قتل کی سزا از مولانا وحید الدین خان
قتل کی سزا
امام ابن تیمیہ الحرانی( 661-728 ھ ) شام میں پیدا ہوئے – یہ مسلمانوں میں عام طور پر اہم ترین عالم کی حیثیت رکھتے ہیں – ان کو شیخ الاسلام کا لقب دیا گیا ہے – ان کی کتابیں کتب مراجع کی حیثیت رکھتی ہے – ہماری آفس میں موجود مشہور عربی ڈیجیٹل لائبریری المکتبتہ الشاملہ میں ان کی 154 کتابیں ہیں –
ایک عرب عالم محمد حبش کا ایک مقالہ انٹرنیٹ پر دیکھا جا سکتا ہے – اس مقالہ کا ٹائٹل یہ ہے : ابن تیمیہ و 428 فتوی بعنوان : یستتاب والاقتل )- انہوں نے ابن تیمیہ کی عربی کتابوں کا تفصیل سے مطالعہ کیا، اور اس مقالے میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کن عمل کو مستوجب قتل جرائم قرار دیا ہے – یعنی کون سے ایسے جرائم ہیں جو ابن تیمیہ کے نزدیک مستوجب قتل کی حیثیت رکھتے ہیں – محمد حبش اپنے مقالہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ اس طرح نقل کرتے ہیں :” یستتاب والاقتل "، او” والا فانہ یقتل "( یعنی ایسے شخص سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ) – ان کے مطابق، ابن تیمیہ کے مجموع فتاوی میں یہ جملہ دو سو مرتبہ ذکر ہوا ہے – اور اگر دوسری کتابوں کو شامل کر لیا جائے تو ایسے جرائم کی تعداد 428 ہو جاتی ہے – انٹرنیٹ پر ملاحظہ ہو مذکورہ مضمون : ابن تیمیہ و 428 فتوی بعنوان : یستتاب والاقتل ) –
یہ کون سے جرائم ہیں – یہ سب کے سب اعتقادی جرائم( thought crime ) ہیں – محمد حبش نے مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے کچھ ایسے فتاوی نقل کیے ہیں : مثلاً جو شخص یہ نہ کہے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کیا جائے گا – جو شخص کسی سے کہے کہ میں نے تمہارے اوپر توکل کیا، یا مجھے تمہارے اوپر اعتماد ہے……… تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اولیاء میں سے کوئی ولی محمد ص کے ساتھ ہو گا جیسا کہ خضر موسی کے ساتھ تھے، تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی – ایک بالغ انسان نے پانچ نمازوں میں سے کوئی ایک نماز نہیں ادا کی یا بعض متفق علیہ فرائض کو ترک کر دیا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہیں کیا تو اس کو قتل کیا جائے گا – جس نے یہ کہا کہ اللہ سات آسمانوں کے اوپر ہے تو وہ اپنے اس قول کی بنا پر کافر قرار پائے گا، اس کا خون مباح ہو گا، اس کی توبہ طلب کی جائے گی، اگر توبہ نہیں کیا تو اس کی گردن مار دی جائے گا، اور اس کو کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا – جو یہ کہے کہ قرآن( قدیم نہیں )حادث ہے تو وہ میرے نزدیک جہمیہ ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر نہ کرے تو اس کی گردن مار دی جائے گی – جو یہ کہے کہ کسی صحابی یا تابعی، یا تبع تابعین نے کفار کے ساتھ مل کر جنگ کی تو وہ گمراہ بلکہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے اس بات کی توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے – جو مذکورہ باتوں کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے، تو بلاشبہ وہ کافر ہے، واجب ہے کہ اس سے توبہ طلب کی جائے، اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ قتل کیا جائے – جو آدمی کچھ ظاہر و متواتر مباح چیزوں کے حلال ہونے کا انکار کرے، جیسے روٹی، گوشت، اور نکاح وغیرہ تو وہ کافر مرتد ہے، اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اگر توبہ نہ کرے تو تو قتل کر دیا جائے گا – اور اگر اس کو دل میں چھپائے( یعنی گوشت، روٹی، اور نکاح کا حرام ہونا ) تو وہ زندیق و منافق ہے، اکثر علماء کے نزدیک اس سے توبہ قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اس سے اگر اس کا اظہارِ ہو تو بلا توبہ اسے قتل کیا جائے گا – جس شخص نے اس شریعت کو لازم نہیں پکڑا، یا اس میں طعن کیا، یا اس سے کسی کی خروج کو صحیح کہا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – جس نے یہ دعوٰی کیا کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے اس کے پاس شریعت محمدی کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہے، جس سے وہ اللہ کی رضا کو پا سکتا ہے تو وہ بھی کافر ہے، اس سے توبہ طلب کیا جائے گا، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن مار دی جائے گی – سانپ اور بچھو کا کھانا مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے، تو جس نے ان کو حلال سمجھ کر کھایا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – جو یہ کہے کہ قرآن مخلوق ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – جو یہ کہے کہ اللہ نے موسی سے کلام نہیں کیا تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – ( تکبیر قرآن میں لکها ہوا نہیں ہے، اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے ) تو جس شخص نے یہ خیال کیا کہ تکبیر( اللہ اکبر ) قرآن سے ہے تو اس سے توبہ طلب کی جائے گی، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا – جس نے نماز کو کسی کام سے یا شکار کی وجہ سے یا استاد کی خدمت، وغیرہ کی وجہ سے موخر کیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو اس کی سزا دینا واجب ہے، بلکہ جمہور علماء کے نزدیک توبہ کے بعد اس کو قتل کرنا واجب ہے – جس شخص نے یہ کہا کہ مسافر پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہے تو وہ دونوں گمراہ اور مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہیں، اس کے کہنے والے سے توبہ طلب کی جائے گی اور اگر نہ کرے تو قتل کر دیا جائے گا –
ابن تیمیہ کے یہ فتاوی ان کے ذاتی رائے پر مبنی نہیں ہے – بلکہ یہی عام طور پر بعد کے زمانے کے علماء اور فقہاء کا مسلک ہے – اسی بنا پر ایسا ہے کہ سات سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی قابل ذکر عالم نے اس کے خلاف کوئی کتاب نہیں لکھی – بلکہ اس قسم کے دعوی کے باوجود ابن تیمیہ آج بھی اکابر علماء میں عظیم درجہ پائے ہوئے ہیں –
ابن تیمیہ نے جن چیزوں پر قتل کا فتوی دیا ہے – ان میں سے کوئی ایک ” جرم” بھی قرآن و حدیث میں مذکور نہیں – پھر ابن تیمیہ اور دوسرے علماء نے کیوں ایسا کیا کہ جس جرم کے لیے قرآن و حدیث میں سزا مزکور نہیں، اس کے لیے انہوں نے شرعی اعتبار سے سزا مقرر کی – اس کا سبب یہ ہے کہ ان علماء نے سماجی جرم( social crime ) اور اعتقادی جرم( thought crime ) میں فرق نہیں کیا – اسلام کی تعلیم کے مطابق، سماجی جرم پر سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں – لیکن اعتقادی جرم اسلام کے نزدیک کوئی قابل سزا جرم ہی نہیں –
اعتقادی جرم اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کی عطا کردہ آزادی کا غلط استعمال ہے – اس قسم کا غلط استعمال اگر وہ کسی کے خلاف جارح( harmful ) نہ ہو تو وہ اس کے لیے قابل سزا فعل نہ ہو گا – جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : پس جو شخص چاہے اسے مانے اور جو شخص چاہے نہ مانے( 18:29)-
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں دعوت کا تصور حذف ہو گیا – یہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ جو شخص کوئی غلطی کرے، خواہ وہ غلطی قول کی ہو یا فعل کی، اس کو سخت سزا دی جائے گی – مگر یہ تصور سر تا سر قرآن و حدیث کے خلاف ہے – قرآن و حدیث کے مطابق، سماجی جرم پر سزا ہے لیکن قولی انحراف پر ناصحانہ دعوت ہے، نہ کہ سزا –
سخت سزا کا یہ تصور اسلام کے بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، جب مسلمانوں کی اپنی سلطنت( political empire ) قائم ہو چکی تھی – اسلام کے ابتدائی زمانے میں اس طرح کی صورتحال میں پرامن دعوتی جواب کا تصور تھا – بعد کے زمانے میں یہ تصور بن گیا کہ اب ہم کو طاقت حاصل ہے، اس لیے ہم کو اقتدار کی سطح پر اس کا پر تشدد جواب دینا چاہئے – یہ تصور قرآن کے خلاف تھا – قرآن تمام تر پرامن دعوت کے تصور پر قائم ہے، نہ کہ پر تشدد سزا کے اصول پر – اس معاملے میں قرآن کی یہ آیت ایک رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے : پس تم یاددہانی کردو، تم بس یاددہانی کرنے والے ہو – تم ان پر داروغہ نہیں –
قرآن کی اس آیت میں مصیطر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے – مصیطر کا مطلب داروغہ ہے، یعنی جبری نفاذ کرنے والا – قرآن کی اس آیت میں مطلق طور پر یہ حکم دیا ہے کہ تمہاری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم پرامن انداز میں لوگوں کو نصیحت کرتے رہو – تمہاری ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ تم اپنی بات کو لوگوں کے اوپر جبری طور پر نافذ کرو- یہ آیت ابدی طور پر اہل ایمان کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ اعتقاد کے معاملے میں ان کو ہرگز کسی شخص پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں ہے – ان کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبے کے تحت لوگوں کو نصیحت کریں – جو شخص نصیحت کو مان کر اپنی اصلاح کرے گا، وہ اللہ کے یہاں اس کا بدلہ پائے گا – اور جو شخص نصیحت کو نہ مانے اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے –
الرسالہ، اپریل 2017
مولانا وحیدالدین خان
اس ماہ کا مکمل الرسالہ کی PDF کاپی ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔