مرتد اور ارتداد از مولانا وحیدالدین خان
ارتداد کے لفظی معنی ہیں لوٹنا یا پھر جانا ، اور مرتد وه شخص ہے جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لوٹ جائے – عام طور پر یہ لفظ دینی ارتداد کے لیے بولا جاتا ہے – روایتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے اور پھر وه اسلام کو چھوڑ کر دوسرے دین کی طرف چلا جائے تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے – اس معاملہ میں سب سے پہلی بات یہ جاننا چاہئے کہ ارتداد ایک فوجداری جرم نہیں ہے بلکہ وه ایک فکری انحراف ہے ، اور فکری انحراف کرنے والا سب سے پہلے تبلیغ و نصیحت کا موضوع ہوتا ہے نہ کہ سزا کا موضوع – اگر کوئی شخص اعلان کے ساتھ مرتد ہو جائے تو مسلم معاشره کا پہلا فرض یہ ہے کہ وه اس کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کرے – وه دلیل اور نصیحت کے ذریعہ مرتد کو آماده کرے کہ وه دوباره اسلام کی طرف واپس آ جائے۔ اگر قابل لحاظ مدت تک نصیحت پر عمل کرنے کے بعد بھی وه شخص دوباره اسلام قبول نہ کرے تو اس کے بعد بھی افراد معاشره کو یہ حق نہیں کہ وه اس کو ماریں یا بطور خود اس کو کوئی سزا دیں – اس کے بعد انہیں یہ کرنا چاہئے کہ اس شخص کے معاملہ کو اسلامی عدالت کے حوالہ کر دیں – اب یہ عدالت کا کام ہو گا کہ وه ضروری تحقیق کے بعد اس کے جرم کی نوعیت متعین کرے اور پھر اس کے بارے میں شرعی حکم کا فیصلہ دے –
مرتد کی سزا کا مسئلہ موجوده زمانہ میں اسلام کی نسبت سے جو سوالات قائم کیے گئے ہیں ان میں سے ایک سوال وه ہے جس کا تعلق اسلام میں مرتد کی سزا سے ہے – روایتی فقہ کے مطابق، مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص جو باقاعده طور پر مسلم سماج کا ایک ممبر ہو وه اگر اعلان کے ساتھ یہ کہے کہ میں نے اسلام کو اپنے مذہب کی حیثیت سے چھوڑ دیا ہے – میں اب عقیده کے اعتبار سے مسلم نہیں – اس روش کو شریعت میں ارتداد یعنی اسلام سے پھر جانا کہا جاتا ہے ، اور جو شخص اس روش کا ارتکاب کرے اس کے بارے میں اکثر فقہائے اسلام یہ کہتے ہیں کہ اس کو حد شرعی کے طور پر قتل کیا جائے گا (یقتل حدا) فقہ اسلامی کے اس روایتی مسلک کو لے کر موجوده زمانہ میں یہ کہا جانے لگا ہے کہ اسلام ایک جبری مذہب ہے – اسلام میں مذہبی آزادی کا تصور موجود نہیں – ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کا خالص علمی اور تحقیقی اعتبار سے مطالعہ کیا جائے اور کسی صحیح مسلک تک پہنچنے کی کوشش کی جائے – زیر نظر مقالہ کا موضوع یہی ہے – اس مقالہ میں اول فقہ کا جائزه لیا جائے گا اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیا فقہ ، قرآن کی طرح ابدی ہے یا وه قرآن کی ابدی تعلیمات کی زمانی تعبیر ہے اور وه اس شرعی اصول کے ماتحت ہے کہ "تتغیر الاحکام بتغیر الزمان والمکان” یعنی زمان اور مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں –
فقہ کی حیثیت کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اسلام کی دوامی تعبیر ہے اور سنت اسلام کی زمانی تعبیر – یہ بات سنت رسول کے بارے میں تو صحیح نہیں – البتہ فقہ کے باره میں ضرور وه صداقت کا ایک پہلو رکھتی ہے – موجوده مدون فقہ ان معنوں میں کوئی مطلق چیز نہیں جن معنوں میں قرآن یا ثابت شده سنت ایک مطلق چیز ہے – فقہ دراصل ایک مخصوص زمانہ میں اسلام کے عملی انطباق کی حیثیت سے وجود میں آئی – اس لیے اس کے اندر زمانی حالات کی چھاپ بالکل نا گزیر تھی – مثال کے طور پر فقہ کی مشہور کتاب فتاوی قاضی خاں میں ایک جزئیہ بیان ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص قسم کها لے کہ وه ہوا میں اڑے گا تو ایسی قسم پر کفاره واجب نہیں – کیونکہ ہوا میں اڑنا ایک محال امر ہے – اس بنا پر وه ایک مہمل قسم (المائده 89) قرار پاتی ہے جس پر شریعت میں کوئی کفاره نہیں – آج کوئی بھی مفتی ایسی قسم پر اس طرح کا فتوی نہیں دے گا کیونکہ آج حالات بدل چکے ہیں – آج ہوا میں اڑنا محال نہیں رہا – یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ موجوده مدون فقہ ، اپنے قیمتی دوامی اجزاء کے ساتھ اس قسم کے زمانی اجزا بهی اپنے اندر لیے ہوئے ہے –
ایک مثال احکام میں زمانی رعایت کی ایک مثال مولفته القلوب (التوبہ 60) ہے – یہ امر متفق علیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیف قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دئیے گئے – لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کے بعد صدقات کی یہ مد باقی ہے یا نہیں – اکثر فقہاء اس مد کو کسی نہ کسی طور پر باقی مانتے ہیں مگر فقہائے احناف کے نزدیک اب یہ مد ساقط ہو چکی ہے ، اب مولفتہ القلوب کو اس سلسلہ میں کچھ دینا جائز نہیں -حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی – آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا- انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے صحابہ کی تصدیق بھی اس فرمان پر حاصل کر لیں – اس مقصد کے لیے یہ لوگ حضرت عمر فاروق کے پاس گئے – انہوں نے اس فرمان کو پڑھ کر اسے ان کے آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کرتے تھے مگر وه اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا – اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے – اس پر وه لوگ خلیفہ ابوبکر صدیق کے پاس شکایت لے کر آئے اور کہا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر – لیکن نہ تو ابوبکر صدیق نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر کی اس رائے سے اختلاف کیا – اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں تو وه سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء مولفتہ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا ، اس لیے باجماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا ہے – (قاضی محمد ثناءاللہ العثمانی ، التفسیر المظهری ، الرابع ، صفحہ 234-236) حنفیہ کا یہ مسلک واضح طور پر زمانی تاثر کا نتیجہ ہے- حنفی فقہ چونکہ ایسے زمانہ میں مرتب ہوئی جب اسلام غالب حالت پر تھا- اس لئے بظاہر تالیف قلب کی ضرورت پائی نہیں جاتی تھی اس وقتی صورت حال کی بنا پر انھوں نے اپنا مذکوره مسلک بنایا – مگر اب دوباره حالات بدل چکے ہیں – چنانچہ متعدد علماء نے صراحت کی ہے کہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح یہ حکم بھی دائمی ہے اور وه اب بھی مطلوب ہے – ارتداد کے سلسلے میں جو لوگ فقہ سے استدلال کرتے ہیں کہ اس کی سزا قتل ہے ، اس کی نوعیت بھی کچھ اسی قسم کی ہے- موجوده فقہ اس وقت مدون ہوئی جب کہ اسلام ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے بالفعل ایک بااقتدار طاقت بن چکا تھا- اس وقت ارتداد کے معنی ساده طور پر صرف اسلامی عقیده بدلنے کے نہیں تھے بلکہ ارتداد کے بیشتر واقعات سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے ہم معنی بن گئے تھے- اس وقت کے حالات کے اعتبار سے ارتداد عمومًا بغاوت کے ہم معنی ہوا کرتا تھا- یہ تھا وه پس منظر جس میں وه فقہی احکام مرتب ہوئے جو آج ہمیں کتابوں کے اندر لکھے ہوئے ملتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ اس معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے- جن لوگوں نے ارتداد کو وقت کے عملی اور عمومی مسئلہ کی روشنی میں ریاست سے بغاوت کے معنی میں لیا، انہوں نے اس کی سزا قتل قرار دی کیونکہ ریاست سے بغاوت کی سزا بلاشبہ یہی ہے- اور جن لوگوں نے ارتداد کو مجرد تبدیلی مذہب کے عقیده کے معنی میں لیا، انہوں نے طلبِ توبہ کے سوا کسی اور کارروائی کی ضرورت نہیں سمجھی-