كيا حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہيں؟

كيا حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہيں؟

سوال:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں، اگر وہ وفات پاچکے ہیں تو ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو کب آسمان سے اتریں گے؟

جواب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے یا نہ آنے کا معاملہ ان کی زندگی سے مشروط نہیں ہے۔ جو قادر مطلق انھیں ایک بار زندگی دے سکتا ہے، وہ انھیں دوبارہ بھی زندگی دے سکتا ہے۔ جس نے انھیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا، کیا یہ اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ انھیں دوبارہ زندگی دے کر زمین پر بھیج دے؟ اس لیے ان کے آنے کو اس حقیقت سے مجرد ہو کر دیکھنا چاہیے کہ آپ زندہ ہیں یا نہیں۔وہ زندگی تو انھیں، بہرحال حاصل ہے جو شہدا کی زندگی ہے۔
پہلی بات تو یہ واضح ہے کہ قرآن مجید میں صریح الفاظ تو کیا ضمنی پہلو سے بھی کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے برعکس دو مقامات ایسے ہیں جہاں ان کے دوبارہ آنے کا ذکر ہونا چاہیے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہاں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے۔
سورۂ مائدہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک مکالمہ منقول ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے بیچ قیامت کے دن ہو گا۔ اس میں ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اے عیسیٰ ابن مریم، کیا تم نے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اس کے جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: تو اس سے پاک ہے ، میرے لیے کس طرح موزوں ہے کہ میں وہ بات کہوں جو ناحق ہے۔اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کے علم میں ہوتا۔ آپ تو میرے دل کی بات سے واقف ہیں۔ میں اس سے واقف نہیں جو آپ کے دل میں ہے۔ بے شک آپ تو تمام پوشیدہ باتوں کے جاننے والے ہیں۔میں نے تو ان سے وہی بات کہی تھی جس کا حکم مجھے آپ نے دیا تھاکہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی۔ جب تک میں ان کے بیچ میں تھا تو ان پر گواہ تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو آپ ہی ان پر نگران تھے۔ اور آپ ہر چیز پر گواہ ہیں۔ (۵: ۱۱۶۔ ۱۱۷)
اس مکالمے میں اس بات کا پورا موقع تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دوبارہ آنے اور اس باطل عقیدے کی بھر پور تردید کرنے کا ذکر کرتے۔ مزید براں اس مکالمے میں یہ بات مضمر ہے کہ حضرت عیسیٰ اس باطل عقیدے کے پیدا ہونے سے واقف نہیں ہیں۔ اگر وہ اس دنیا میں آئے ہوتے تو ایسے جملے نہ بولتے جن سے ان کی عدم واقفیت جھلکتی ہو۔
دوسرا موقع وہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ اب ان کی وفات کا وقت آ گیا ہے اور غلبہ اب ان کے ماننے والوں کو حاصل ہو گا اور ان کے ماننے والے قیامت تک یہود پر فائق رہیں گے۔ ( آل عمران ۳: ۵۵) جب پیشین گوئی کو قیامت تک کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا تو یہاں یہ بات بیان نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تمھیں میں دوبارہ دنیا میں بھیجوں گا اور تم اس غلبے کا مشاہدہ بھی کرو گے اور ایک بار پھر ان پر حجت تمام کرو گے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ قرآن کے مطابق نہیں ہے۔

حوالہ:(جاوید احمد غامدی) 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.