محمد شیخ کون ہے اس کا دعوی کیا ہے ؟ از قاری حنیف ڈار
محمد شیخ کوایک روشن خیال اسکالر سمجھ کر مسلمان علماء کو اس سے مناظرے کی ترغیب دینے والے اصل میں ان کو ہانکا کر کے ایک ایسے شخص کے سامنے لا بٹھاتے ہیں جو اپنی گمراھی کی K2 پہ کھڑا ہے ۔ وہ سیدھا سیدھا آج کا نبی اور رسول ہونے کا دعویدار ہے ۔ وہ یہ لفظ صاف طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ سامنے والا اس کی یہ حیثیت خود سے ہی سمجھ جائے تا کہ اس کو خود سے کوئی خطرہ مول نہ لینا پڑے ـ
آپ جانتے ہیں کہ پہلے In اور Out کی لکیر مار کر پھر لکیروں کا ایک جال اس کے گرد بُن دیا جاتا ہے اور پزل بنا کر آپ کو کہا جاتا ہے کہ باہر کا رستہ ڈھونڈیں ۔ محمد شیخ بالکل وہی پزل ہے ۔ مسلمان اس کو مسلمان سمجھ کر اپنے دلائل تیار کرتے اورپیش کرتے ہیں اور جب اس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک چالاک چیتے کا شکار کرنے کے لیے خرگوش کو شکار کرنے والے ہتھیار لائے ہیں ـ
آپ مسلمانوں کے کسی فرقے سے بھی بحث کر لیں قرآن کریم وہ متفق دستاویز ہے جس میں سے دلائل پیش کیے جائیں تو اگلے بندے کے لیے رد کرنا کافی مشکل ہوتا ہے ۔ مگر محمد شیخ وہ بندہ ہے جو موجودہ قرآن کو کتاب اللہ نہیں کہتا بلکہ اپنی انڈراسٹینڈنگ کو قرآن کہتا ہے ـ
دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کا جو یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اسے قرآن پڑھایا ہے اس کے پیچھے پورا نظریہ ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ جسے ہم قرآن کہتے ہیں وہ اسے قرآن نہیں کہتا بلکہ صرف الکتاب کہتا ہے وہ الکتاب کی انڈراسٹینڈنگ کو القرآن کہتا ہے اور یہ انڈراسٹینڈنگ اس کے بقول اللہ نے اس پر ہی نازل کی ہے ۔ جب ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے والے رسول جو محمد بن عبداللہ ﷺ ہیں کیا ان پر قرآن نازل نہیں ہوا تو وہ کہتا ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے بھی الکتاب موجود تھی اور ممکن ہے اللہ نے محمد بن عبداللہ پر بھی اس کتاب کی انڈراسٹینڈنگ نازل کی ہو( جو عربی زبان میں ھو ) لیکن قران نے ان کا نام نہیں بتایا ۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ نام تو محمد ﷺ بتایا ہے تو وہ کہتا ہے کہ قرآن نے جو محمد بیان کیا ہے وہ نہ مرا ہے نہ قتل ہوا ۔ اس کے لیے وہ سورہ العمران آیت 145 کا حوالہ دیتا ہے( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ) ۔ اس آیت میں سے بھی وہ پورے جملے میں سے ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنا اھرام تعمیر کرتا ہے جبکہ یہ آیت ہی اس کے اس نظریئے کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ھے کہ محمد ﷺ نہ فوت ہوئے ہیں اور نہ قتل ہوئے ہیں ۔ غزوہ احد میں نبی کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کرجب صحابہؓ نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا ۔ کچھ نہ کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو اب جنگ کیسی ؟ کچھ نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو جینے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے ۔ لہذا وہ اندھا دھند استشہادی نیت سے کفار پر ٹوٹ پڑے ۔
اللہ پاک نے اس پورے تصور کو ہی ایڈریس کیا اور فرمایا کہ ۔ وما محمد الا رسول ۔۔۔۔۔۔۔ محمد ﷺ رسول کے سوا کچھ نہیں خدا تو نہیں ہیں جنہیں موت نہ آئے ۔ قد خلت من قبلہ الرسل، ان جیسے کئی رسول پہلے فوت ہوگئے اگر یہ بھی ان کی طرح فوت ہو جائیں یا شھید ہو جائیں تو کیا تم الٹے قدم پھر جاؤ گے ؟
[ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ) ]
دیکھیے جو آیت نبی کریم ﷺ کے وصال کوبطور بشر کنفرم کر رہی ہے ۔ محمد شیخ اسی کو محمدﷺ کے نہ مرنے کی دلیل کے طور پر بیان کر رہا ہے اور اپنی اسی سوچ کو آج کا قرآن کہہ رہا ہے ـ
اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں دوسری جگہ فرمایا ہے ؎
[ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ـ الزمرـ ۳۱ ]
بےشک آپ نے بھی مر جانا ہے اور ان لوگوں نے بھی مر جانا ہے پھر بےشک تم لوگوں کو اپنے رب کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں مقدمے کا سامنا ہو گا ]
محمد شیخ کا موقف انتہائی زگ زیگ ہے ۔ اس کے بقول محمد ﷺ نہ مرے ہیں اور نہ شھید ہوئے تو پھر کیا ہوئے ہیں ؟ وہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاھر ہو رہے ہیں اور موجودہ دور کا محمد وہی ہے جو الکتاب کو سمجھتا ہے ۔ وہ عربی قرآن کو اب پاکستانی اردودان محمد ’’ شیخ ‘‘ کی صورت اردو میں پیش کر رہا ہے اور یہ اردو تفہیم و تفسیر ہی اب کلام اللہ ہے ـ یہ موقف صوفیاء کے اس موقف کے قریب ہے کہ حقیقتِ محمدی کبھی موت کا شکار نہیں ہوئی بلکہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاھر ہوتی رہی ہے [ کدی خواجہ پیا بنڑ آناں ایں ، کدی گنج شکر بن جاناں ایں ، نت نویں توں روپ وٹانا ایں ]
مگر صوفیاء نے قرآن کو چھیڑا نہیں بلکہ اپنے لیے الگ سے طریقت کا نام تخلیق کر کے اپنے تصورات کو شریعت کی تلوار سے بچا لے گئے مگر محمد شیخ سیدھا قرآن پر حملہ آور ہوا ہے۔ وہ عربی قرآن میں سے اردو قرآن دریافت کرتا ہے اور دعو یٰ کرتا ہے کہ اس نے یہ اردو تفہیم براہ راست خدا سے سیکھی ہے ۔ جس طرح ایک واقعہ انجیل میں آیا ہے مگر قرآن نے اس سے مختلف واقعہ بیان کیا ہے تو انجیل والا خود بخود منسوخ ہو گیا اور غلط قرار پایا ہے ۔اسی طرح اگر ایک بات عربی محمد ﷺ پر عربی میں نازل ہوئی ہے تو آج اردودان محمد ’’ شیخ ‘‘ پر اردو میں نازل ہو کر تازہ ترین فرسٹ ہینڈ خبر بن گئی ہے اورقرآن میں اگر اس سے کچھ مختلف ہے تو اس کی حیثیت اب انجیل کی خبر جیسی بن کر رہ گئی ہے ۔ حق وہی ہے جو محمد شیخ کے کمرے میں ہے ـ یہ وہ بات ہے جو وہ بالکل سیدھے سیدھے عوامی زبان میں کہہ دے تو طوفان برپا ھو جائے مگر وہ گھما پھرا کر یہی بات کہہ رہا ہے ـ
الکتاب کیا ہے جس کو محمد شیخ اپنے لیکچر میں متعارف کرا کر اس میں سے اپنا شئیر نکال رھا ہے ؟
محمد شیخ کے بقول الکتاب سنگل صیغہ ہے جبکہ اس کے ساتھ استعمال کیے جانے والے الفاظ جمع کے صیغے میں بیان کیے گئے ہیں ؎
[وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (69) السجدہ
اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور کتاب رکھی جائے گی اور نبیوں اور شھداء کو لایا جائے گا اور ان کے ( اور ان کی امتوں کے) درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی ـ
یہاں سے الکتاب کو اٹھایا ہے محمد شیخ نے اور بقول اس کے اگر فیصلہ آسمانی کتابوں کے مطابق ہونا تھا تو پھر کتاب کی بھی جمع لانی چاہیے تھی کہ کتابیں رکھی جائیں گی جس طرح نبیوں اورشھیدوں کو جمع کے صیغے میں استعمال کیا ہے تو کتاب کے لیے صرف الکتاب کیوں ؟
حشر کے اس منظر میں جس الکتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہ وھی کتاب ہے جس میں قرآن بھی لکھا ھوا ہے اور تورات ،زبور، انجیل اور صحف ابراھیم بھی لکھے ھوئے ہیں اور ھمارے سمیت امتوں کے اعمال بھی لکھے ہوئے ہیں ـ
پہلے قرآن کو لیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ (21) فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (22).( سورہ البروج)
[ (إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ * فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ * لا يَمَسُّهُ إلا الْمُطَهَّرُونَ * تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ) (الواقعة: 77،، 80)
اسی کتاب محفوظ میں سے ہر امت کو اس کا حصہ یعنی نصیب نازل کیا گیا ہے ۔ اس کے لیے اللہ پاک نے الذین اوتوا نصیبا من الکتاب ، جن کو دیا گیا کتاب میں سے حصہ ، کا جملہ بول کر بتا دیا کہ ایک ہی کتاب میں سے تمام امتوں کو ان کے حصے کی کتاب دی گئی۔
النساء ۵۱ـ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ
النساء 44 ـ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ.
اب آیئے کہ اسی کتاب میں کہ جس میں سے کتابیں نقل کر کے نازل کی گئیں ۔اسی کتاب میں ہمارے مقدر بھی اور ہمارے اعمال بھی موجود ہیں اور اس الکتاب کا نام ام الکتاب ہے ۔ یہ جو ہمارے دائیں بائیں والے فرشتے کتابت کر رہے ہیں وہ تمام صحیفے وہیں جمع ہو رہے ہیں ۔
[ يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ] ہمارے مقدر اس کتاب میں ہیں جو رب چاہے تو تبدیل کر سکتا ہے ۔ کسی حادثے کو مٹا بھی سکتا ہے۔ ہماری دعاؤں کے طفیل یا ہماری کسی نیکی کے طفیل ، اور باقی بھی رکھ سکتا ھے ، اس کے ہاتھ کھُلے ہوئے ہیں اور کتابوں کی ماں اس کے پاس ہے ۔
ہمارے اعمال اور الکتاب !
[ : وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (الکہف ـ 49)
اور رکھی جائے گی الکتاب پس تو دیکھیے گا مجرموں کو کہ وہ سہمے ہوئے ہیں اس مواد سے جو اس کتاب میں ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ھائے ہماری بربادی یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے نہ چھوٹا عمل چھوڑا ہے نہ بڑا مگر اس کو گن گن کر نوٹ کر رکھا ہے اور جو انہوں نے کیا ہے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔
اس آخری جملے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا یعنی [ولا یظلم ربک احدا ] اور سورہ السجدہ کی الکتاب والی آیت کا جملہ [ و ھم لا یظلمون ] کی مماثلت کو دیکھ لیجئے کہ وہ الکتاب اعمال والی ھو گی ۔
معذرت خواہ ہوں کہ تحریر لمبی ھو گئی مگر آپ یہ پوائنٹس نوٹ فرما لیجیے اور پھر محمد شیخ کا کوئی سا بھی کلپ سن لیجیے آپ کو اس بات کے پیچھے کی گھمن گھیریاں خوب سمجھ لگیں گی ۔
محمد شیخ مُصِر ہے کہ اس کو الکتاب خدا نے براہ راست سمجھائی ہے اور جو شخص درمیان میں کوئی واسطہ بیان کرے کہ میں نے فلاں سے پڑھا ہے یا مجھے فلاں ، فلاں نے پڑھایا ہے تو ایسا شخص خدا کا مجرم ہو گا وغیرہ وغیرہ ۔
جبکہ قرآن کریم تصریح فرما رہا ہے کہ اللہ پاک نے بذریعہ جبرائیل بھی رسول اللہ ﷺ کو قرآن سکھایا ہے ۔
(عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى) [النجم:5]
[ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (19) ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ (20) مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ (21)]
[ ﴿وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) ]
صحابہ کو تو قرآن نبی کریم ﷺ نے پڑھایا پھر صحابہؓ نے تابعین کو پڑھایا ۔ نبی کریم کا فرض منصبی جگہ جگہ بیان ہوا کہ یعلمھم الکتاب و الحکمہ ،، یعنی نبی کریم ﷺ صحابہ کو قرآن کی تعلیم دے رہے ہیں تا کہ نبی کریم ﷺ گواہ ہوں صحابہؓ پر کہ میں نے ان کو تیرا کلام پہنچا دیا تھا ، سکھا دیا تھا اور صحابہؓ گواہ ہوں تابعین پر یوں ہر نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی اور ان پر حجت قائم کرتی چلی جائے گی قیامت تک ۔۔۔۔۔۔ نہ صحابہ نے دعویٰ کیا کہ ان کو کلام اللہ خود اللہ نے سکھایا اور نہ تابعین نے ۔ محمد شیخ قرآن کی جو بھی الٹی سیدھی تشریح اردو میں کر رہا ہے وہ اس تشریح کو من جانب اللہ الکتاب کا ٹائٹل دے رہا ہے ـ
[ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ ’’ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ ‘‘ (وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ) وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعہ ـ 2)
[ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ (وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ )(البقرہ ـ 151)
حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا دیکھیں کہ وہ جس رسول ْﷺ کے لئے دعا فرما رہے ہیں ان کے فرائض کیا گنوا رہے ہیں ـ
[رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ’’ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ‘‘وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرہ ـ 129)
اللہ پاک مومنوں پر نبی کریمﷺ کی بعثت کا احسان جتاتے ہوئے ان کے فرائض بتا رہے ہیں کہ یہ احسان کیوں ہے ؟
[
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ـ آل عمران ـ 164]
اس کے بعد اللہ پاک فرماتے ہیں کہ یہ قرآن جس واسطے سے بھی انسانیت تک پہنچے اتمام حجت اور انذار ھو جائے گا ـ
[ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ] الانعام ـ ۱۹
اور آخر میں اللہ پاک کا یہ اعلان کہ رسول اللہ ﷺ کے پڑھائے ہوئے بعد والوں کے لیے حجت اور گواہ بنیں گے ـ جبکہ محمد شیخ کے نزدیک جو لوگ یہ کہیں کہ انہیں الکتاب انسانوں نے پڑھائی وہ قیامت کے دن اللہ کی گرفت میں آئیں گے ـ
[ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ] البقرہ 143
[ﻣِﻟﱠﺔَ أَﺑِﯾﮐُمْ إِﺑْرَاھِﯾمَ ھُوَ ﺳَﻣﱠﺎﮐُمْ اﻟْﻣُﺳْﻟِﻣﯾنَ ﻣِنْ ﻗَﺑْلُ. وَﻓِﻲ ھَذَا ﻟِﯾَﮐُونَ اﻟرﱠﺳُولُ ﺷَﮭِﯾداً ﻋَﻟَﯾْﮐُمْ وَﺗَﮐُوﻧُوا ﺷُﮭَدَاءَ ﻋَﻟَﯽ اﻟﻧﱠﺎسِ. ) الحج ۷۸
محمد شیخ الکتاب کے نام سے قرآن پاک کی اپنی من مانی اردو تشریح کو نئی الہامی کتاب کی صورت پیش کر رہا ہے جو وحی کا نام استعمال کیے بغیر جب یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ تشریح اس کو براہ راست خدا نے سکھائی ہے تو خدا نے بشر کو سکھانے کے اپنے کچھ طریقے بیان کیے ہیں ۔ محمد شیخ ہمیں بتا دے کہ خدا نے اس کو سکھانے کے لیے ان میں سے کونسا طریقہ استعمال فرمایا ہے ؟
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (شوری ـ 51)
کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ رب اس سے سامنے بات کرے مگر یہ کہ اس کو خفیہ وحی کرے ، یا پردے کے پیچھے سے کلام کرے یا کوئی فرشتہ رسول بنا کر اس کے ہاتھ احکام بھیجے ـ
جس کی ملاقات محمد شیخ سےھووہ ضرور اس سے پوچھے کہ اس کو پڑھانے کے لیے رب نے ان میں سے کونسا طریقہ اختیار فرمایا ہے ؟
آخری بات یہ کہ محمد شیخ قرآن کی بجائے الکتاب پر ایمان رکھتا ہے جو براہ راست اس پر نازل ھوئی ہے ۔ قرآن کو وہ ھمارے خلاف اسی طرح گھما پھرا کر کوٹ کر رہا ہے جس طرح ہم ہندوؤں کے وید ان کے خلاف کوٹ کرتے ہیں بغیر ایمان رکھے ہوئے ، اس لیے اس کے قرآن پڑھنے سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ـ
محمد شیخ سے یہ سوال کرنا ضرور بنتا ہے کہ جب تک الکتاب کسی کو براہ راست اللہ کی طرف سے نہ پڑھائی جائے تب تک اس پر اتمام حجت نہیں ھوتا تو اللہ پاک نے یہ الکتاب پاکستان کے سب کے سب ۲۰ کروڑ عوام کو کیوں نہ سکھا دی ؟ باقی کے سوا ارب مسلمانوں کو کیوں نہ سکھا دی ؟ آپ میں کیا سرخاب کے پر لگے تھے کہ آپ کو یہ کتاب سکھا کر لوگوں کو راہ دکھانے کی ذمہ داری سونپ دی ْ؟ گویا نتیجہ یہی نکلا کہ آپ اللہ کے منتخب کردہ فرد ہیں جس کو اردو جاننے والی قوم پہ حجت بنا کر مبعوث فرمایا گیا ھے ؟ اور آپ کا سکھایا گیا آپ کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا بعد والوں کے لیے کوئی اور مبعوث کیا جائے گا جس کو الکتاب سکھا کر اگلی نسل پر اتمام حجت کیا جائے گا ؟ کیا یہی نبوت کا سلسلہ نہیں تھا جو بند کر دیا گیا تھا اور آپ اس کو حیلے بہانے سے کھول کر بیٹھ گئے؟