نص کی تعبیر از عمار خان ناصر
نص کی تعبیر میں جو چیزیں مفسر یا فقیہ کے فہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز وہ عملی صورت حال ہوتی ہے جس میں کھڑے ہو کر مفسر یا فقیہ نص پر غور کرتا اور مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حالات کے بدل جانے سے انھی نصوص کی تعبیر کے کچھ ایسے امکانات سامنے آتے ہیں جو سابق مفسرین کے پیش نظر نہیں تھے۔ مستقبل کی پیشین گوئیوں سے متعلق احادیث کی تفسیر میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے. حضرت معاویہ، قریش کی خلافت سے متعلق احادیث کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا، اس لیے کہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ان کے ذہن میں مستقبل کی جو تصویر تھی، وہ انھیں اسی تعبیر کی صحت پر مطمئن کرتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ایسی روایات سن کر سخت ناراضی کا اظہار کیا جن میں قریش کے اقتدار کے خاتمے کی بات بیان کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری)چھٹی صدی ہجری سے پہلے کے فقہاء ومتکلمین عموماً ’’الائمۃ من قریش’’ کی روایت کو ایک شرعی فقہی حکم کا بیان قرار دیتے تھے اور اسے صرف فقہ نہیں، بلکہ علم کلام کے ایک امتیازی مسئلے کی حیثیت دی جاتی تھی اور خوارج کے ’’انحرافات’’ میں ایک بات یہ بھی شمار کی جاتی تھی کہ وہ خلافت کو قریش تک محدود نہیں مانتے تھے۔ جب عملاً قریش کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تو شارحین کی توجہ ان احادیث کی تعبیر کے دوسرے امکانات کی طرف بھی مبذول ہوئی اور رفتہ رفتہ انھیں پیشین گوئی پر محمول کرنے اور بعض شرائط کے ساتھ مشروط سمجھنے کا رجحان عام ہوتا چلا گیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری سے پہلے سبھی شارحین سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد غلبہ اسلام کی پیشین گوئی کو پوری دنیا سے متعلق قرار دیتے ہیں، لیکن شاہ صاحب نے اس سے شدید اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایک خاص علاقے میں ہوگی اور اسلام کا غلبہ بھی اسی محدود خطے میں قائم ہوگا، نہ کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ (فیض الباری) فہم کے اس اختلاف کی وجہ بھی بدیہی طور پر دنیا کے حالات میں تبدیلی کا وہ پہلو ہے جو قدیم شارحین کے سامنے نہیں تھا۔ نزول مسیح کی روایات میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، دنیا میں عملاً رونما ہونے والے حالات کے تناظر میں، ان میں سے کئی بنیادی باتوں پر نئے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور سابق شارحین جس طرح ان تفصیلات کی تعبیر کرتے ہیں، وہ محل نظر قرار پاتی ہیں۔ روایات میں مستقبل کے واقعات کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، تاریخ کا سفر عملاً اس کے مطابق طے ہوتا نظر نہیں آتا[ مثلاً فتحِ قسطنطنیہ کے موقعے پر دجال کا خروج اور حضرت عیسی کا نزول ، مجلس میں موجود بچے کے بوڑھا ھونے سے پہلے عیسی علیہ السلام کا نزول ، سو سال پورا ھونے سے پہلے ان کا نزول ، حضرت ابوھریرہؓ کی وفات سے پہلے ان کا نزول وغیرہ قاری حنیف عفی اللہ عنہ] ، ماضی میں بھی اور بظاہر مستقبل میں بھی۔ متعلقہ روایات کے تواتر اور صحت وغیرہ پر جو بحث ہو رہی ہے، وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے، لیکن یہ پہلو بھی اہل علم کی توجہ کا طالب ہے۔ واللہ اعلم