قرآن سے ھمدردی کِسی کو نہیں ؟ از قاری حنیف ڈار

روایتوں نے قرآن کا کیا حشر کیا ھے اس کا اندازہ ان چند سطروں سے لگایا جا سکتا ھے ـ یہ قرآن کا زندہ سلامت معجزہ ھے کہ وہ آج بھی متفق علیہ ھے ،، ورنہ اس کے ساتھ کیا کیا کھیل نہیں کھیلے گئے مگر میرے رب کا چیلنج ھے کہ ’’ لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ ‘‘ باطل نہ تو اس میں سامنے کے دروازے سے ( دوست بن کر دوستوں کے ہاتھوں ) داخل ھو سکتا ھے اور نہ پچھلے دروازے سے نقب لگا کر داخل ھو سکتا ھے ،،
ـحدیثِ رسول کے ایک قوی راوی ھیں ” عثمان بن ابی شیبہ ” ان کو عثمان بن محمد بن ابراھیم بن عثمان بن خوستی یا خواستی العبسی ابوالحسن بن ابی شیبہ الکوفی کہا جاتا ھے ، ان کی مسند یعنی ذخیرہ روایات اور تفسیر بہت مشہور ھے – بخاری میں ان کی 53 روایتیں ھیں اور مسلم میں 135 ھیں –
امام محمد بن ادریس ابوحاتم الرازی فرماتے ھیں کہ کسی نے ان کے سامنے امام بخاری کے شیخ محمد بن عبداللہ بن نمیر سے عثمان بن شیبہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سبحان اللہ مثلہ یسئل عنہ ؟ یعنی سبحان اللہ بھلا اس جیسے آدمی کے بارے میں بھی کسی کی رائے جاننے کی حاجت ھے ؟ ابن ابی حاتم ان کے متعلق اپنے والد سے روایت کرتے ھیں کہ بہت سچے انسان تھے ،، یحی ابن معین کہتے ھیں کہ محمد بن حمید الرازی اور عثمان بن ابی شیبہ دونوں ثقہ ھیں – لوگوں نے پوچھا کہ ان میں سے کون آپ کو زیادہ محبوب ھے ؟ تو فرمایا کہ دونوں ثقہ ھیں ، دونوں امین ھیں ، دونوں مامون ھیں – ایک دوسرے شخص سے کہا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عثمان بن ابی شیبہ دونوں ثقہ ھیں ، سچے ھیں اس میں کوئی شک نہیں ،، اب آپ کوئی بھی بری سے بری روایت بھی اس بندے سے مروی ھو چاھے اس کی زد قرآن پہ آتی ھو یا اللہ پر آتی ھو یا رسول اللہ ﷺ پر آتی ھو ، آپ اعتراض کریں گے تو لوگ یہی جگہ نکال کر اس کی مقام بیان کر دیں گے کہ جب اتنے لوگ ان کو ثقہ کہہ رھے ھیں تو ان کی روایت سچی ھے اور تم منکرِ حدیث ھو ،، جبکہ اس بندے کی ساری تصویب و توثیق ذاتی محبت و تعلق پر مبنی ھے ورنہ یہ ایک دشمنِ دین شخص ھے جس پر باقاعدہ حد جاری ھوتی ھے اگر توبہ نہ کرے ،،، وجہ اگلی سطروں میں پڑھ لیجئے ،،
امام دارقطنی اپنی کتاب تصحیف میں ابوالقاسم بن کاس سے اور وہ إبراهيم بن عبد الله الخصّاف سے روایت کرتے ھیں کہ عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی تفسیر ھم لوگوں کے سامنے پڑھی تو سورہ یوسف کو پڑھا – فلما جھزھم بجھازھم جعل السفینۃ فی رحلِ اخیہ ” پڑھا ( جب ان کا سامان تیار کرا دیا تو سفینہ یعنی جہاز اپنے بھائی کے بوریئے میں رکھ دیا ) جبکہ اصل آیت میں جعل السقایۃ فی رحلِ اخیہ ” ھے یعنی پیالا اپنے بھائی کے بوریئے میں رکھ دیا ،، لوگوں نے کہا کہ قرآن میں تو” جعل السقایۃ ” ھے تو عثمان بن ابی شیبہ نے کہا کہ میں اور میرا بھائی یعنی ابوبکر بن ابی شیبہ عاصم کی قرأت نہیں پڑھتے ،، گویا سوائے عاصم کے باقی سارے جعل السفینۃ پڑھتے ھیں ،،حالانکہ سارے ھی جعل السقایہ ھی پڑھتے ھیں مگر اپنی غلطی ماننے کی بجائے قرآن کو تبدیل کر دیا ،،
اسی کتاب میں امام دارقطنی احمد بن کامل سے اور وہ حسن بن حباب القری سے روایت کرتے ھیں کہ عثمان بن ابی شیبہ نے ” الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل کو الف لام میم کیف فعل ربک ،، پڑھا ،،،
اسی کتاب میں یہ بھی مروی ھے کہ سورہ البقرہ میں جو آیت ” واتَبَعوا ما تتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان ، وحی الہی کو چھوڑ کر پیچھے لگ گئے اس چیز یعنی جادو کے جو کہ شیاطین پڑھتے تھے سلیمان کے دور حکومت میں ، اس کو عثمان بن ابی شیبہ حکم کے صیغے ” واتَبِعوا ماتتلوا الشیاطین علی ملک سلیمان یعنی با کی زبر کو زیر پڑھ کر صیغہ امر میں تبدیل کر دیتا تھا ،، یعنی تم کو چاھئے کہ پیروی کرو اس کی جو شیاطین پڑھتے ھیں سلمان کی حکومت میں ،، گویا کلمہ کفر ھو گیا کہ اللہ خود جادو یعنی کفر کا حکم اور ترغیب دے رھا ھے ،،
اتنا تو ابن حجر العسقلانی نے بھی لکھا ھے کہ اس سے بخاری ، مسلم ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ نے روایتیں لی ھیں اور ابن معین نے اس کو ثقہ و امین کہا ھے ، ابو حاتم نے صدوق کہا ھے مگر امام احمد نے اس کی کچھ روایتوں کو منکر قرار دیا ھے اور پھر لکھتے ھیں کہ ” کان یصحف القرآن ” یہ قرآن کو بدل دیا کرتا تھا ، البتہ عذر یہ پیش کرتے ھیں کہ و قیل کان لایحفظہ ،، کہ چونکہ قرآن اس کو حفظ نہیں تھا اس لئے ایسی غلطیاں کرتا تھا ،، غور نہیں کرتے کہ وہ لغت تبدیل کر رھا ھے کیا اسے اتنا بھی یاد نہیں رھتا تھا کہ جہاز بوریئے میں نہیں آتا اور اللہ کفر کا حکم نہیں دیتا پھر وہ زیر و زبر کے فرق کو بھی نہیں سمجھتا تھا ؟ کیا اس کو عربی بھی نہیں آتی تھی کہ اس کے منہ سے کیا نکل رھا ھے ،، الم ترکیف بھی اس کو یاد نہیں تھی ،، مگر جناب امام بخاری اس سے 53 حدیثیں لے کر بیٹھے ھوئے ھیں اور امام مسلم 135 ،،،
امام ذھبی میزان الاعتدال میں لکھتے ھیں کہ کسی محدث سے قرآن بدلنے کے واقعات اس کثرت سے بیان نہیں ھوئے جتنے اس عثمان ابن ابی شیبہ سے روایت ھیں ،، یہ سورہ الحدید کی آیت ” فضرب بینھم بسورٍ لہ باب ،، پس ان کے درمیان دیوار کھڑی کر دی جس میں ایک دروازہ تھا ،، کو فضرب بینھم بسنورً لہ ناب ،،پڑھا کرتا تھا ،کہ ان کے درمیان ایک بلی کھڑی کر دی گئی جس کی ایک دُم تھی ،، اور جب ٹوکا گیا تو بولے کہ ،، ھم حمزہ کی قرأت نہیں پڑھتے ،، گویا باقی سارے بلی اور دم پڑھا کرتے تھے بس حمزہ ھی ایک دیوار جس کا دروازہ پڑھا کرتا تھا ،، جبکہ تمام قراتوں میں اس کو بسورلہ باب ھی پڑھا جاتا ھے ،، دل پہ ھاتھ رکھ کر بتایئے یہ قرآن ،اللہ اور دین کے ساتھ ٹھٹھا اور استھزاء نہیں ؟ اور کیا یہ قرآن کا معجزہ نہیں کہ وہ اس قسم کے ” ثقہ اور صدوق” راویوں سے بچ کر ھم تک پہنچا ھے ،، کبھی آپ نے غور فرمایا ھے کہ اللہ پاک نے قرآن کو کن سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لیا تھا ؟ عیسائی ،ھندو یہودی سکھ سے نہیں ،، ان جیسے ثقہ راویوں اور علماء سوء سے حفاظت کا ذمہ لیا تھا قرآن جن کی دسترس میں تھا ، اور اللہ نے اس وعدے کو سچ کر دکھایا ،، قرآن کو کبھی بھی عوام سے نہ خطرہ تھا نہ ھے اور نہ ھو گا ،،،۔

 
 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.