نحوست از میاں اشفاق
عرب معاشرے کی لوک، دانش اور نظریات دیگر دنیا سے خاصے مختلف ہیں اور یہ فرق زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ سعودی گزٹ میں شائع ہونے والی ایک تحریر میں مشال السدیری بھی ایک ایسے ہی پہلو سے پردہ اٹھاتے ہیں جو شاید دنیا کے لئے قدرے حیران کن اور دلچسپ بھی ہوسکتا ہے۔ سدیری لکھتے ہیں کہ ان کے ایک دوست نے انہیں ایک کہانی سنائی۔ دوست نے بتایا کہ ان کے ایک دوست کا کزن عدالت میں پیش ہوا اور جج سے درخواست کی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے اور استدعا کرتا ہے کہ اسے اس کی اجازت دی جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی میں جسمانی یااخلاقی لحاظ سے کوئی خامی نہیں ہے بلکہ وہ اس وجہ سے طلاق دینا چاہتا ہے کہ اس کی بیوی پہلے دن سے ہی نحوست کا باعث ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے بتایا، میں نے جب اسے پہلی دفعہ دیکھا تو وہ میرے ہمسایوں کے ہاں ایک مہمان کے طورپر آئی ہوئی تھی۔ میں نے گاڑی پچھلے دروازے کے قریب کھڑی کی اور اس کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگا کہ اسی دوران مجھے ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ کوڑے والا ٹرک میری گاڑی کے ساتھ ٹکرا چکا تھا اور میری گاڑی کا ستیاناس ہوچکا تھا۔ جس دن میری فیملی رشتہ لے کر میری ہونے والی بیوی کے گھر جارہی تھی تو راستے میں ایک حادثے میں میری ماں چل بسیں اور ہمیں راستہ تبدیل کرکے قبرستان جانا پڑا۔ جب افسوس کے دن ختم ہوئے تو میں نے شادی کرلی لیکن پتہ چلا کہ میں نے صرف مزید غموں کی راہ ہموار کی تھی۔ میں جب بھی اسے شاپنگ کے لئے لے کر جاتا تو جگہ جگہ میرا چالان کیا جاتا۔ میری شادی کے دن ہمسایوں کے گھر میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی جو ہمارے گھر تک بھی آگئی اور باورچی خانہ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اگلے دن میرے والد ہم سے ملنے آئے لیکن بیچارے سیڑھیوں سے گرے اور ٹانگ تڑوا بیٹھے۔ میرابھائی اور بھابھی جب بھی ہم سے ملنے آتے تو ہمارے گھر آنے کے بعد آپس میں لڑ پڑتے اور خوش ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو کوستے ہوئے رخصت ہوتے۔ میرے رشتہ دار مجھے اکثر کہتے تھے کہ میری بیوی منحوس ہے لیکن میں نے کبھی ان کی باتپر کان نہ دھرا۔ گزشتہ ہفتے میری آمدنی کا واحد ذریعہ میری ملازمت بھی ختم ہوگئی۔ بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری المناک زندگی کا سبب میری بیوی ہے اور میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں، براہ کرم مجھے اس کی اجازت دی جائے۔
دانا جج نے شفقت بھری نظروں سے سائل کی طرف دیکھا اور یوں گویا ہوا، ہمارے ساتھ پیش آنے والا ہر واقعہ، بظاہر برا یا بھلا، قدرت کا فیصلہ ہے۔ ہمارے ساتھ پیش آنے والے المیے کسی انسان کی نحوست کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ تمہاری بیوی معصوم اور بے قصور ہے اور تمہارے ساتھ پیش آنے والے حادثات میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یہ محض اتفاقات تھے۔ اپنی بیوی کا ہاتھ تھامو اور واپس چلے جاﺅ اور آئندہ کسی بھی بدقسمتی کے لئے اسے ذمہ دار مت ٹھہرانا۔
جب دل شکستہ شخص بیوی کا ہاتھ تھام کرعدالت سے رخصت ہورہا تھا تو ایک ہرکارہ دوڑتا ہوا آیا اور جج کی خدمت میں ایک سرکاری خط پیش کیا۔ خط میں ایک مختصر نوٹ لکھا تھا، آپ کو جج کے عہدے سے فوری برطرف کیا جاتا ہے۔ جج نے عدالت سے رخصت ہوتے ہوئے شخص کو پکار کر واپس بلایا، چند لمحے اس کا چہرہ تکتا رہا، اور پھر بولا، اس عورت کو اسی وقت طلاق دے دو۔