا. اور قسم ھے دن کی جب وہ خوب نمایاں ھو جائے،،وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا. اور قسم ھے رات کی جب وہ خوب پوشیدہ ھو جائے،وَالسَّمَاء وَمَا بَنَاهَا. اور قسم ھے آسمان کی اور جس طرح اس کو اٹھایا ھے ،وَالأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا. اور قسم ھے زمین کی اور جس طرح کہ اس کو بچھایا ھے،وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا. اور قسم ھے نفسِ انسانی کی اور جس طرح کہ اس کو برابر کیا ھے،فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا. پس اس میں فجور اور تقوے کی قوتیں یکساں طور پر الہام کر دیں،قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا. کامیاب رھا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا ،،وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا. اور ناکام رھا وہ جس نے اس کو دبا دیا ،،شمس و قمر کو مرد اور عورت کے استعارے میں دیکھیں ،سورج کا قیادت کرنا اور چاند کا اس کے تابع ھونا دیکھیں ، سور ج دن کو روشن کرنے والا ، رات بعد میں آتی ھے تو چاند بھی بعد میں آتا ھے جو اس کو روشن کرتا ھے، دن کی قسم جب وہ خوب نمایاں ھو جائے ،، مرد کی مردانگی کا یہی تقاضا ھے کہ وہ نمایاں رھے اور اپنی ھر قسم کی ذمہ داریاں اپنے سر لے ،، رات کی قسم جب وہ خوب پوشیدہ ھو جائے گاڑھی سیاہ ھو جائے عورت نمایاں ھونے سے گریز کرے تو خیر اسی میں ھے ،، آسمان رزق کا وسیلہ ھے ،یرزقکم من السماء ،من یرزکم من السماء والارض ،، آسمان سے پانی کا آنا رزق ھے تو زمین کا اس پانی سے فصل اگانا رزق ھے ، میاں بیوی کی یہی مثال ھے ،عورت کو کھیتی سے تشبیہہ اسی رزق یعنی اولاد کی وجہ سے دی گئی ھے ، کائنات آسمان اور زمین کی صورت میں تقسیم کی گئی ھے اور وقت کو رات اور دن کی صورت میں تقسیم کیا گیا ھے اور انسانیت کو مرد اور عورت کی صورت تقسیم کیا گیا ھے ، نہ آسمان زمین سے افضل ھے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ھیں ، دن اور رات یکساں اھمیت رکھتے ھیں اور مرد و زن دونوں انسانیت کی بقا اور نشو ونما کے لئے یکساں اھمیت کے حامل ھیں ،
نفسِ انسانی مرد و عورت کی صورت میں پیدا کیا گیا ھے اور مرد کو مردانہ صلاحتیں دینا اس کا تسویہ ھے اور عورت کو زنانہ صلاحیتیں دینا عورت کا تسویہ ھے ،، عورت زنانہ صلاحیتوں کو چمکائے گی تو اس مقصد میں کامیاب ھو گی کہ جس میں انسان کی تخلیق اور تربیت میں اس پر بھروسہ کیا گیا ھے ، اگر زنانہ صلاحیتوں کو دبا دے گی تو اس مقصد میں ناکام رھے گی جو اس کو تفویض کیا گیا ھے ، مرد کی ذمہ داری مردانہ ذمہ داریوں کو اٹھانے کی ھے اگر وہ اپنی قائدانہ ذمہ داریاں عدل کے ساتھ اٹھائے کھڑا ھو گا تو قوام ھے ،، کسی کے رعب میں آ کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرے گا تو ناکام رھے گا ، اگر عورت کی ذمہ داری پھل پھول لانا ھے تو مرد کی ذمہ داری کھاد و پانی فراھم کرنا ھے ، کہ عورت ان معاملات میں بے فکر ھو جائے اور اپنی ذمہ داریوں کی فکر کرے ،، اگر عورت کو فکر معاش میں مبتلا کر دیا گیا تو وہ اولاد کے معاملے میں ناقص رہ جائے گی ، آج ھر چیز ماضی سے بہتر اور پائیدار بن رھی ھے سوائے انسان کے ، انسان ھر آنے والے دور میں بدترین پروڈکشن کی صورت میں مارکیٹ میں آ رھے ھیں گویا انسان بنانے والی فیکٹری میں کہیں گراریاں اوپر نیچے ھو گئی ھیں اور انسانیت ٹانکا ٹاپ کر رھی ھے ،،چونکہ قومیں مرد و زن سے مل کر بنتی ھیں پھر مثال کے طور پر قوم ثمود کا ذکر کیا ھے ، اس کے بگڑے ھوئے کچھ لوگوں کا ذکر کیا ھے جو کہ ظاھر ھے گھر سے ھی بگڑے تھے اور پھر اس قوم کے انجام سے آگاہ کیا ھے اور پھر یہ بات واضح کی ھے کہ اللہ پاک جب کسی قوم کو ناکام قرار دے کر تباہ کرنے کا فیصلہ کر لے تو اپنے ایکشن کے ری ایکشن یا آفٹر ایفیکٹس یعنی نتائج سے ذرا بھی نہیں ڈرتا ،،

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.