مسلم معاشرے میں سود کا متبادل از قاری حنیف ڈار
سود کا متبادل !
جب آپ کے پاس متبادل نہیں ہے تو آپ کسی پر گرفت بھی نہیں کر سکتے، اس لئے کہ وہاں اضطرار شروع ھو جاتا ھے ،، سود بالکل آخر میں حرام اسی لئے ھوا کہ اس وقت تک کوئی متبادل نہیں تھا ، جب ایمان والوں کے پاس انفاق کے لئے کچھ ھوا ، ریاست کے ذرائع آمدن شروع ھوئے تو اب سود سے بچنے کی بات کی گئی ،، قرآن نے سود سے جب منع کیا ھے تواس سے پہلے بھی انفاق کا ذکر کیا ہے[ بیشک وہ لوگ جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں دن اور رات،چھپ کر اور ظاھر، ان کے لئے ان کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ اور ان کو کوئی خوف لاحق ھو گا نہ ہی غم ـ اور جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن کچھ یوں کھڑے ھونگے جیسے شیطان نے ان کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہے ، پھر پورا رکوع خرچ کیا ھے اس تلقین پر کہ اگر مومن ھو تو سود سے باز آ جاؤ اور جو کسی کے ذمےباقی رھتا سود ھے وہ چھوڑ دو اگر تم باز نہ آئے تو اعلانِ جنگ ھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے ،یہاں اعلانِ جنگ سے مراد اور اور رسول ﷺ کے ساتھ محاربے یعنی جنگ کی وہ سزائیں نافذ کرنے کی دھمکی ھے جو سورہ المائدہ کی آیت ۳۳ میں دی گئ ہے [ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ـ بے شک سزا ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرتے ہیں اور ملک میں فساد بپا کرتے ہیں یہ ھے کہ ان کو عبرتناک طریقے سے قتل کیا جائے( اسی دفعہ کے تحت ریپ کے مجرم کو سنگسار کیا نبئ کریم نے ) یا سُولی دی جائے یا ان کے آمنے سامنے کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا علاقہ بدر کر دیا جائے ( گویا ان کی پراپرٹی بحق سرکار ضبط کر کے اس کو اس علاقے سے بے دخل کر دیا جائے ،یہ دنیا میں ان کی رسوائی کا سامان ھے اور آخرت میں ان کے لئے ایک بڑا عذاب ہے (33) اگر توبہ کرو تو پھر صرف اپنا اصل زر وصول کرو اور اگر مقروض فقیر ھے تو اس کو مہلت دو اور اگر اصل رقم بھی اس کو معاف کر دو تو یہ تمہارے لئے بہتر اگر تم سمجھو ،ڈرو اس دن سے کہ جس دن پلٹ کر اللہ کے سامنے آؤ گے ،پھر ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ پورا پورا ادا کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھ کوئی بےانصافی نہیں کی جائے گی،،
ظاھر ھے کہ یہ بات سود کا کاروبار کرنے والے مسلمان سے تو کہی جا سکتی ھے غیر مسلم سے تو نہیں کہی جا سکتی ! جبکہ آج کل دنیا غیر مسلموں کے سود میں جھکڑی ھوئی ہے ، وہ کہیں گے کہ جناب آپ جانیں اور آپ کا دین اور شریعت جانے ،ہمیں تو ہمارا پیسہ چاہیئے ورنہ ہم پابندیاں لگانے لگے ہیں ، اب جو اس سے اگلے پورے رکوع میں اس کا حل پیش کیا ھے یہ بھی مسلمانوں کے لئے ہی ہے ،مگر اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ غیر ھو یا اپنا قریبی جس کو قرض دو وہ ھڑپ کر جاتا ھے اور مانگنے پر دشمن ھو جاتا ہے ، عدالتوں سے حق لینے کے لئے دگنا چگنا خرچ کرنا پڑتا ھے لہذا شریف آدمی خون کے گھونٹ پی کر چپ کر جاتا ھے اور ہر ایک کو نصیحت کرتا پھرتا ھے کہ خدا را کسی کو قرض نہ دینا ـ گویا خود مسلمانوں کی اخلاقی حالت نے ان کو سود جیسے عفریت کے جبڑوں میں دے دیا ،، اللہ پاک نے ہر برادری میں امیر اور غریب رکھے ہیں ، اس برادری کے امیر اپنے غریب رشتے داروں کی مالی ضرورت کو بطور قرض پورا کر سکتے تھے اگر یہ رشتےدار اپنے وعدے پر پیسے واپس کر دیں تا کہ دوسرے ضرورتمند کے کام آئیں ،مگر ھر رشتے دار لیا ھوا ادھار واپس کرنا حرام سمجھتا ھے نتیجہ یہ ھے کہ وہ دولت جس کو برادری میں خون کی طرح سرکولیٹ ھونا چاہئے تھا Clots میں تبدیل ھو جاتی ھے اور سوشل کارڈیک اریسٹ کا کیس بن جاتا ھے ـ برادری سے آگے بڑھیں تو ھر بستی میں کسی نہ کسی کے پاس اتنی دولت کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتی ھے کہ وہ اس بستی کے مسائل حل کر سکتا ھے مگر وھاں امیر دولت کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ھے ، سورہ البقرہ میں سود کی ممانعت کی تو انفاق کا رستہ سجایا اور اس کے فضائل کے بعد اس کا طریقہ کار سمجھایا ۔
[ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (275) يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (276) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (277) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (278) فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (280) وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (281)
قرض دینے کا طریقہ کار ـ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (282)وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (283) البقرہ
سورہ آل عمران میں سود سے منع فرمایا تو اس کے فورا بعد انفاق کی ترغیب دی گویا متبادل پھر انفاق فی سبیل اللہ ـ
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (130) وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (131) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (132)وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135) أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ (136) آل عمران
علماء مدارس اور مساجد کے لئے انفاق کی ترغیب دیتے ہیں تو عوام خزانوں کا منہ کھول دیتے ہیں اور قلعہ نما جامعات منظر عام پر آ جاتی ہیں جو بنانے والوں کی نسل در نسل ذاتی پراپرٹی ہوتی ہیں ،، اگر یہی علماء عوام کو ان کے رشتے داروں کے مسائل حل کرنے کی ترغیب دیں تو کیا عوام عمل نہ کرتے ؟ کیا قربانی دینے والوں کی کھال کے حقدار ان کے غریب رشتے دار نہیں ؟ کیا ان کی زکوۃ المال اور صدقہ فطر کے حقدار ان کے غریب رشتے دار نہیں ؟ ان بزرگوں نے سارے خزانوں کے رخ اپنی درسی جاگیروں کی طرف موڑ دیئے ہیں اور عوام پر سود کھانے کے فتوے لگاتے ہیں ـ یعنی ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری ـ سیاستدان بھی پیسہ ملک سے باھر لے گئے جبکہ علماء نے زکوۃ و صدقات وفطرانے اور قربانیوں کا رخ اپنے مدارس اور مساجد کی طرف کر لیا اور مارا گیا معاشرے کا غریب ، حالانکہ قرآن کی رو سے زکوہ و صدقات کے اولیں حقدار مدارس و جامعات نہیں بلکہ فقراء اور مساکین ہیں ،، مدارس کا نمبر ساتواں ہے ـ اور ساتویں میں بھی بمشکل ان کو تلاش کیا جا سکتا ھے ،[فی سبیل اللہ ]کی مد بہت وسیع ہے ، جہاد و قتال بھی اسی میں شامل ھے ، سڑکیں بنانا ،تالاب اور کنوئیں بنانا ، اسپتال میں کوئی کمرہ بنوا دینا ،اولڈ ہاوسز بنا دینا جیسا کہ ایدھی نے بنا رکھے تھے سب اسی میں شامل ہے ، ایدھی سے بیر اور کینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے مدارس کا ’’ حق ‘‘ مارا ھوا تھا ـ
[ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (60) التوبہ
اس کے علاوہ سی بی آر والوں کی طرح کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے نیٹ میں پھنسیں ، نبئ کریم ﷺ کے فرمان اور عمل کے مطابق ایک گھر کے لئے ایک ہی قربانی کافی ھے چاہے اس بندے کے دس بچے اور چار بیویاں ہوں ، قربانی فی گھر ھے فی بندہ نہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنی اور اپنی ازواج کی طرف سے کہ جن کی تعداد ۹ تھی ایک ہی قربانی دیتے تھے اور ایک قربانی قیامت تک اپنی پوری امت کے فقراء کی طرف سے دیتے تھے ، مگر یہ کہتے ہیں کہ میاں الگ سے قربانی دے اور اگر بیوی کا زیور ساڑھے سات تولے سونے سے زیادہ ھے تو وہ الگ سے دے اور اگر بچے کماتے ہیں تو وہ الگ سے دیں جبکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قربانی زکوۃ نہیں ہے کہ تم اس کے لئے نصاب کا پیمانہ لے کر چڑھ دوڑے ھو قربانی تو محبت کا اظہار اور نفلی عبادت ہے ، اس کا نصاب کے ساتھ کیا تعلق ؟ یہ تو دینا چاہے تو ادھار لے کر بھی دے سکتا ھے جس دیگر محبوب ہستیوں کے لئے ادھار لے کر خرچ کر لیتا ہے ، یہ صرف اور صرف کھال و مال کی خاطر زیادہ سے زیادہ قربانیاں دلواتے ہیں ،اگر فی گھر ایک قربانی ھو اور باقی پیسوں سے انہی لوگوں کے غریب رشتے داروں کی کفالت ھو ، بچوں کی فیس ادا ھو ، مریضوں کو علاج کے پیسے ملیں تو معاشرہ اس دلدل سے نکلے جہاں ھر روز لوگ بھوک سے خودکشی کر رھے ہیں اور سود پر پیسہ لینے پر مجبور ھو رھے ہیں۔