فتنہ اور اس کی حقیقت ،، تحریر:قاری حنیف ڈار
فتنہ اصل میں کسوٹی کو کہتے ھیں ،جس پر زیور کو رگڑ کر سنار سونے میں ملاوٹ چیک کرتا ھے ، جبکہ ھمارے یہاں فتنہ ھمیشہ برے معنوں میں استعمال ھوتا ھے ،، اللہ پاک نے خود فرمایا ھے کہ یہ زندگی تمہیں فتنوں میں ڈالنے کے لئے ھی دی گئی ھے تا کہ کھرا اور کھوٹا خوب چھان پھٹک لیا جائے ،، اچھے حالات بھی فتنہ ھیں اور برے حالات بھی فتنہ ھیں نہ کہ ھمارا دائمی اسٹیٹس ھیں ،، اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ،،
(( و ما جعلنا لبشر من قبلك الخلد افاين مت فهم الخالدون (34). كل نفس ذائقه الموت و نبلوكم بالشر و الخير فتنه و الينا ترجعون (35).الانبیاء ،،
اور ھم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو خلود عطا نہیں فرمایا آپ مر جائیں گے توکیا یہ زندہ رھیں گے؟ ھر جان نے موت کا مزہ چکھنا ھے مگر پیدائش سے موت کے درمیان ھم تمہیں بلوئیں گے برے حالات سے بھی اور اچھے حالات سے بھی فتنوں کے ساتھ اور نتیجے کا مزہ چکھنے تم ھماری طرف لوٹائے جاؤ گے ،،
کسی کو امتحان میں ڈال دینے والے کو بھی فتان کہا جاتا ھے ،حضرت معاذ ابن جبلؓ نے ایک دفعہ عشاء کی نماز طویل کر دی تو ایک صحابیؓ جو تھکے ھوئے تھے ،انہوں نے نماز توڑ دی اور جماعت چھوڑ کر الگ سے اپنی نماز پڑھ کر چل دیئے ، لوگوں نے کہا کہ یہ منافق ھو گیا ھے، اور صبح رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر دی جائے ،مگر صبح خود ھی وہ صاحب فجر کی نماز میں قبا سے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے پہنچ گئے ، اور نماز کے بعد عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ معاذ پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ھیں پھر قبا دیر سے آتے ھیں اور پھر لمبی سورتیں پڑھتے ھیں ،، یا رسول اللہ ﷺ ھم سارا دن اونٹوں کے پیچھے دوڑنے والے لوگ ھیں اور معاذ رات کو ھمیں پکڑ کر نماز لمبی کر دیتے ھیں ،، میں نے رات کو نماز توڑ کر اپنی الگ سے پڑھ لی ،، اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذ پر ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا ” فتان انت یا معاذ ” اے معاذ تم لوگوں کو فتنے یعنی آزمائش میں ڈال دیتے ھو کیا چھوٹی سوتیں قرآن نہیں ھیں ، کیا الھاکم التکاثر قرآن میں نازل نہیں ھوئی ؟ حضرت معاذؓ نے کہا کہ یہی منافق ھو گیا ھے ، جس پر اس شخص نے کہا کہ اس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ کون منافق ھے ،اور پھر وہ غزوہ احد میں شھید ھو گئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت معاذؓ کو اسپیشل بلا کر کہا کہ تیرے اس صاحب کا کیا بنا ؟ جس حضرت معاذؓ اپنے قول پر شرمندہ ھوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں غلطی پر تھا جبکہ وہ مخلص مومن تھا ،،
فتنے کی تین قسمیں ھیں ،،
1- اللہ کی طرف سے ڈالا جانا والا فتنہ یا آزمائش ،،
2- لوگوں کی طرف سے ڈالا جانے والا فتنہ یا آزمائش ،،
3- انسان کی اپنی ذات کی طرف سے ڈالا جانے والا فتنہ یعنی خود اس کا کوئی عمل ، مال یا اولاد کا فتنہ بن جانا ،،،
ان تینوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ کیا ھے ،،
ان تینوں قسموں کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ کسی مجلس میں ، فی الحال کسی اور زاویئے سے فتنے پر بات کرنی ھے ،،
فتنہ کبھی بھی ختم ھونے کے لئے پیدا نہیں ھوتا ، وہ مادے کی طرح شکلیں تبدیل کرتا رھتا ھے مگر مٹتا نہیں ھے ، فتنے کے پیدا ھوتے ھی اس کی واپسی کا رستہ فورا بند کر دیا جاتا ھے ، یہی بات رسول اللہ ﷺ کو معراج میں دکھائی گئی تھی کہ ایک بیل ایک سوراخ میں سے نکلتا ھے اور پھر واپس اس سوراخ میں جانے کی سعی کرتا ھے مگر وہ بڑے سے بڑا ھوتا چلا جاتا ھے جبکہ واپسی کا رستہ چھوٹے سے چھوٹا ھوتے ھوئے بند ھو جاتا ھے ،،
حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اٹھنے والا فتنہ بڑے بڑے جید اور ممتاز صحابہؓ کی موجودگی میں واپس ھونے کی بجائے بڑا ھی ھوتا چلا گیا اور اب تک چل اور پل رھا ھے اور قیامت تک ایسے ھی رھے گا ” ولا یزالوں مختلفین ” اب یہ قیامت تک اختلاف ھی کرتے رھیں گے ، اگر عشرہ مبشرہ اس کو قابو نہیں کر سکے علم سے بھی اور قتال سے بھی تو یقین جانیں اب یہ اختلاف ثقافت بن چکا ھے جس کے ساتھ ھمیں جینا سیکھنا ھے ، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت والا معاملہ پھر امام حیسنؓ کی شہادت والا معاملہ الغرض فتنہءِ عثمانؓ ھی اپنی شکلیں تبدیل کرتا ھوا زور شور سے چلتا رھا ،،
ائمہ مجتھدین کے اقوال بھی فتنے کی ھی قسم میں جن کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاتا ھے ،، اسی طرح اسلاف کی ایک دوسرے پر تند و تیز جرحیں سب فتنہ ھیں ، ان رویوں اور اقوال کو لے کر لوگ فتنے میں مبتلا ھیں ، پھر اپنے دور میں چلے آیئے دیوبندی اکابر سید مودودیؒ کے بارے میں جو لکھ گئے ھیں دیوبندیوں کے لئے وہ قرآن وحدیث ھیں بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ کر حق الیقین کی چیز بن چکے ھیں ،مگر فتنہ مودودیت لکھنے اور اس کا پرچار کرنے کے بعد کیا سید مودودی کی تعلیم و فکر کا کچھ بگاڑا جا سکا ھے ؟ سید مودودی کی فکر قیامت تک اسی طرح کچھ لوگوں کے لئے آزمائش بنی رھے گی ، یہی معاملہ جاوید احمد غامدی صاحب کا بھی ھے ان کی آراء کے مقابلے میں اپنی آراء تو پیش کی جا سکتی ھیں مگر اس سوچ کو اب واپس نہیں دھکیلا جا سکتا ، اب یہ قیامت تک کے لئے کچھ لوگوں کے لئے آزمائش بنی رھیں گی ،،،
ایک خاتون لکھتی ھیں کہ میری آن لائن قرآن کلاس اتنی اچھی چل رھی تھی ، بہت ساری بچیاں قرآن سیکھ رھی تھیں ، کہ چند فتنہ پرور عورتوں نے لڑکیوں کو پھسلانا شروع کیا کہ یہ غامدی فکر والی خاتون ھیں۔ یوں کچھ بچیوں کو کنفیوز کر دیا جبکہ کافی ساری بچیوں نے ان کی بات کو سیریس نہیں لیا ،، میں سوچ رھی ھوں کہ یہ فتنہ ذرا کم ھو لے تو شاید ھمارا کام پھر مومنٹم پکڑ لے ،،
میں نے عرض کیا کہ آپ اس فتنے کے ٹھنڈا ھونے کا انتظار مت کیجئے اپنا کام جاری رکھئے ، بچیاں تھوڑی ھو جائیں مگر Dedicated اور Committed ھوں تو ان شاء اللہ آپ کا کام چلتا رھے گا ،، اس قسم کے فتنے اور فتوے ختم ھونے کے لئے نہیں اٹھتے بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی آزمائش بن جاتے ھیں ،،