عہد الست تحریر : زاہد جانبِ حق
آیت الست
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
اسلام علیکم دوستو
میں آپ کے سامنے سورہ الاعراف کی آیت 172 جو آیت الست کے نام سے بھی مشہور ہے کی تفسیر پیش کروں گا۔ پچھلے مفسرین نے اس آیت کو ہماری اس زندگی سے پہلے کا واقعہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جب پہلی مرتبہ روحوں کو تخلیق کیا تو ان سے عہد لیا تھا کہ ایک اللہ ہی ان کا رب ہے ۔یہ بات چند من گھڑت روایات کو لے کر بنائ گئ ہے۔ان روایات پر بات کرنے سے پہلے آیت الست کا جائزہ لیتے ہیں ۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ﴿ 172﴾
ترجمہ : محمد جونا گڑھی : اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے (172)7
نکتہ نمبر 1) اس آیت کے عربی متن میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روح یا نفس کا لفظ موجود نہیں ہے اس کے باوجود مفسرین نے اس واقعے کو اپنی طرف سے ہی عالم ارواح کا ایک واقعہ بنا ڈالاہے ۔ اصول یہ ہے کہ جب بھی آپ کوئ بات سنتے ہیں تو پہلے اسےمعروف طریق پر سمجھتے ہیں ۔ مثلا اگر میں کسی کو یہ بتاوں کہ کل رات میں نے اپنے گھر میں ایک سانپ دیکھا تو کسی کے زہن میں بھی یہ بات نہیں آئے گی کہ یہ کوئ خواب ہے جو میںبیان کررہا ہوں جب تک میں اسے نہ بتاوں کہ یہ محض ایک خواب تھا ۔اسی طرح جب کوئ واقعہ ہم کہیں پڑھتے ہیں تواصولی طور پر اسے پہلے دنیا کا واقعہ سمجھنا چاہیے۔اس آیت میں ایسے کوئ الفاظ موجود نہیں ہیںجو اس واقعے کو اس دنیا میں پیش آنے والے واقعے کے علاوہ کسی اور جہاں میں پیش آنے والا واقعہ قرار دیتے ہوں ۔
اس واقع میںچونکہ بنی آدم کی زریت کا زکر آیا ہے اور بنی آدم اور ان کی زریت چونکہ اسی زمین پر موجود تھی تو اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ واقعہ اسی زمین پر پیش آیا تھا۔جو لوگ اس کو عالم ارواح سے متعلق ٹہراتے ہیں وہ مسند احمد کی ایک روایت جلد دوئم حدیث 272 پیش کرتے ہیں ۔ اس روایت کے تحت یہ واقعہ اگر عرفات کے میدان میں پیش آیا تھا ۔ تب بھی عرفات کا میدان تو زمین پر ہے نہ کہ آسمانوں پر۔اور زمین پر چونکہ نفس کا ظہور اس کے دنیاوی جسم کے ساتھ ہوا ہے لہذا یہ واقعہ چلتے پھرتے کھاتے پیتے انسانوں سے متعلق ہے نہ کہ کسی روح یا غیر مرئی مخلوق کے ساتھ اس کی کوئ نسبت ہے۔
نکتہ نمبر2) وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی۔‘‘
اس آیت کےابتدائ الفاظ کے مطابق نکالی جانے والی نسل/زریت، اولاد آدم کی پشتوں سے نکالی گئ تھی جبکہ روایات میں بتایا جاتا ہے کہ نسل براہ راست آدم علیہ السلام کی پشت سے نکال کر ان سے عہد لیا گیا۔ وہ یہ بھی غور نہیں کرتے کہ آیت میں آدم علیہ السلام کی جگہ بنی آدم کی زریت کا زکر ہواہے اور پھر ظہورھم میں ھم کے الفاظ بھی واحد کے لیے نہیں بلکہ دو سے زائد افراد یعنی جمع کے لیے آئے ہیں لہذہ ایک آدم کی پشت کے بجائے بہت سی پشتوں کا زکر کیا گیا ہے جن سے زریت کو نکالاگیا ۔ افسوس کہ مفسرین کو اتنا بڑا فرق نظر نہیں آتا ۔
پھران روایات کے متعلق تفسیر دعوت القران کے مفسر ابو سیف الرحمان خالدفرماتے ہیں کہ ” حتمی طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ نے واقعی آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا تھا اور ان میں سے اکثر روایتیں ابن عباس پر موقوف ہیں۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہیں” دیکھ لیجیے کہ بعض غور کرنے والے بھی ان روایات کو لے کر شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک تو ان روایات کا قرانی آیات کے ساتھ کوئ تعلق نظر نہیں آتا ، دوسرا یہ کہ ان کاآپس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے مثلا کہیں پر آدم علیہ السلام کے کاندھوں سے اور کہیں پران کی پشت سے روحوں کانکالا جانا بتایا جاتا ہے۔
نکتہ نمبر3) اس آیت میں یہ زکر بھی موجود نہیںہے کہ یہ کوئ عہد تھا جو سب انسانوں سے لیا گیاتھا ۔قران مجید میں بنی آدم اور بھی جگہ استعمال ہوا ہے اور کسی بھی جگہ بنی آدم کا مطلب سارے انسان نہیں ہے ۔ پھر آیت میں زریت کا جو لفظ آیا ہے یہ قران مجید میں 28 بار آیا ہے اور یہ لفظ بھی دنیا کے سارے انسانوںکے لیے استعمال نہیں ہوا ہے ۔ اور اس آیت میں بھی یہ لفظ صرف ان ہی لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے بڑے مشرک ہوچکے تھے ۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔ اوراگر اللہ کو یہ بات کہنی ہی ہوتی تووہ سیدھا ہی فرمادیتا کہ و اذاخذاللہ میثاق بنی آدم جمیعا کہ اللہ نے تمام بنی آدم سے عہد لیا تھا مگر نہ تواللہ نے میثاق یا عہد کا لفظ استعمال کیا اور نہ ہی بنی آدم سے براہ راست کسی عہد کی بات کی۔
نکتہ نمبر4 ) اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آیت الست کے مطابق اللہ تعالٰی نے پہلی مرتبہ روحوں کو تخلیق کرکے ان کو اپنا تعارف کروایا تھاجسے روحوں نے تسلیم کیا تو یوں اللہ کا ان سے عہد ہوگیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا یہ پوچھنا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہو ں اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ وہ اللہ کے رب ہونے کو پہلے سے جانتے تھے تب ہی تو ان سے پوچھا جارہا تھا ۔اگر وہ اللہ کو جانتے ہی نہ ہوتے تو اس سوال پر کہہ دیتے کہ ہمں کیا معلوم کہ آپ ہمارے رب ہو یا نہیں ۔ ان کا اقرار کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ان سے کوئ نیا عہد نہیں کروایا گیا تھا بلکہ جو بات انہوں نے نظر انداز کی ہوئ تھی اس کا اقرار/یاد دہانی ان سے کروائ گئ تھی ۔ اس کی مثال میں یہ آیت بھی دیکھیے
آپ کہیے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ اللہ تو ان سے کہیے کہ پھر وہ کیوں نہیں ڈرتے (31) 10یونس
تو یہاں بھی دیکھیے کہ وہ اللہ کے رب ہونے کا اعتراف کررہے ہیں اور اس لیے کررہے ہیں کہ وہ پہلے سے رب کے متعلق جانتے تھے جس کو وہ شرک کی وجہ سے نظر انداز کردیتے تھے۔ اسی طرح جب اللہ نے بنی آدم کی زریت سے ایک موقع پر یہ اعتراف کروایا تو وہ پہلے سے اللہ کے رب ہونے پر یقین رکھتے تھے مگر اس یقین کو اپنی زندگی میں فراموش کربیٹھے تھے ۔
نکتہ نمبر5) أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شھدنا
یہاں ان الفاظ کو بھی نوٹ کیجیے کہ ایک استفہامیہ سوال ہے جو پوچھا جارہا ہے” کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟”اکثر استفہامیہ سوال جب پوچھا جاتا ہے جب سائل مسئول کو کچھ سمجھانا چاہتا ہو۔ اس طرح کے جملے ہماری عام روزمرہ کی زندگی میں بولے جاتے ہیں مثلا جب بڑا بھائ ، یہ دیکھتا ہے کہ اسے چھوٹا بھائ اہمیت نہیں دے رہا ہے تو اسے سمجھا تے ہوئے پوچھتا ہے کہ کیا میں تمہارابڑا بھائ نہیں ہوں ؟تو یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میںتمہارا بڑا بھائ ہوں جسے تم نظر انداز کررہے ہو ۔ تو یہ سوال بھی اسی طرح کا تھا کہ کیا میں تمہار رب نہیں ہوں ؟ ۔اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے اور جملے بھی قران میں بیان کیے ہیں جیسے ایک جگہ اللہ پوچھتا ہے کہ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ﴿٨﴾ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ سورہ نمبر 95 اب بتائیے کہ دہریوں کو چھوڑ کر کون ہے جو اس بات کو نہیں مانتا۔ مشرکین مکہ بھی اس بات کو مانتے تھے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے مگر شرک کے چکر میں پڑ کر اس بات کو نظر انداز کربیٹھتے تھے تو ا س طرح کے سوال کسی عہد کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو ان کی غلطی کا احساس دلانے کے لیے پوچھے جاتے ہیں ۔ آیت الست میں ان لوگوں سے سوال ہوا تھا جو کھاتے تو اللہ کا تھے لیکن احسان غیر اللہ کا مانتے تھے یعنی مشرک ہوچکے تھے۔ ان کے مشرک ہونے کی دلیل آگے آرہی ہے۔
نکتہ نمبر6) پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب بھی فریقین کے درمیان کوئی عہد ہوتا ہے تو اس کا ایک اہم تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ اس عہد کو یاد رکھا جائے۔ اگرکسی فریق کو زرا بھی خدشہ ہوکہ دوسرا فریق اسے یاد نہیں رکھے گا تو پھر ایسا عہد کیا ہی نہیں جاتا یا پھر اس عہد کو لکھوالیا جاتا ہے یا پھر اس کے گواہ مقرر کرلیے جاتے ہیں ۔اب زرہ اپنے دل میں جھانکیے اور بتائیے کہ کیا عالم ارواح میں لیا گیا ایسا کوئ عہد آپ کو یاد ہے ؟ افسوس کہ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ عہد تو ہمیں یاد نہیں مگر ہمارے لاشعور میں موجود ہے ۔یہ جسے لاشعور کہہ کر خود کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اصل میں ہمارے ہاں خدا کا وہ تصور ہے جو مسلم ماں باپ کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمارے دماغ میں پیدا کیا جاتا ہے ورنہ دنیا کی تقریبا دو ارب کی ایک بڑی آبادی خدا کے منکروں کی بھی ہے ۔ انہیں توخیال تک نہیں آتا کہ اس دنیا کا کوئ خدا ہے بلکہ وہ تو خدا کے تصور پر خدا کے ماننے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔جو لوگ بچپن میں خدا کے متعلق اپنے بڑوں سے بہت کچھ سن لیتے ہیں تو اسےوہ لاشعور سمجھنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ لاشعور میں نہیں بلکہ شعور کی حالت میںاپنا تعارف کرواتا ہے
نکتہ نمبر7) مفسرین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ آیت الست میں اللہ کی طرف سے جو سوال ہوا تھا اور جو جواب دیا گیا وہ الفاظ کی صورت میں دیا گیا تھا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ اللہ دل میں خیال ڈال کر بھی کلام کرتا ہے اور حالات و واقعات کو ترتیب دے کر بھی کلام کرتا ہےجسے حالی کلام بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال میں قران کی یہ آیت دیکھیے ۔ ترجمہ مفتی تقی عثمانی : وہ اللہ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے۔ تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) “ (یا اللہ ! ) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے سورہ 10 آیت 22
تو اللہ کا لوگوں کو ہدایت پر لانے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ جہاں وہ الفاظ کے زریعے سے نہیں بلکہ حالات کے زریعے سے مخاطب ہوتا ہے پھر جب لوگ اللہ کو ہی پکارنے پر آجاتے ہیں اور یہ اعتراف کرلیتے ہیں کہ ان کو مصیبتوں سے نجات دینے والا اور ان کی نگہداشت کرنے والارب وہی ایک اللہ ہے تو ان کا یہ عمل خود ان پر گواہ بن جاتا ہے ۔ اب وہ کل کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم تو مشرک تھے اس لیے ہم اپنے حقیقی رب کو پہچان نہ سکے ۔ تو عین ممکن ہے کہ اسی طرح آیت الست میں مخاطبین پر جب اللہ تعالیٰ نے کشتی والوں کی طرح حالات سخت کیے تو پھر ان کو یہ خیال آیا کہ اب اللہ ہی انہیں مصیبت سے نکال سکتا ہے اور صرف وہی ان کا اکیلا رب ہے ۔ اس خیال کو قبول کرلینا یہی نفس کا وہ عمل ہے جو اس کے اوپر گواہ بن جاتا ہے اورآیت میں موجود الفاظ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
نکتہ نمبر8)اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ اعتراف کیوں کروایا تھا۔ اس کے لیے اگلی آیت دیکھیے
أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ﴿ 173﴾ 7
ترجمہ : محمد جونا گڑھی : یا یوں کہو کہ پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ (173)سورہ نمبر7
یہ آیت بھی یہی بتارہی ہے کہ جن سے سوال پوچھا گیا تھا کہ وہ نہ تو آدم علیہ السلام کی پشت سے پیدا ہوئے تھے اورنہ ان کے نطفے سے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے بعد میں آنے والی وہ زریت تھی جن کے بڑے شرک میں مبتلاہوچکے تھے وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ یہ تمام دنیا کے لوگوں سے لیا گیا کوئ عہد ہے سوائےآیات کے الفاظ کو نظر انداز کرنے کے اور کچھ نہیں ۔ اس آیت میں چونکہ اللہ ان لوگوں سے کلام فرمارہے ہیں جن کے آباء مشرک تھے تو سوچیے کہ یہ خطاب سارے انسانوں سے تو بنتا ہی نہیں ہے کہ دنیا کے سارے انسان مشرک نہیں ہوسکتے ایک بڑی تعداد موحدین کی بھی گزری ہے۔ مقصد اس اعتراف کا یہ تھا کہ وہ اپنے مشرک ہونے کا الزام کل کو خدا پر نہ ڈال دیں یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں تو ہمارے باپ دادا نے شرک ہی سکھایا تھا اوراس وجہ سے ہم شرک میں لگے ہوئے تھےتو اللہ نے ان کو ایسے حالات میں ڈالا کہ انہیں شعوری طور پر یہ احساس ہوگیا کہ صرف اللہ ہی ہے جو مشکل میں کام آتاہے اور باقی سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔
نکتہ نمبر 9 آیت الست کا یہ واقعہ جو قران میں بیان ہوا عربی لفط اذ کی دلیل پر ایک مخصوص واقعہ ثابت ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ ایسے واقعات کو دہراتا نہ ہو ۔ میری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مشرک کو اس کی زندگی میں کہیں نہ کہیں ایسے حالات سے گزارتا ہے جہاں اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی رب ہے اور جتنے الہٰ لوگوں نے پکڑ رکھے ہیں ان میں سے کوئ ایک بھی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ۔۔
والسلام تحریر : زاہد جانبِ حق