عہدِ الست از قاری حنیف ڈار
[وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ (الاعراف ـ 172)
اور جب لیا تیرے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو اور گواہ بنایا ان کو اپنی جانوں پر کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ کہا انہوں نے ’’ کیوں نہیں اے رب ہمارے ‘‘ یہ عہد اس لئے لیا گیا کہ تا کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم توحید سے غافل تھے ـ
یہ عہد صرف توحید کا عہد تھا ، رب کے وجود کا اعتراف تھا اور یہی وجہ ھے کہ ھر انسان کو رب کی تلاش ہے ، اگر کوئی خدا تک نہ بھی پہنچا تو اس کی تلاش میں غلط جگہ ضرور جا پہنچا ،
خود یہ آیت کہہ رھی ھے کہ باپ پہلے طے ھوا پھر اس کی پشت سے بیٹا اور بیٹے کی پشت سے پوتا نکلا ،، ’’ من بنی آدم من ظھورھم ‘‘ بنی آدم کو ایک دوسرے کی پشتوں سے نکال کر عہد لیا ۔ اس لئے یہ کہنا کہ رشتے دار بھی ہم نے چنے تھے ایک مہمل اور خلاف واقع بات ہے ، اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے ہمیں ان رشتے داروں کے کرتوت بتائے جاتے پھر اختیار دیا جاتا کہ کس کو باپ اور کس کو بیٹا بنانا ھے ، کوئی یہ کہنا چاہتا ھے کہ نوح علیہ السلام نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کا بیٹا کافر ھو گا ، اس کو بطور بیٹا چنا اور بیوی کا معلوم ھونے کے باوجود کہ وہ کافر ھو گی ، اس کو بطور بیوی پسند فرمایا اور لوط علیہ السلام نے بھی عالمِ ارواح میں اپنے لئے کافر بیوی منتخب فرمائی اور آسیہ علیہا السلام نے فرعون کا کفر جانتے ھوئے اس کو شوھر چنا ،،
رہ گئی بات زمانے کی کہ ھم نے اپنا زمانہ بھی خود چنا ہے کہ ہمیں راکٹ کے زمانے میں پیدا کیا جائے اور پتھر کے زمانے کے لوگوں نے خود ھی کچا گوشت کھانے اور پتھر پر پتھر مار کر آگ نکالنے والا زمانہ چنا تھا ،، یہ بھی ’’ وہ کیا ہے ‘‘ قسم کے پروگرام کے سوا کچھ نہیں ،، وہ کون بدبخت مسلمان ھے جس کو اختیار دیا جائے کہ وہ مصطفی ﷺ کے زمانے میں پیدا ھونا چاھتا ھے یا نواز شریف اور زرداری کے زمانے میں اور وہ مصطفی ﷺ کے زمانے کو چھوڑ کر موجودہ زمانے کو ترجیح دے ،، انسان سے تو اس کی اور اس کی اولاد کی شکل و صورت کے بارے میں بھی کنسلٹ نہیں کیا گیا فی ائ صورۃ ما شاء رکبک ،، جس شکل میں چاھا تمہیں assemble کیا ،،
ارشاد فرمایا کہ وہ تم سے اس وقت بھی واقف تھا جب اس نے تمہیں مٹی سے نکالا اور جب تم ماؤں کے پیٹ میں نادیدہ شکل میں تھے ،لہذا زیادہ نیکی نہ بھگارا کرو وہ بخوبی جانتا ھے کہ کون کتنا متقی ہے ،، یہ آیت نفی کرتی ھے کہ ھمیں اپنے اور اپنے رشتے داروں کے بارے میں کچھ بھی معلوم تھا ،،
[هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ (والنجم ـ32)
جنم بھی ایک ہی ہے اور اسی ایک کا حساب حشر میں دینا ھے ،، عملوں کی بنیاد پر کوئی دوسرا جنم اور تیسرا جنم قرآنِ حکیم کے جزاء و سزا کے بعد صرف جنت یا دوزخ جانے والی آیات کی نفی کرتا ھے !!
عہد الست
21 نومبر 2018
سب سے پہلے اللہ کا علم ہے جس میں میرے، آپ کے اور آدم علیہ السلام سمیت سب ہمیشہ سے موجود ہیں ، اللہ پاک مجھے اور آپ کو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے بھی اسی طرح جانتا تھا جس طرح مرنے کے بعد بھی ہم اس کے علم میں زندہ ہی ہونگے اگرچہ لوگوں کے لئے مر گئے ہونگے ، یعنی ہم اپنے پیدا ھونے سے پہلے بھی موت سمیت اللہ کے علم میں موجود تھے، کس دور میں پیدا ھونا ہے ، کب مرنا ہے یہ سب طے شدہ تھا ،، اس کے بعد امر کا مرحلہ آتا ہے کہ اللہ پاک اپنے علم کو امر کے ذریعے وجود بخشتا ہے ، آدم کو وجود دیا گیا اور یہ سب سے پہلے عالمِ مثال میں ہوا ، یعنی آدم علیہ السلام کی Animated تصویر عالم مثال میں نمودار ہوئی کہ کیا شکل و صورت ہو گی وہیں ہمیں ایک دوسرے کی پشت سے نکالا گیا ہر شخص کا اپنا شجرہ نسب یعنی میرے پردادا سے دادا نکلے دادا جی سے والد صاحب نکلے اور والد صاحب سے میں نکلا مجھے قاسم نکلا وغیرہ وغیرہ آدم علیہ السلام سے لے کر میری نسل میں آخری پیدا ھونے والا انسان ہم سب ایک ہی بیرک میں ہیں جس کو حدیث میں جنود مجندہ ،، گچھوں کے گھچے ،، یا جس طرح پرات میں آٹا گندھا ہوا ہوتا ہے ،عورت اس میں سے ایک پیڑا لیتی ھے اور روٹی کو وجود اور شکل عطا کر دیتی ہے، کوئی ٹیڑھی میڑھی کوئی گول والی ، اسی طرح ہم ماں باپ نے اس پرات میں سے لے کر ایک شکل دے دی وہی شکل جو پہلے سے طے تھی ،، یہ سب پہلے عالمِ مثال میں ڈسپلے کیا گیا وہی وقت تھا عہدِ الست کا ،، ہم دوبارہ بھی عالم ِ مثال سے پرنٹ کمانڈ کے تحت ری پرنٹ یا ری برتھ ھونگے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ، کیا وہ ان کی مثل بنانے پر قادر نہیں [
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (یاسین 81) کیوں نہیں جبکہ وہ ماہر تخلیق کرنے والا ہے ،، اب رہ گئ یہ بات کہ ہم کو وہ عہد یاد کیوں نہیں ؟ تو گزارش ہے کہ اگر وہ یاد رہتا تھا رسولوں کی کیا ضروررت تھی؟ فذکر انما انت مذکر ،، یاد کرایئے بےشک آپ یاد دہانی کرانے کے لئے بھیجے گئے ہیںَ اسی لئے وحی کو ذکر اور تذکیر یعنی Reminder کہا گیا ہے ، جس طرح کسی کی یاد داشت متأثر ھوتی ھے تو وہ بے دھیانی میں بہت سارے وہ کام کر جاتا ھے جن کا اسے شعور نہیں ہوتا ، اسی طرح اللہ سے کیئے گئے عہد کا ایک نقش ہمارے لا شعور میں موجود ہے چیک بک کی اس چھوٹی سلپ کی طرح جو چیک کٹنے کے بعد ثبوت کے طور پر چیک میں لگی رہ جاتی ہے ، اسی نقش کا کمال ہے کہ ہر ایک کو خدا کی تلاش و پیاس ہے، حقیقی تک نہ پہنچے تو کہیں نہ کہیں سر ٹیکے ہوئے ہے ،، قیامت کے دن فیصلے ہونگے کہ وہ اس تلاش میں کتنے مخلص تھے اور کتنی سعی فرمائی نیز ان کو کس نے بھٹکایا تھا ؟ یہی وجہ ہے کہ ہر مذھب کی عبادتگاہ کو تحفظ دیا گیا ہے کہ جو بھی وہاں پہنچا ہے اللہ کی تلاش کا مارا ہی پہنچا ہے ـ
کسی کا درخت کو پوجنا یا آگ اور پتھر کو پوجنا اسی طرح ھے جیسے کوئی پیاس سے گیلی مٹی چاٹنا شروع کر دے ،،گویا یہ تو ثبوت ھے کہ انسان کے اندر کتنی پیاس اور تلاش ھے اللہ کو پانے کی ، وہ اللہ جس کا عہدِ الست اسے کسی خدا کی تلاش کے لئے تڑپاتا ھے، جس کی تلاش میں وہ کبھی کسی درخت سے لپٹتا ھے تو کبھی آگ کے آگے لیٹتا ھے ، کوئی تو ھے جس کی اسے تلاش ھے ،، یہ کیسے ممکن ھے کہ مخلوق تو ھو مگر خالق کوئی نہ ھو ،صنعت تو موجود ھو مگر صانع نہ ھو
کتنی عجیب بات ھے ،بات بھی کچھ عجیب ھے !
جس نے دیا ھے دردِ دل ،،، وھی میرا طبیب ھے !
دَیر و حرم میں امتیاز ،،،،،شیوہِ اھلِ دل نہیں !
وہ بھی درِ حبیب ھے ،،، یہ بھی درِ حبیب ھے !