عورت کے پردے کا حکم از روئے قرآن و حدیث از مولانا محمد علی
نقاب یا برقع اوڑھنا ضروری یا نہیں :
سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے باہر جائیں تو نقاب یا برقعہ اوڑھ لیا کریں؟
جواب: یہ باہر جانے کی ضرورت مذہبی ہو سکتی ہے یا دنیوی۔ پہلی صورت یعنی مذہبی ضرورت کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ ایک تو نماز باجماعت میں شرکت اور دوسری ادائیگی حج ہے۔
اگر عورتوں کیلئے برقع یا نقاب اوڑھنا ضروری ہوتا تو ان دونوں موقعوں پر اس کے اوڑھنے کا حکم لازماً دیا جانا چاہیئے تھا۔ کیونکہ یہی دو مواقع ہیں کہ مردوں کے جذبات کلیتہً پاک و صاف ہونے چاہئیں اور اُن تمام باتوں سے جن سے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں، پرہیز کرنا چاہیئے۔ اس کے لئے نہ صرف ایسا کوئی حکم ہی نہیں بلکہ یہ ایک مسلمہ طریق عمل رہا ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کیلئے مساجد میں بے نقاب آتی تھیں۔(حوالہ جامع البیان فی تفسیر القرآن ج ۱۸ ص ۸۴)۔ خود فقہاء نے بھی تسلیم کیا ہے کہ عورتوں کو نماز کے وقت اور حج کے موقعہ پر نقاب یا برقع نہیں اوڑھنا چاہیئے۔
نماز کی حالت میں یہ حکم ہے کہ عورت کا سارا جسم سوائے ہاتھ اور چہرہ کے ڈھکا ہونا چاہیئے۔ الھدایہ (ج ۱ ص ۸۸ شرط الصلوة) میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان دو حصوں کے استشناء کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کھلا رہنا ضروریات سے ہے۔ حج کے متعلق حدیث میں صریح حکم ہے کہ کوئی عورت دوران حج نقاب نہ پہنے۔ (حوالہ البخاری کتاب ۲۵ المناسک باب ۲۳). یہ بھی مسلمہ ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مساجد میں مرد عورت کو الگ الگ رکھنے کیلیئے کوئی پردے لگے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ صرف اسقدر اہتمام کیا جاتا تھا کہ عورتیں مردوں سے پیچھے الگ صفوں میں کھڑی ہوتی تھیں۔ اسکے ماسواہ وہ سب ایک ہی کمرہ یا ایک ہی صحن میں ہوتے تھے اور باہم ملتے جلتے تھے۔ حج کےموقع پر انکا میل جول بہت زیادہ ہوتا تھا۔ عورتیں کعبہ کے طواف میں، صفاو مروہ کی سعی میں، عرفات کے میدان میں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کرنے میں مردوں کے ساتھ ساتھ ہوتی تھیں مگر پھر بھی انہیں نقاب پہننے کا حکم نہ تھا۔
پس جیسا کہ سب کو مسلم ہے اگر مذہبی مواقع پر عورتیں مردوں سے ملتے جلتے ہوئے نقاب نہیں پہنتی تھیں، جبکہ موقع کا تقدس نقاب کا متقاضی تھا، تو ظاہر ہے کام کاج کرنے کیلئےباہر جاتے وقت عورتوں کو نقاب اوڑھنے کا حکم کس طرح دیا جاسکتا تھا، جبکہ نقاب ان کے دنیوی کام کاج کی سر انجام دہی میں حارج ہو سکتا ہے۔ اور ایسا کوئی حکم قرآن مجید میں ہے اور نہ حدیث میں۔ فی الحقیقت ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ جبکہ یہ صریح حکم موجود ہے کہ حج کے موقع پر عورتیں نقاب یا برقع نہ اوڑھیں، بلکہ اس حکم سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نقاب صرف تفوق اور بڑائی کے نشان کے طور پر اختیار کیا گیا تھا اور نقاب کو اتار دینے کا حکم اسلیئے دیا گیا تھا کہ سب کو مساوات کی ایک سطح پر لایا جائے۔
بہرکیف حج کے موقع پر نقاب نہ پہننے کا حکم اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ نقاب پہننا اسلامی شعار میں نہیں ہے۔ اور جن آیات قرآنی میں مردوں اور عورتوں کو آنکھیں نیچی رکھنے کا یہ حکم ہے کہ ” اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو کھلا رہتا ہے اور چاہیئےکہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیں” ۔( النور 24: 31 )، وہ صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ جب مردوں اور عورتوں کو ضروریات کے لئے باہم ملنا جلنا پڑتا تھا تو عورتیں نقاب نہیں پہنتی تھیں ورنہ مردوں کو نیچی آنکھیں رکھنے کے حکم کی ضرورت نہ تھی۔ اور بات کو زیادہ صاف کرنے کیلئے آیات مزکورہ میں یہ الفاظ بھی وارد ہیں ” ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر مھا "
” اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو (عادتاً) کھلا رہتا ہے”
یعنی اُس کے سوا جو چاروناچار ظاہر کرنا پڑے، عورتیں اپنی زینت کو چھپائے رکھیں۔ اب جو حصہ ضرورتاً ظاہر کرنا پڑتا ہے، وہ چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ اور یہی مفسرین میں سے اکثریت کا مذہب ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے ان اعضاء میں سے جنہیں چھپانے کا حکم ہے، چہرہ اور ہاتھ کو مستشنیٰ قرار دیا ہے۔
حضرت اسماء حضرت نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے اُن سے اپنا چہرہ موڑ لیا اور فرمایا : اسے اسماء ! جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دینا چاہیئے۔ بجز اِس کے اور اِس کے۔ اور حضورﷺ نے اپنے چہرہ اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔( سنن ابی داود کتاب ۳۱ باب ۳۰)
اچھا لباس
قرآن مجید جو کچھ چاہتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ عورتیں جب باہر جائیں تو ان کا لباس بہت معقول اور عمدہ ہونا چاہیئے اور یہ کہ ان کا سینہ برہنہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کی توضیح سورة نور (۳۱:۲۴) سے ہوتی ہے جس میں فرمایا:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ
“ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو کھلا رہتا ہے اور چاہیئےکہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیں” ۔
قبل از اسلام عرب کی عورتوں میں سینہ بے پردہ رکھنے کا دستور نمائش حسن میں شامل تھا اسلیئے خدا تعالی نے چھاتی کے ستر کا حکم دیا۔ اور اس طرح گھر میں رہنے اور باہر جانے کے لباس میں ایک فرق کر دیا۔ پہلی صورت میں باپوں، بیٹوں اور خاوندوں کے باپوں کی موجودگی میں اجازت تھی کہ لباس کے معاملہ میں اپنی آسانی دیکھیں۔ مگر گھر سے باہر جانے کی صورت میں انہیں احتیاط سے کام لینا چاہیئے کہ ان کی ظاہری حالت ہی ان کے وقار کی آئینہ دار ہو۔ ایک اور موقع پر مسلمان عورتوں کو حکم تھا کہ وہ ایسا لباس پہنیں جسکی ظاہری شکل و صورت ہی اِن کو اُن عورتوں سے ممتاز کر دے جن کی شہرت اچھی نہیں۔ فرمایا :
“ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ “ ۔
( الاحزاب ۵۹:۳۳ )
اے نبی، اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے”۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی ضرورت اس وقت پیش آئی جبکہ مدینہ میں خاص حالات پائے جاتے تھے اور منافقین ایک شریف مسلمان عورت کو، جبکہ وہ گھر سے باہر جاتی تھی، تکلیف پہنچاتے اور پھر یہ عذر پیش کردیتے کہ انہوں نے اسے بُری شہرت والی عورت خیال کیا تھا۔ اسکی طرف صاف طور پر اگلی آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ فرمایا:
لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا
( الاحزاب ۶۰:۳۳ )
“ اگر منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں بری خبریں اڑانے والے باز نہ آئیں تو ہم تجھے ان کے خلاف اٹھائیں گے۔ پھر وہ اس (شہر) میں تیرے ساتھ نہ رہنے پائیں گے مگر تھوڑا "
اوپر اوڑھنے کی چادر کے لئے عربی لفظ "جلْبابُ ” ہے۔ اور اس کے معنی ہیں وہ کپڑا یا لباس جس سے ایک عورت اپنے دوسرے لباس کو ڈھانکتی ہے یا عورت کا دوپٹہ یا اوڑھنی یا ایسا لباس، جس سے عورت اپنا سر اور چھاتی ڈھانکتی ہے۔ یہ ایک معمولی لباس کا حصہ بھی ہو سکتا ہے یا ایک قِسم کا اوور کوٹ بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کا پہننا ہر حالت میں لازمی نہیں ہے بلکہ یہ ایک قِسم کی حفاظت ہے جبکہ تکلیف کا خدشہ ہو یا معمر عورتوں کی صورت میں اسکو بالکل ترک کیا جا سکتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آتا ہے ۔ فرمایا
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاء اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ
( النور ۶۰:۲۴ )
“ اور بڑی عمر کی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے ( اوپر کے ) کپڑے اتار رکھیں، بغیر اس کے کہ سنگار دکھاتی پھریں “۔