مدینے کا یہودی پسِ منظر اور قرآن وحدیث ! تحریر:قاری حنیف ڈار
یہود صدیوں سے آ کر مدینے میں بس گئے تھے اور وھاں ان کی نسلوں کے بعد نسلیں پیدا ھوئیں جو اپنی زبان اور ثقافت میں یہودیت سے زیادہ عربیت کے رنگ میں رنگ گئ تھیں ، ان کے نام عبرانی کی بجائے عربی تھے ، عبرانی صرف ان کے مذھبی راھنما سیکھتے تھے جیسے آج صرف ھمارے علماء عربی سیکھتے ھیں اور عوام الناس عربی سے نابلد ھیں ،، اسی طرح یہود کے عوام الناس کی مادری زبان عربی تھی اور وہ عبرانی سے نابلد تھے، لہذا ان کے علماء جو بھی چاھتے دین کے نام پر ان کے ھاتھ میں پکڑا دیتے اور وہ خلوص، نیت کے ساتھ اس طوق کو گلے میں ڈال لیتے اور بیڑی کو پہن لیتے ،،
” وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (البقرہ-78)، ان میں سے ایک طبقہ تو وہ ھے جو کتاب سے واقف نہیں ھے سوائے اس کے کہ اس کے ذریعے اپنی تمنائیں پوری کروائے ( جو کچھ وظیفے کے طور پہ ان کو پکڑا دیا جائے وہ اس کے مفھوم و مقصد کو جانے بوجھے بغیر رٹا لگاتے رھتے ھیں کہ اس کے ذریعے سے اپنی تمنائیں پوری کروائیں ، اس ے زیادہ ان کی اس کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں ،،، ” فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ( 79 ) پس ھلاکت ھے ان کے لئے جو اپنے ھاتھوں سے ایک تحریر لکھ کر کہتے ھیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ھے تا کہ اس کے عوض گھٹیا قیمت وصول کر لیں ، سو ھلاکت ھے ان کے لئے اس پر جو وہ لکھتے ھیں اور ھلاکت ان کے لئے اس پر جو وہ اس کے عوض کماتے ھیں ،،،،،،،،
یوں ان کے علماء کے پاس کسی بھی عبرانی تحریر کو ربانی حکم بنا کر پیش کر دینا بڑا آسان تھا اور وہ یہی کرتے تھے ،،
صدیوں کے اس تعامل کے نتیجے میں اھلِ مدینہ یہودی ھو کر ٰیہود کے قبائل کے حلیف بن کر ان میں ضم ھو چکے تھے ، یہودیوں اور مدینے والوں کے نام مماثل تھے چاھے مردوں کے ھوں یا عورتوں کے ، یعنی ایک طرف یہود سر سے پاؤں تک عربیت میں رنگ گئے تھے ، دوسری جانب اس مماثلت نے قرب و مودت کی جو فضاء قائم کی اس نے مدینے کو عقیدے میں یہودیوں کا پیرو بنا دیا ،،
بدعات اگر ان میں در آئیں تھی تو وہ یہودیت کے رستے سے آئی تھیں ، مدینے والوں کے کوئی مخصوص بت یا دیوتا نہیں تھے ، عبداللہ ابن ابئی کا نام عبداللہ یہودیت کی دین تھا نہ کہ اسلام نے اس کو عبداللہ کے نام سے موسوم کیا تھا ،، اسی طرح اگر ابوھریرہؓ کا نام عبدالرحمان تھا تو وہ بھی اسلام کی عطا نہیں تھا بلکہ یمن کے پسِ منظر میں تھا ،، مدینے والوں کا اسلام سے قبل کا دین یہودیت تھا ، یمن بھی یہودی تھا ،حبشہ یا ایتھوپیا اور اس کے ذیلی قبائل عیسائی تھے ، نسلی یہود چونکہ پیسے والے تھے لہذا اثرو رسوخ بھی انہیں کا تھا مدینے میں سونے اور اسلحے کا کاروبار یہود کے ھاتھ میں ھی تھا ، اور پورا زرگر بازار ان کا تھا ، صدیوں کے اس تعامل کے نتیجے میں نسلی یہود اور مذھبی یہود یعنی مدینے والوں میں یک جان و دو قالب کا سا معاملہ بن چکا تھا ،وہ اکٹھے کھیل کود کر جوان ھوئے تھے ، ایک ھی زبان بولتے تھے ،ایک ھی قسم کے علماء سے ربط رکھتے تھے ،لین دین کے گاڑھے معاہدے کر رکھے تھے – اھل مدینہ کے ایمان لے آنے کے بعد نہ صرف یہود کے روز مرہ رسم و رواج کو ان کے دل سے نکالنا ضروری تھا بلکہ خود یہود کی محبت اور مودت کو بھی سختی کے ساتھ کچلنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ کسی وقت بھی ان کو پلٹا کر واپس یہودیت کی طرف مائل کر سکتی تھی ،، یا آئندہ چل کر مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا کر سکتی تھی ،مسلم ریاست کے راز طشت از بام کر سکتی تھی ،
اس خطرے و خدشے کو مدںطر رکھتے ھوئے نہ صرف اللہ پاک نے سختی کے ساتھ مسلمانوں ( انصار ) سے خطاب کیا اور انہیں یہود کو پرانے والا دوست سمجھنے سے خبردار کیا ان کے سامنے پرانی روش کے مطابق اپنے راز کھولنے کی بھی ممانعت کر دی ،ان الفاظ کے ساتھ کہ یہود کے سامنے اپنے پیٹ سے کپڑا مت اٹھایا کرو وہ پہلے ھی تمہیں واپس پلٹا لے جانے کی امید لگائے بیٹھے ھیں اور تمہارے دین پر غیظ وغضب سے بھرے بیٹھے ھیں ، تم ان کو وھی پرانے والا سچا ،جگری اور مخلص دوست سمجھتے ھو جبکہ وہ تمہارے اٹھ جانے کے بعد غصے اور بے بسی سے انگلیاں کاٹتے ھیں ، وہ تمہارا نقصان چاھتے ھیں ،لہذا ان سے اپنی بہتری کے مشورے مت لیا کرو ،ان کے مشوروں میں تمہارے لئے سوائے ھلاکت خیزی کے اور کچھ نہیں ، بھلائی تمہیں چھو کر چلی جائے تو ان کو بخار چڑھ جاتا ھے اور مصیبت جب تک تم پر گلے گلے تک نہ پڑے ان کا دل راضی نہیں ھوتا ،جو کچھ ان کے منہ سے بیساختگی میں نکل جاتا ھے وہ تم سن ھی لیتے ھو مگر جو ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بھرا ھوا ھے وہ اس ے بڑا ھے ،، یہود و نصاری اب آپس میں تو دوست ھیں مگر تمہارے دشمن بن چکے ھیں ، اب ان سے دوستی کا رشتہ اسلام کی دشمنی کی قیمت پر ھی قائم کیا جا سکتا ھے ،، ان کا دوست لازماً اسلام کا بدخواہ ھو گا اور انہیں میں سے سمجھا جائے گا مسلمان کبھی اس پر اعتبار نہیں کریں گے ،،
ياأيها الذين آمنوا إن تطيعوا فريقا من الذين أوتوا الكتاب يردوكم بعد إيمانكم كافرين ( ال عمران100 )
اے ایمان والو اگر تم اھل کتاب کی بات مانو گے تو یہ تمہین ایمان لانے کے بعد پلٹا کر کافر ( یہودی) بنا لیں گے ،،
( ود كثير من أهل الكتاب لو يردونكم من بعد إيمانكم كفارا حسدا من عند أنفسهم ) ( البقرة : 109)
اھل کتاب کی اکثریت حسد کی وجہ سے یہ چاہت رکھتی ھے کہ وہ ایمان لانے کے بعد تمہیں پلٹا کر کافر کر دے ،،
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ .افواھھم وما تخفی صدورھم اکبر ،، ( آل عمران 118) اے ایمان والو اپنے سوا کسی کے سامنے پیٹ ننگا مت کرو وہ سوائے تمہاری بربادی کے اور کچھ نہیں چاھتے ،بغض ان کے مونہوں سے ابلا پڑتا ھے اور سینے میں اس سے بھی بڑی خواھش چھپائے بیٹھے ھیں یعنی تمہیں واپس یہودی بنا لینے کی ،،،
اسی طرح غزوہ احزاب میں منافقیں کی طرف سے جو کہ بظاھر مسلمان مگر اندر سے بدستور یہودی تھے بار بار یہ دعوت کہ اے یثرب والو پلٹ کر یہودی ھو جاؤ کہ اسلام سے چمٹے رھنے کے حالات نہیں ھیں ، (وإذ قالت طائفة منهم يا أهل يثرب لا مقام لكم فارجعوا،( الاحزاب-13 )
اسی پسِ منظر میں وہ دو آیات بھی نازل ھوئی ھیں جن میں کہا گیا ھے کہ ،
یاأيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض ومن يتولهم منكم فإنه منهم إن الله لا يهدي القوم الظالمين ( المائدہ -51 )
ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا الذين اتخذوا دينكم هزوا ولعبا من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم والكفار أولياء واتقوا الله إن كنتم مؤمنين -( المائدہ-57 )
یہ وہ آیتیں ھیں جو آج ھر مذھبی شخص ننگی تلوار بنا کر کوٹ کرتا پھرتا ھے ، جبکہ یہ ایک مخصوص پسِ منظر کے ساتھ منسلک ھے نہ کہ ایک عالمی ضابطہ ھے ،جن تک دین پہنچانا مقصود ھے ان کو دشمن ڈکلیئر کر دینا کسی صورت حکمت نہیں کہلاتا ،، اور یہ خود قرآن میں تضاد ثابت کرنے والی بات ھے کیونکہ قرآن دشمنوں کا کھانا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کر رھا ھے تو مودت اور تعلق کی راھیں پیدا کر رھا ھے ،جن مشرکین مکہ کو دشمن قرار دیا گیا ھے ان کا کھانا اور عورتیں بھی حرام کی گئ ھیں ،، جبکہ یہود و نصاری کے عملی و اعتقادی شرک کے باوجود ان کا کھانا اور عورتیں نکاح کے لئے حلال کی گئ ھیں اور ان بیویوں کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی اجازت بھی دی گئ ھے ،،
عیسائیوں کے عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا اور خدا کہنے کا ذکر خود قرآن میں کیا گیا ھے اور ان کو کافر تک کہا گیا ھے مگر اس کے باوجود ان سے تعلق کی راھیں کھولی گئ ھیں ،ان کے ایماندار لوگوں کی تعرفیں قرآن میں کی گئ ھیں اور ان میں سے عبادت گزاروں کے رات بھر کھڑا رھنے اور اللہ کی آیات کی تلاوت کا ذکر قرآن خود کرتا ھے ،، ان کی داعائیں قرآن پڑھ پڑھ کے سناتا ھے ،مگر ھم اندھے کی لاٹھی بنے ھوئے ھیں ، عملی طور پر دیکھا جائے تو ھر لحاظ سے ھم یہود و نصاری کے مقابلے میں وھی ھیں جو پاکستان کےعیسائی ھمارے لئے ھیں یعنی ” چوھڑے” مگر خناس ھمارا یوں ھے گویا ھم آج بھی دوسری تیسری صدی ھجری میں جی رھے ھیں جب ساری دریافت دنیا ھمارے قبضے میں تھی ،ھماری کتابیں آج بھی اسی زمانے کے رعونت بھرے فتوے دیتی ھیں اور اصحابِ نقل ” فتوی درست ھے ” کی مہر لگاتے اور جاری فرماتے ھیں ،جبکہ حالات تبدیل ھو چکے ھیں اب ھم سُپر پاور سے صِفر پاور بن چکے ھیں ،، یوں ھم مسلمان ” اسپلٹ پرسنلٹی ” بن چکے ھیں اور ھمیں سرابوں کی دنیا میں رکھا گیا ھے ،مسجد مدارس میں ھمیں کچھ اور سکھایا جاتا ھے اور جب ھم باھر نکلتے ھیں تو حالات کچھ اور ھوتے ھیں ،،
اب آئیے احادیث کی طرف ،،،
کچھ یہی معاملہ احادیث کا بھی ھے کہ جن میں انتہائی سختی برتی گئ ھے اور یہود سے مشابہت سے خبردار کیا گیا ھے ، اس سختی کی مثال ایسی ھی ھے جیسے مائیں اپنے بچوں کو دودھ چھڑانے کے لئے اپنے پستانوں کو ” مُصَبِر ” نام کی کڑوی دوا لگا دیتی ھیں بچہ جونہی پستانوں کو منہ لگاتا ھے اس کا منہ کڑواہٹ سے بھر جاتا ھے ،، یا جس طرح شراب کے ساتھ شراب کا برتن پانی پینے کے لئے بھی منع کر دیا گیا کہ کہیں پھر پرانا مرض پلٹ کر نہ آ جائے ،
مثلاً یہود کی مخالفت میں جوتے پہن کر نماز پڑھنا ،مدینے والے نماز پہلے بھی پڑھتے تھے مگر یہود والی پڑھتے تھے ،، اب اسی مدنی صحابی کو نماز پڑھتے دیکھ کر فرق واضح ھونا بہت ضروری تھا کہ یہ اسلام والی نماز ھے ،جس کے لئے کہا گیا کہ یہود جوتا اتار کر نماز پڑھتے ھیں تم جوتا پہن کر نماز پڑھو ،،،
تعجب یہ ھے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے حکم ، پھر اس پر نبئ کریم ﷺ کا عمل کہ آپ نے جوتوں میں نماز جماعت سے پڑھائی ، آج ھمارے متشدد دوست اپنی مساجد میں جوتوں سمیت نماز کا اھتمام کر کے مردہ سنت کو زندہ نہیں کرتے بلکہ قالین اور غالیچوں کے بچھانے کو ترجیح دیتے ھیں ، بلکہ لوگ اب کھیتوں میں نمازِ جنازہ بھی جوتوں سمیت نہیں پڑھنے دیتے حالانکہ صلاۃ الجنازہ اصل میں دعائے جنازہ ھے جو میت کے حق میں باجماعت کی جاتی ھے ،،
یہود ایام کے دوران عورت کو نجاست سمجھتے اسے چٹائی پر سونے کا حکم تھا اور اس کا کھانا پکانا الگ کر دیا جاتا تھا ،، نبئ کریم ﷺ نے عورت کو نماز ،روزے اور زن و شو کے تعلق کے سوا باقی کوئی تبدیلی نہیں فرمائی ، ایک بستر پہ سونا ، اس کے ھاتھ کا پکایا گیا کھانا کھانے سمیت اسے نارمل طور پر روزمرہ کی زندگی گزارنے کی اجازت دی گئ ،، آپ ﷺ نے اپنی زوجہؓ سے فرمایا کہ مجھے چٹائی پکڑاؤ ،، انہوں نے کہا کہ میں حیض سے ھوں ،آپ ﷺ نے فرمایا حیض تیرے ھاتھ کو نہیں ھے ،،
اسی طرح آپ ایک جنازے کو دفن کرنے کے بعد کھڑے تھے کہ پاس سے گزرنے والے یہودی نے کہا کہ ” ھکذا نقف علی امواتنا ” ھم بھی اپنے مُردوں کے لئے اسی طرح کھڑے ھوتے ھیں ،، آپ ﷺ خود بھی بیٹھ گئے اور صحابہؓ کو بھی بیٹھ جانے کا حکم دیا تا کہ یہود سے مشابہت کو ختم کیا جائے ،
اسی زمرے میں داڑھی والی حدیث بھی ھے جس میں موضوع داڑھی نہیں بلکہ مشرکین مکہ اور مجوس کی مشابہت ھے ،، اس حدیث کے مخاطب کلین شیو سرے سے نہیں ھیں کیونکہ زمانہ نبوت میں نہ صرف مسلمانوں میں سے کسی کے کلین شیو ھونے کا کوئی ثبوت نہین بلکہ یہود ،نصاری اور مشرکین مکہ میں سے بھی کسی کے کلین شیو ھونے کا کوئی ثبوت نہیں ،، پھر یہ فرمانا کہ داڑھی کو چھوڑ دو اور مونچھوں کو پست کر دو اور مشرکین اور مجوس کی مخالفت کرو ” کا صیغہ ھی بتا رھا ھے کہ خطاب کلین شیو سے نہیں بلکہ خطاب داڑھی والوں سے ھی کیا جا رھا ھے کہ داڑھی تو رکھو مگر مونچھیں پست کر دو یوں تم میں اور مشرکین اور مجوس کی داڑھی میں فرق واضح ھو جائے گا ، یہ ایسا ھی ھے جیسے ھم بےھنگم داڑھی والے کو کہیں کہ ” بھائی داڑھی تو رکھو مگر سکھوں والی نہ رکھو ایک سکھ اور مسلمان کی داڑھی میں فرق ھونا چاھئے ،، گویا پہلے سے رکھی گئ داڑھی میں فرق کرنے کا حکم دیا جا رھا ھے نہ کہ داڑھی رکھنے کا حکم دیا جا رھا ھے ،
جس چیز کا رواج سارے زمانے میں تھا اور کوئی شخص بھی بےریش نہیں تھا اس میں داڑھی رکھنے کا حکم چہ معنی دارد ؟ داڑھی صحابہؓ کی بھی اسلام سے پہلے کی تھی اور نبئ کریم ﷺ کی بھی اعلانِ نبوت سے پہلے کی تھی ،نہ کہ مسلمان ھونے کے بعد داڑھی رکھی جاتی تھی یا داڑھی رکھنے پر بیعت لی جاتی تھی ،، یہ ایک رواج تھا اور ھے ،، جو اسے نبئ کریم ﷺ کی سنت سمجھ کر رکھتا ھے اسے اس کا اجر ضرور ملے گا چونکہ محبت کی وجہ سے رکھتا ھے ، مگر اس کی بنیاد پر کسی کے ایمان و یقین کو ماپنا ایسا ھی ھے جیسے ڈاکٹر کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ داڑھی دیکھ کر کرے ،، اسی طرح جب اس کا وجود ھی رواج پر مبنی ھے تو سائز پر بحث عبث ھے وہ بھی رواج کے مطابق ھی ھو گا اور اپنے اپنے منہ کے حدود اربعے کے مطابق ھو گا ،، یہ عاداتی سنن میں سے ھے عباداتی سنن میں سے نہیں ھے ،، لہذا کسی بھی عبادت کے واقع ھونے یا نہ ھونے کا دارو مدار داڑھی پر نہیں ھے ، نیز نہ ھی اس کے ھونے یا نہ ھونے سے کسی عبادت کے اجر وثواب میں کوئی کمی بیشی ھوتی ھے ،، یہ ایک مندوب کام ھے جو نبی پاک ﷺ کی محبت میں اسے رکھتا ھے اسے اپنی داڑھی کے سائز ھی نہیں بلکہ اپنے کردار کو بھی ایسا بنانا ھو گا کہ پھر یہ نبئ کریم ﷺ کے لئے بدنامی کا باعث نہ بنے ، اور لوگ اس کا نام لے کر گالی نہ دیں بلکہ تعریف کریں ،،
ان اللحية ليست واجبة وإنما هي مستحبة فحسب، وهذا قول علماء الشافعية. وقد ردوا على القائلين بالوجوب، بأن الأمر هنالك للندب لا للوجوب، لقرينة كونها عادة غير تعبديہ ،،،
داڑھی واجب نہیں ھے بلکہ مستحب ھے اور بس ، یہ شوافع کا قول ھے اور مخالفین کو وہ جواب دیتے ھیں کہ حکم ندب کے درجے کا ھے کیونکہ داڑھی سننِ عبادت میں سے نہیں بلکہ سننِ عادت میں سے ھے ،،یعنی اس کا تعلق رواج کے ساتھ ھے