مسلمانی کی حقیقت از قاری حنیف ڈار
اسلم یسلم تسلیماً فھو مسلمۤ ،،،
مسلم اسم صفت ھے اور مسلم وھی ھے جس میں یہ صفت کل وقتی پائی جائے ،،
اللہ پاک نے اس کی حقیقت حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعے میں بیان فرمائی ھے ،،
فلما اسلما و تلہ للجبین و نادینہ ان یاابرہیم قد صدقت الرؤیا انا کذلک نجزی المحسنین۔ (الصافات :103۔105)
پھر جب دونوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو جبین کے بل ڈال لیا تو ھم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم تو نے خواب کو پورا کر دیا ،، ھم احسان کرنے والوں کو یوں ھی جزاء دیا کرتے ھیں ،،
یعنی جب بیٹا ذبح ھونے اور باپ ذبح کرنے پہ تیار ھو گئے اور اپنی اس تسلیم و رضا کو عملی شکل بھی دے دی تو لفظ مسلم کی حقیقت عیاں ھو گئ کہ اسلام صرف ایک دفعہ عمل کر کے ڈگری لے لینے کا نام نہیں بلکہ ھر پل اور پل پل ملنے والے احکامات پر مسلسل عمل اور تسلیم و رضا کا رویہ اپنانے کا نام ھے ،، اسلام ایکٹیوٹی کا نام ھے ،، صرف فن کا نام نہیں ،، فن یا آرٹ میں آپ ایک دفعہ ایک عمل کر کے اس کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیتے ھیں پھر ساری زندگی اس پر عمل نہ کریں تب بھی آپ کے اسٹیٹس پر کوئی فرق نہیں پڑتا ،،،،،،،،،،،،،
مثلاً آپ ایک دفعہ ایم بی بی ایس کی ڈگری لے لیں تو آپ ڈاکٹر ھیں اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کا ھمیشہ کا استحقاق رکھتے ھیں ، اسی طرح ایک وکیل ایل ایل بی کے بعد وکالت کی سند لینے کے بعد پریکٹس نہ کرے تب بھی وکیل کہلانے اور اپنے نام کے ساتھ لکھنے کا حقدار ھوتا ھے کیونکہ یہ صرف آرٹ ھے ،،مگر اسلام ایک عمل ھے اور عمل بھی مسلسل جس طرح بجلی تب تک بجلی کہلاتی ھے جب تاروں میں دوڑتی اور آپ کی بتیاں جلاتی اور اے سی چلاتی ھے ،جس لمحے چلی جاتی ھے اسی لمحے بجلی ،” بجلی ھے ” کہلانے کا استحقاق کھو دیتی ھے ۔۔ اسی طرح جب تک ھم تسلیم و رضا کی کیفیت میں ھیں تب تک ھی مسلم ھیں جس لمحے وہ کیفیت ختم ھوئی تو استسلام جنگ میں تبدیل ھو گیا ،، اور ھم مومن سے حارب ھو گئے معاہدہ امن ختم ،،
اسلام یعنی عمل میں کوئی چھٹی نہیں نہ سالانہ اور نہ ھفتہ وار اور نہ ھی ریٹائرڈمنٹ ھے ،، فن سے ریٹائرڈمنٹ ھے ،، مگر اسلام میں آخری سانس بھی فیصلہ کن ثابت ھو سکتی ھے ،، ” جب تک غرغرے کی کیفیت نہ پہنچ جائے انسان کی کامیابی یا ناکامی کا تختہ الٹ سکتا ھے ” ما لم یغرغر”
چوں بگویم مسلمانم بلرزم ،،
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را ،،