مبشر علی زیدی کے سوالات اور ان کے جوابات تحریر محمد سلیم
مبشر علی زیدی کے سوالات اور ان کے جوابات
(حصہ اول)
تحریر : محمّد سلیم
مبشر علی زیدی کے کچھ سوالات گردش میں ہیں ۔ ویسے تو زیادہ تر کے جوابات بیشتر مرتبہ دیئے جا چکے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ نئے آنے والے لوگوں کے لیئے دوبارہ جواب دیئے جائیں ۔
سوال چونکہ زیادہ ہیں لہٰذا روزآنہ کی بنیاد پر ایک سوال کا جواب دیا جائے گا ۔
سوالات کچھ اس طرح ہیں ۔
١ ۔ جبریل امین علیہ السلام زیادہ بڑے عالم تھے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؟
٢ ۔ تمام انبیاء یا تمام کتابیں ڈھائی سے تین ہزار سال کے دورانیئے میں ہی کیوں نازل ہوئیں جبکہ انسان کا وجود ڈھائی لاکھ سال پرانا ہے ؟ اسی سے متصل ایک سوال یہ بھی ہے کہ سلسلہ نبوت ختم کیوں ہو گیا ؟ کیا آج انسان کو ہدایت کی ضرورت نہیں ؟
٣ ۔ خدا اور شیطان دونوں کو ایک قوت ماننا کیوں شرک نہیں ؟
٤ ۔ کچھ انبیاء کا ذکر تاریخ میں موجود نہیں ۔ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟
٥ ۔ اگر نبی آج کے دور میں ہوتے تو تبلیغ کیسے کرتے ۔ وہ اس جدید دنیا کو کیسے ہینڈل کرتے ؟ سود کیسے ختم کرتے ؟ حکومت کیسے چلاتے ؟ اقوام متحدہ کا مقابلہ کیسے کرتے ؟ اس قسم کے تمام سوالات ۔
٦ ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کا ترکے میں حصہ کم نہ ہوتا ۔ گواہی آدھی نہ ہوتی ۔ انہیں گھروں میں بند رہنے کو نہ کہا جاتا ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا ۔ پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ۔ اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو برقرار نہ رکھتا ۔ سنگسار کی سزا نہ ہوتی ۔ چور کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے ۔ غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب نہ کیا جاتا ۔
٧ ۔ کل اگر انسان چاند یا مریخ پر رہائش اختیار کرتا ہے تو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے کیسے نماز پڑھے گا ؟
٨ ۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ اعلانیہ اگناسٹک ہیں ۔ یعنی خدا سے متعلق شک میں مبتلا ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وہ علمی جستجو میں ہیں اور اسلام میں علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے ۔ یہ انہوں نے اس لیئے بتایا کہ انہیں ملحد نہ سمجھا جائے ۔ ملحد خدا کا انکار کرتے ہیں جبکہ اگناسٹک خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر کنفیوز ہیں ۔ اس پر بات ہو گی ان شاء اللہ ۔
٩ ۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی فکر اور غیب پر ایمان یکجا نہیں ہو سکتے لہٰذا ہمیں اختلاف رائے پر اتفاق کر لینا چاہیئے ۔ ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مسجد کے ملا سے سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں جبکہ انہیں ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔
مجھے فی الحال اتنے ہی سوال ملے ہیں ۔ اگر کوئی سوال رہ گیا ہو تو کمنٹ میں توجہ دلوائی جا سکتی ہے پھر اسے بھی شامل کر لیں گے ان شاء اللہ ۔
______
١ ۔ جبریل امین علیہ السلام زیادہ بڑے عالم تھے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؟
جواب :
میرے خیال سے یہ مقابلہ ہی غیر متوازن ہے ۔ یہاں پوچھا یہ جانا چاہیئے تھا کہ اس دنیا میں سب سے پہلے انسان اور سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام زیادہ علم رکھتے تھے یا جبریل علیہ السلام ؟
مجھے نہیں پتہ کہ آپ مسلمان ہیں یا تھے یا تشکیک کی کیفیت سے دوچار ہو گئے ہیں, خدا کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے ؟
مگر مجھے اتنا یقین ہے کہ ان تمام میں سے کسی بھی صورت میں آپ کو اس سوال کا جواب خود معلوم ہونا چاہیئے تھا ۔ اس سوال کا جواب تو خود قران دے چکا ۔
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى الۡمَلٰٓٮِٕكَةِ فَقَالَ اَنۡۢبِــُٔوۡنِىۡ بِاَسۡمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ﴿۳۱﴾ قَالُوۡا سُبۡحٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَاؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ ﴿۳۲﴾ قَالَ يٰٓـاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡهُمۡ بِاَسۡمَآٮِٕهِمۡۚ فَلَمَّآ اَنۡۢبَاَهُمۡ بِاَسۡمَآٮِٕهِمۡۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُل لَّـكُمۡ اِنِّىۡٓ اَعۡلَمُ غَيۡبَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِۙ وَاَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَمَا كُنۡتُمۡ تَكۡتُمُوۡنَ ﴿۳۳﴾
اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ ﴿۳۱﴾ انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۳۲﴾ (تب) خدا نے (آدم کو) حکم دیا کہ آدم! تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ۔ جب انہوں نے ان کو ان کے نام بتائے تو (فرشتوں سے) فرمایا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جاتنا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے ﴿۳۳﴾
ان آیات میں اس انسان کا جو ابھی تخلیق کیا گیا ہے مقابلہ ان فرشتوں سے کیا جا رہا ہے جو اس سے کافی عرصہ پہلے تخلیق کیئے جا چکے تھے ۔ ان آیات کو جو لوگ گہرائی میں جا کر سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ مقابلہ محض اشیاء کے نام بتانے تک محدود نہ ہو گا ۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اشیاء کے نام بتا دیئے ہوں اور فرشتوں کو نہ بتائے ہوں اور پھر ان کو مقابل کھڑا کر دیا ہو ۔
یہ مقابلہ درحقیقت انسان کی عقل کی پہلی آزمائش تھی ۔
ایک ہوتی ہے Revealed knowledge یعنی وہ علم جو وحی سے حاصل ہو اور ایک ہوتی ہے Acquired knowledge جسے انسان اپنی عقل اپنے مشاہدے سے حاصل کرتا ہے ۔
سورہ الذریات ۔ آیت 47
وَ السَّمَآءَ بَنَيۡنٰهَا بِاَيۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۷﴾
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اس کی توسیع کررہے ہیں ﴿۴۷﴾
یہ جو اوپر آپ آیت پڑھ رہے ہیں یہ Revealed knowledge ہے ۔
1929 میں ایڈون ہبل نے اپنی ٹیلی اسکوپ سے کائنات کی ہر شے کو ایک دوسرے سے دور جاتے دیکھا اور اندازہ لگایا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس علم نے انسان کی سوچ کو یہ جلا بخشی کہ اگر کائنات کی ہر شے ایک دوسرے سے دور جا رہی ہے تو ماضی میں کوئی ایک نکتہ ایسا ضرور رہا ہو گا جب سب ایک مقام پر جڑے ہوں گے ۔ پھر بگ بینگ ہوا ہو گا ۔
اب یہ جو اوپر آپ پڑھ رہے ہیں اسے Acquired knowledge کہتے ہیں ۔ انسان نے ایک مشاہدہ کیا اور پھر اس سے نتائج اخذ کیئے ۔
فرشتوں اور انسان کے اس مقابلے میں فرق صرف ان دو علوم کا ہی تھا ۔ فرشتے خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے جو اللہ نے ہمیں دیا یعنی Revealed knowledge ۔ جبکہ انسان کو وحی کے علم کے ساتھ ساتھ مشاہدات و تجزیات سے نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت سے بھی نوازا گیا ہے ۔
اب آپ خود بتائیے کہ زیادہ بڑا عالم کون ہوا ؟ وہ جس کے پاس ایک علم ہے یا وہ جس کے پاس دونوں ؟
فرشتوں اور انسان دونوں کو اشیاء کے نام بتائے گئے ہوں گے مگر انسان نے ان اشیاء سے متعلق کچھ ایسی باتیں بھی بتا دی ہوں گی جو اللہ نے اسے نہیں سکھائی ہوں گی ۔
یہاں یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ اس میں اللہ کا کوئی کردار نہیں ۔ جس عقل سے نتائج اخذ کیئے جاتے ہیں وہ اللہ نے ہی دی ہے ۔ یعنی اللہ نے بجائے ایک ایک شے کا علم دینے کے آپ کو ایک دماغ کے ساتھ چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت دے دی ۔ اب آپ اس سے پوری کائنات کھوج ڈالیں ۔ مگر فرشتے یہ کام نہیں کرتے ۔ وہ اتنا ہی کریں گے جتنا کہا جائے گا ۔
یہ فرق ہے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پھر جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کیوں آتے تھے ؟
جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور استاد کچھ بھی سکھانے نہیں آئے بلکہ وہ بطور پیغمبر اللہ کا پیغام نبی تک پہنچانے آتے تھے ۔ اب یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جب جبریل علیہ السلام وحی لے کر آتے تھے تو علم پہلے جبریل علیہ السلام کے پاس آتا تھا بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۔ اس کی بھی وضاحت احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی کہ وحی کا واحد ذریعہ فرشتہ نہیں تھا بلکہ وحی تین طریقوں سے آتی تھی ۔ اچھے خواب کی صورت میں ۔ جاگتی حالت میں دل پر القاء کیا جانا ۔ فرشتے کے ذریعے ۔
یعنی فرشتے انسان سے Revealed knowledge میں بھی زیادہ نہیں تھے ۔ پھر Acquired knowledge اس کے علاوہ ہے ۔
امید ہے یہ نکتہ سمجھ میں آگیا ہو گا ۔ اگلی پوسٹ میں اگلے نکتے پر بات ہو گی ان شاء اللہ ۔
مبشر علی زیدی کے سوالات اور ان کے جوابات
(حصہ دوئم)
تحریر : محمّد سلیم
٢ ۔ تمام انبیاء یا تمام کتابیں ڈھائی سے تین ہزار سال کے دورانیئے میں ہی کیوں نازل ہوئیں جبکہ انسان کا وجود ڈھائی لاکھ سال پرانا ہے ؟ اسی سے متصل ایک سوال یہ بھی ہے کہ سلسلہ نبوت ختم کیوں ہو گیا ؟ کیا آج انسان کو ہدایت کی ضرورت نہیں ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیئے ہر دور میں انبیاء بھیجے ہیں ۔ اس دنیا میں آنے والا پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تمام انبیاء کے باپ تھے ۔
آپ کے اس سوال کا نکتہ اعتراض اس علم پر مبنی ہے کہ انسان اس دنیا میں دو لاکھ سال یا اس سے پہلے سے موجود ہے ؟
یعنی تقریباً ایک لاکھ ستانوے ہزار سال تک کوئی نبی نہ آیا ۔ پھر اچانک نبی آنے شروع ہو گئے ؟ کتابیں نازل ہونی شروع ہو گئیں ؟
سوال یہ ہے کہ جس علم کی بدولت آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں دو لاکھ سال سے موجود ہے اس کی منطقی اہمیت کیا ہے اور شواہد کتنے مضبوط ہیں ۔
پہلے منطقی اہمیت پر بات کر لیتے ہیں پھر شواہد کو پرکھ لیں گے ۔
سب سے پہلے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طرف آپ موسیٰ علیہ السلام کے وجود پر محض اس بنیاد پر تشکیک کا شکار ہیں کہ ان کا تاریخ میں ذکر نہیں ۔ دوسری طرف آپ دو لاکھ سال پرانے انسان کے وجود کو مان رہے ہیں جبکہ تاریخ آپ کے پاس پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی موجود ہی نہیں ؟
دو لاکھ سال پہلے انسان موجود تھے یہ بات ہمیں کچھ فاسلز کی دریافت سے پتہ چلی ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان محض دو لاکھ سال پرانا نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ قدیم ہو سکتا ہے ۔ کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ جس انسان کے فاسلز دریافت ہوئے وہی پہلا ہو ۔
آپ نے غلطی یہ کی کہ انسان کے دو لاکھ سال قدیم ہونے پر تو فوراً یقین کر لیا مگر جو سوالات آپ نے مذاہب سے پوچھے انہیں سائنس کے سامنے نہ رکھا ۔ ورنہ شائد مذاہب کے سامنے سوال رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔
آپ پوچھتے ہیں کہ انسان تو دو لاکھ سال قدیم ہے تو پھر انبیاء محض تین ساڑھے تین یا پانچ ہزار سال قدیم کیوں ؟
اسی قسم کے چند سوالات سائنس سے پوچھ لیتے ۔
مثلاً
اگر انسان دو لاکھ سال قدیم ہے تو جو تاریخ ہمارے پاس موجود ہے وہ محض پانچ ہزار سال پرانی کیوں ہے ؟ اس سے پہلے کی تاریخ کہاں ہے ؟
سائنس آپ کو بتائےگی کہ انسان نے لکھنے پڑھنے کا فن محض پانچ ہزار سال پہلے سیکھا ۔
حالنکہ یہ جواب انتہائی احمقانہ ہےکہ جو انسان دو لاکھ سال سے دنیا میں موجود ہے وہ ایک لاکھ پچانوے ہزار سال تک لکھنا پڑھنا ہی نہ سیکھ سکا ۔ پھر پانچ ہزار سال پہلے اس نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ۔ احمقانہ ہونے کے باوجود ہم اس جواب کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔ لیکن اگر یہی جواب میں آپ کو دے دوں کہ پانچ ہزار سال سے پہلے انسان پر وحی نازل اس لیئے نہیں کی گئی کیوں کہ وہ پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتا تھا تو آپ کیا کریں گے ؟ انبیاء آتے ہوں گے ۔ زبانی تعلیم دے کر چلے جاتے ہوں گے ۔ صحیفے نازل نہیں ہوتے ہوں گے کیوں کہ انسان پڑھنا لکھنا جانتا ہی نہیں تھا ؟
انسان جیسی ذہین ترین مخلوق کا ایک لاکھ پچانوے ہزار سال تک "کچھ بھی نہ” کرنا اور پھر اچانک پانچ ہزار سالوں میں "سب کچھ” کر ڈالنا ناقابل یقین ہے ۔ لیکن سائنس کہہ رہی ہے تو آپ یقین کر لیں گے مذہب بتائے تو وہ سوال پوچھیں گے جو آپ کو سائنسدانوں سے پوچھنے چاہیئے تھے ۔
آج ایک نومولود بچے کو تنہا کسی ویران جزیرے پر چھوڑ آئیں ۔ اگر وہ زندہ رہا تو بیس سال بعد دوبارہ اس کے کارنامے دیکھنے جائیں ۔ وہ بہت سی ایسی چیزیں اپنے اطراف کی چیزوں سے تخلیق کر چکا ہو گا جو آپ کو حیران کر دیں گی ۔ مگر آپ اس ذہین ترین مخلوق کے بارے میں اس بات پر یقین کیئے بیٹھے ہیں کہ یہ دو لاکھ سال سے اس دنیا میں موجود ہے مگر "کچھ بھی نہیں” کیا ؟
کوئی ایک قابل ذکر ایجاد ہو جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہ پچاس ہزار سال پہلے ہمارے آباء نے ایجاد کی تھی ؟
کوئی بھی نہیں ہے ؟
تیر کمان تک دس گیارہ ہزار سال پرانی ایجاد ہے تو کیا یہ سوال پیدا نہ ہوا کہ انسان پونے دو لاکھ سال تک کرتا کیا رہا ؟
صرف اسی بات پر اعتراض ہے کہ وحی کیوں نہ نازل ہوئی ۔ اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ پونے دو لاکھ سال تک انسان نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ بس سوتا رہا ۔
چلیں کچھ بھی ایجاد نہ کیا ۔ مان لیا ۔ کم از کم بچے تو پیدا کرتا ؟
یہ تو گھر کی کھیتی تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ سائنس آپ کو یہ جواب دے کہ اس وقت انسان کو بچے بھی پیدا کرنے نہیں آتے تھے ؟
اس کا بھی تجربہ کر دیکھیں ۔
ایک انسانی جوڑا ایک جزیرے پر چھوڑیں اور سو سال بعد وہاں کی آبادی نوٹ کر لیں ۔ لگ پتہ جائے گا ۔
دنیا کی آبادی اس وقت یعنی سال 2018 میں تقریباً سات ارب انسانوں پر مشتمل ہے ۔
مگر یہ تعداد آج سے سوا تین سو سال پہلے محض 32 کروڑ تھی ۔
یہ اس وقت کے شماریاتی ماہرین کا اندازہ ہے ۔ آج کے ماہرین کے مطابق 64 کروڑ تھی ۔
دونوں میں سے جسے بھی صحیح مان لیں ۔
چوتھی صدی عیسوی میں سائنس ہمیں انسانوں کی کل تعداد اندازاً 5 کروڑ بتاتی ہے ۔
12 ہزار سال پہلے انسانوں کی کل تعداد دس سے پندرہ لاکھ تھی ۔
ستر ہزار سال پہلے سائنس کے اندازے کے مطابق انسانوں کی تعداد ایک ہزار سے دس ہزار انسانوں پر مشتمل ہونی چاہیئے ۔
اس سے پچھلے سوا لاکھ سالوں میں کیا ہوتا رہا سائنس کو نہیں پتہ ۔
اب دوسری کہانی سنیئے ۔ یہ بھی سائنس ہی ہمیں سناتی ہے ۔
انسان کی اس وقت یعنی 2018 میں اوسط عمر 79 سال ہے ۔
آج سے دو سو سال پہلے انسان کی اوسط عمر 40 سال تھی ۔
دس ہزار سال پہلے تیس سال کے آس پاس تھی ۔
یہ میں نہیں کہہ رہا ۔ نہ یہ قران میں لکھا ہے ۔ یہ سائنس ہمیں بتاتی ہے ۔
اب اس کا تجزیہ کرتے ہیں ۔
آج کی آبادی میں اور آج سے تین سو سال پہلے کی آبادی میں تقریباً اکیس گنا کا فرق ہے ۔ پھر سترہویں صدی اور چوتھی صدی میں فرق بارہ گنا کا ہے ۔ پھر چوتھی صدی اور دس ہزار سال پہلے کی آبادی میں فرق 33 گنا کا ہے ۔ اب اگر میں آج سے بیس ہزار سال پیچھے جاؤں تو دنیا میں انسانوں کی تعداد 45 ہزار کے قریب بچتی ہے ۔ اور اگر تیس ہزار سال پیچھے جاؤں تو یہ تعداد کم ہو کر 1400 انسانوں پر مشتمل ہو گی ۔ چالیس ہزار سال پہلے یہ تعداد محض 41 انسانوں پر مشتمل ہونی چاہیئے ۔ پچاس ہزار سال پہلے صرف ایک آدمی ۔
جی ہاں ۔
صرف ایک آدمی ۔ اب آدمی تھا یا عورت مجھے نہیں پتہ ۔ آدمی ہو گا تو عورت ارتقاء کے مراحل سے گزر رہی ہو گی اور عورت ہو گی تو آدمی کہیں ارتقاء کی لائن میں لگا ہوا ہو گا ۔
اس حساب کو میں نے احتیاطاً سائنس ہی کے فارمولے سے دس ہزار سال فی اکتیس گنا پر تقسیم کیا ہے ۔ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیئے ۔ اگر ہم اندازوں کو پس پشت ڈال کر صرف علمی بنیاد پر آج اور آج سے تین سو سال پہلے کی آبادی کی مناسبت سے حساب نکالیں تو انسان کے وجود کی یہ کہانی دس سے پندرہ ہزار سال میں ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ اور اگر میں انسان کی اوسط عمر کو بیچ میں مانع کرتا رہوں تو انسان کے وجود کا آج تک برقرار رہنا سوالیہ نشان بن جاتا ہے ۔
یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ دو لاکھ سال پہلے وجود میں آنے والے اس انسان کی ایک تو شرح پیدائش کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی بلکہ اوسط عمر بھی کم تھی ۔ اور یہ دونوں باتیں بقائے اصلاح اور قدرتی انتخاب میں زبردست خامیاں تسلیم کی جاتی ہیں ۔
مگر ہم موجود ہیں ۔
اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا پر راج کر رہے ہیں ۔
یہ معاملہ دو ہی شکلوں میں سمجھ آتا ہے ۔
١ ۔ انسان کی تاریخ زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار سال پرانی ہو ۔ اس سے زیادہ پرانی نہ ہو ۔ اور اس کی اوسط عمر ابتدا میں ایک ہزار سے پندرہ سو سال کے درمیان ہو ۔
٢ ۔ اگر انسانی تاریخ دو لاکھ سال پرانی ہے تو ابتدا میں انسان کی اوسط عمر پانچ سے دس ہزار سال کے درمیان ہونی چاہیئے ۔
یعنی ایک ہی انسان دس سے پندرہ ہزار سال تک زندہ رہے اور اس پورے عرصے میں وہ محض ایک سے دو بچے پیدا کرے ۔
کیسے ؟
یہ مجھے نہیں پتہ ۔
فیملی پلاننگ کرے یا کچھ اور ۔
پھر اسی طرح سے یہ سلسلہ آگے چلتا جائے اور آہستہ آہستہ آبادی آگے بڑھے تو بات سمجھ آتی ہے ۔ ورنہ کم اوسط عمر رکھنے والا انسان جو بچے بھی پیدا نہیں کر رہا اس کا تو وجود سو سال آگے نہیں جا سکتا ۔ دو لاکھ سال تو بہت دور کی بات ہے ۔
انتہائی ناقابل یقین بات ہے کہ ایک لاکھ نوے ہزار سال تک انسان چند بنیادی باتیں بھی نہ سیکھ سکا اور اگلے دس ہزار سالوں میں اس نے پیچیدہ ترین مشینری بنانی شروع کر دی ؟
میری مانیں تو وہ جو دو لاکھ سال پرانے فاسلز ملے ہیں انہیں دوبارہ جانچ کروائیں کہ کس جانور کے ہیں ۔
میں کچھ یاد دلوا کر مدد کر دیتا ہوں ۔
1912 میں ایک کھوپڑی اور کچھ دانتوں کے فاسلز دریافت ہوئے تھے ۔ ان کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ بن مانس اور انسان کی درمیانی مخلوق یعنی مسنگ لنکس کے ہیں اور پانچ لاکھ سال پرانے ہیں ۔ اس کا نام پلٹ ڈاؤن مین رکھا گیا ۔
بعد میں دریافت کنندہ کے مرنے کے بعد 1953 میں بھانڈا پھوٹا کہ یہ کسی ماڈرن ایپ کی کھوپڑی اور دانت ہیں جنہیں بلیچ اور کیمیکلز کے ذریعے پانچ لاکھ سال پرانا بتا کر فراڈ کیا گیا ۔
باقی کہانی لنک میں پڑھ لیں ۔
http://www.pbs.org/wgbh/aso/databank/entries/do53pi.html
1924 میں دانت دریافت ہوئے جو کسی نبراسکا مین کے تھے ۔ اسے انسانوں کے آباء میں سے سمجھا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ دانت سوؤر کے ہیں ۔
ان کی بھی کہانی پڑھ لیں ۔
http://www.talkorigins.org/faqs/homs/a_nebraska.html
اس قسم کی جانے کتنی کہانیاں ہیں جو کئی سالوں تک انسانوں کو گمراہ کیئے رکھتی ہیں ۔ بعد میں خود سائنسدان ہی ان کا پول کھول دیتے ہیں ۔
مسلمان گمراہی کے گڑھے میں گر جاتا ہے اور سائنسدان بعد میں توبہ کر لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی ۔
بہتر یہی ہے کہ سائنس پر اتنا ہی یقین کریں جتنا منطق تسلیم کرے ۔ دو لاکھ سال پہلے کے انسان کو نہ تو منطقی بنیادوں پر تسلیم کیا جا سکتا ہے نہ شواہد پر کلی بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔
حقیقت صرف اتنی ہے کہ انسان اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار سال قدیم ہو سکتا ہے ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ انبیاء کرام کے آنے کا سلسلہ پہلے انسان سے ہی جاری ہے ۔ شروع میں زبانی ہدایات دی جاتی رہیں ۔ پھر جب انسان لکھنا پڑھنا کسی حد تک سیکھ گیا تو صحیفے آئے اور بعد میں کتابیں آئیں ۔ اس لیئے کتابوں کا سلسلہ اتنا پرانا نہیں ہے ۔
لیکن اگر آپ انسان کی قدیمیت دو لاکھ سال کی مانتے ہیں تو سوال صرف مذہب پر نہیں اٹھتا بلکہ ہر علم پر اٹھتا ہے کہ ایک لاکھ نوے سال تک انسان کی کارکردگی ہر معاملے میں صفر کیوں ہے ۔
امید ہے بات سمجھ آگئی ہو گی ۔
بات بہت لمبی ہو گئی ہے لہٰذا متصل سوال کہ سلسلہ نبوت کیوں ختم ہو گیا ؟ کیا آج کے انسان کو ہدایت کی ضرورت نہیں ؟ اس پر اگلی پوسٹ میں بات ہو گی ان شاء اللہ