قصص الانبیاء-(پوسٹ 1) تعارف، تحریر کومل شہاب
لفظ نبی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیغام پہنچانے والا، خبر دینے والا، اعلان کرنے والا۔
ہر نبی رسول نہیں ہوسکتا لیکن ہر رسول نبی ہوتا ہے۔ پس انبیاء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام انسانیت کے لیے لے کر آئے یا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انسانیت تک پہنچایا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے انبیاء کا انتخاب کیوں کیا؟
جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا اور انہیں زمین پر خلیفہ بنایا تو تمام انسانیت کے لیے زندگی گزارنے کا ایک لازمی طریقہ بھی مقرر فرما دیا لیکن افسوس کہ انسان بار بار اس بتائے ہوئے طریقے کی تردید کرتے ہوئے اس میں تبدیلیاں کر دیتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس لیے انبیاء کو بھیجنے کا سلسلہ مقرر کیا کہ وہ خدائی طریق میں پیدا ہوجانے والی تبدیلیوں کی اصلاح کریں جن سے انسانیت بھٹک چکی ہے۔ اس طرح ان انبیاء یا پیغمبروں کی زندگی اس عظیم جہاد میں صرف ہو جاتی۔
نبوت اللہ تعالیٰ کا انتخاب اور چناؤ ہے۔ یہ کوئی ایسا عہدہ نہیں ہے جو کسی قسم کی جدوجہد یا محنت و عبادت سے حاصل ہو جائے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو چن کر انہیں عنایت فرمایا۔
انبیاء کرام بھی عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے اور دوسرے بشری تقاضے رکھتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں یا خطاؤں سے معصوم رکھا۔ انسان اپنی نادانی میں اس بات کو ماننے سے قاصر ہے کہ نبی کوئی بندہ بشر ہو۔ ان کے خیال میں پیغمبر کسی فرشتے کو ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
"تو ان کی قوم کے کافر سردار کہنے لگے، یہ تو تم ہی جیسا آدمی ہے، تم پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے اگر اللہ چاہتا تو فرشتے اتار دیتا۔ہم نے اپنے اگلے باپ داداؤں میں تو یہ بات سنی نہیں۔” (المؤمنون-24)
پیغمبروں کی بشریت رسالت میں ہرگز کوئی شبہ نہیں بلکہ ان کی یہ دعوت اس صداقت کی دلیل ہے ورنہ اس بات کی کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے درمیان رہے اور ایسے معجزات لائے جو دوسروں کے بس میں نہیں، یہ یقیناً اللّٰہ کی طرف سے ہے۔
لہٰذا پیغمبروں پر ایمان لانا قرآن و سنت کے مطابق ایک اہم رکن ہے جس پہ ایمان لانا لازم ہے کیونکہ پیغمبر اللّٰہ اور بندوں کے درمیان ایک رابطہ یا واسطہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں پیغمبروں کی ہی بات کی تصدیق کرنی ہے نہ کہ ان لوگوں کے کہے میں آنا جوکہ ایمان نہ لاتے اور معجزے پہ معجزہ مانگتے رہتے۔
پس ثابت ہوا کہ پیغمبروں پہ ایمان لانا اور دل سے ہر قسم کے شکوک وشبہات کو نکال دینا دل کو نور ایمان سے بھر دیتا ہے۔ اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے نبی بھیجے جن میں سے بعض کا ذکر اللّٰہ پاک نے خود قرآن میں بھی فرمایا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے پیغمبر بھیجے، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات قرآن میں تم سے بیان کر دیے اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کیے۔” (المومنون۔78)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوذر نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
"اللہ کے کتنے پیغمبر ہیں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "ایک لاکھ چوبیس ہزار (1,24,000)۔” پھر پوچھا، "ان میں سے کتنے نبی ہیں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان میں سے تین سو تیرہ (313) نبی ہیں۔” پھر پوچھا، "ان میں سب سے پہلے نبی کون ہیں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:”آدم علیہ السلام۔” حضرت ابوذر نے پوچھا:”یا رسول اللہ! کیا وہ پیغمبر نبی تھے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، وہ اللہ کے پیغمبر نبی تھے۔ اللّٰہ نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ان میں اپنی روح پھونکی۔” (بہار اپ انور جلد11: صفحہ نمبر 32)
ویسے تو تمام پیغمبروں پہ ایمان لانا ضروری ہے لیکن پچیس (25) پیغمبروں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے،ان پہ ایمان لانا لازم ہے:
آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، الیسا، ذوالکفل، الیاس، ایوب، یونس، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
انہی پیغمبروں کے قصے آگے بیان کیے جائیں گے۔ (جاری ہے)
(میری اصلاح،اپنی رائے اور سوالات کے لیے کمنٹ کریں، اور املا کی کوئی غلطی ہو تو اصلاح ضرور فرمائیں۔ شکریہ). دعاؤں کی طالب: کومل شہاب