نماز کس طرح پڑھیں ؟ از ایم ایف علوی، برمنگھم
نماز کس طرح پڑھیں ؟
ایم ایف علوی، برمنگھم
کس قدر حیرتناک اور افسوس ناک ہے یہ بات کہ نماز جسے رسول خدا نے مدینہ میں دس سال تک دن میں پانچ مرتبہ پڑھایا اس میں بھی اتفاق نہیں حالانکہ نماز کوئی ایسا فعل نہیں جو چھپ کر کیا گیا ہو یا زندگی میں ایک آدھ مرتبہ چند افراد کے سامنے کیا گیا ہو، بلکہ روزانہ پانچ مرتبہ کیا جانے والا ایک ایسا عمل تھا جسے اللہ کے نبی نے اُس وقت موجود پوری اُمت کے سامنے مسجد میں روزانہ پانچ مرتبہ مسلسل دس سالوں تک کیا لیکن اس کے باوجود اس میں سنی و شیعہ کے درمیان بھی اختلاف ہے اور خود اہل سنت کے درمیان بھی زبردست اختلا ف موجود ہے بلکہ بعض اختلاف تو ایسا ہے کہ نماز ہی نہیں ہوتی مثلاً فاتحہ خلف الامام اور جرابوں پر مسح کرنے کا مسئلہ ۔
ان اختلافات میں سے ایک اہم اختلاف نماز میں ہاتھ باندھنا ہے ۔
آج ہمارے ہاں اہلسنت والجماعت میں کم و بیش پانچ مختلف طریقوں سے نماز پڑھی جارہی ہے،
(۱) حنفی کہتے ہیں مرد دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر ناف کے نیچے رکھیں اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے۔( الفقہ علی مذاھب الاربعہ )۔
(۲) امام مالک فرماتے ہیں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھیں، ان کے نزدیک فرض میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے اور نفلوں میں جائز ہے۔ شرح مسلم جلد ۱، مولانا غلام رسول سعیدی )
(۳) شافعیوں کے نزدیک سنت یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں کی پُشت پر ناف سے اوپر اور سینے سے نیچے رکھیں۔(الفقہ علی مذاھب الاربعہ)۔ ظاہر ہے ناف سے اوپر اور سینے سے نیچے تو پیٹ ہی ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ شوافع کے نزدیک پیٹ پر ہاتھ باندھنا سنت ہے ۔
(٤) حنبلی حضرات فرماتے ہیں مردوعورت دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پُشت پر ناف کے نیچے رکھیں۔ ( الفقہ علی مذاھب الاربعہ ) ۔
(۵) اہلحدیث فرماتے ہیں ہاتھ باندھنے کی باقی سب روایات ضعیف ہیں صرف سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایات صحیح ہیں اس لیے مرد و عورت دونوں ہی سینہ پر ہاتھ باندھیں – (صلاة الرسول مولانا محمد صادق سیالکوٹی )-
حضرت عمر(رض) کی نماز:
(۱) حضرت عمر اپنے دونوں ہاتھ شانوں تک اٹھاتے پھر نیچے کرلیتے ۔ ( موسوعہ فقہ حضرت عمر )۔
(۲) کپڑے میں اس طرح لپیٹ کر نماز پڑھنا کہ ہاتھ باہر نہ نکل سکیں مکروہ ہے۔ حضرت عمر نے اس طرح ایک شخص کو لپیٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو، تم میں سے اگر کسی کے پاس ایک ہی چادر ہوتو اسے ازار کی طرح باندھے لیکن اگر چادر لپیٹ کر اپنا ایک ہاتھ باہر نکال لے تو پھر مکروہ نہیں ، حضرت عمر نے فرمایا ہے کہ اگر ایک ہاتھ باہر نکال لے تو چادر لپیٹ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ ( موسوعہ فقہ حضرت عمر ) –
ان میں سے پہلی روایت کے مطابق حضرت عمر نماز شروع کرتے وقت شانوں تک ہاتھ اٹھاتے اور پھر نہ سینے پر نہ ناف کے نیچے باندھتے بلکہ نیچے کر لیتے ، اور دوسری روایت جو کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں یا ناف کے نیچے چادر میں سے ایک ہاتھ باہر نکالنا ممکن نہیں ، یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہاتھ چھوڑے ہوئے ہوں۔ امام مالک بن انس جو مدینہ میں پیدا ہوئے ، ہوش سنبھالا تو مدینہ کے لوگوں کو جو تابعین تھے ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور اسی لیے ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کا طریقہ اختیار کیا، حضرت عمر نے بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی ہوتی تو اہل مدینہ کی عادت ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کی ہوتی کیونکہ حضرت عمر نے مسلسل دس سال تک نماز پڑھائی ہے اور ان کے بعد حضرت عثمان تو خلیفہ بنے ہی اس شرط پر تھے کہ وہ نبی علیہ السلام اور شیخین کے طریق کی پیروی کریں گے وہ بارہ سال تک خلیفہ رہے اگر ان بارہ سالوں میں انہوں نے بھی ہاتھ باندھے ہوتے تو یہ مسلسل دس اور بارہ بائیس سالوں کا عمل بنتا ہے، بائیس سال کے مسلسل عمل سے اہل مدینہ کی عادت ہاتھ باندھنے کی بن گئی ہوتی نہ کہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھنے کی کہ جسے امام مالک نے ہوش سنبھالتے ہی ملاحظہ کیا اور پھر اسی کے مطابق اپنے فقہی مذہب میں فتوی دیا، حضرت عثمان کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے لیکن وہ خلافت کے بعد مدینہ میں نہیں رہے ، مدینہ میں پہلے تین خلفاء نے اپنی پوری عمر گذاری اور لوگوں نے ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور یہی مسلسل عمل امام مالک تک پہنچا جسے انہوں نے اپنا مسلک قرار دیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے ۔
امام حسن بصری :
حضرت عمر کے دور میں مدینہ میں پیدا ہوئے، حضرت عمر نے ان کی تحنیک کی، سید التابعین بھی انہیں کہا جاتا ہے ، ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے جو فقہی انسائکلوپیڈیا مرتب کیا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ : نمازی قیام کے اندر اپنے دونوں ہاتھ چھوڑے رکھے گا اور اپنے سینے پر نہیں باندھے گا امام حسن بصری اسی طرح کیا کرتے تھے۔ ( موسوعہ فقہ امام حسن بصری) – ڈاکٹر قلعہ جی نے مصنف ابن ابی شیبہ، المغنی اور المجموع کے حوالے دیے ہیں ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ :
مقالات و فتاوی شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز میں لکھا ہے کہ ایک آدمی نے شیخ کو لکھا کہ مجھے ؛ حائل ؛ کے علاقہ میں نماز تراویح پڑھنے کا اتفاق ہوا امام صاحب قران مجید ہاتھ میں پکڑ کر دیکھ کر پڑھ رہے تھے، رکوع جاتے وقت وہ قران رکھ دیتے اور دوسری رکعت میں پھر قران پکڑ لیتے، یہاں تک وہ ساری نماز تراویح اسی طرح دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔
اس کے جواب میں مفتی اعظم سعودیہ شیخ عبد العزیز ابن باز نے لکھا :
؛ قیام رمضان میں قران مجید دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس طرح مقتدیوں کو سارا قران مجید سنایا جا سکے گا – کتاب و سنت کے شرعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ نماز میں قرآن کی تلاوت کی جائے اور یہ حکم عام ہے اور دونوں صورتوں یعنی دیکھ کر پڑھنے اور زبانی پڑھنےکو شامل ہے اور ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے غلام ذکوان کو حکم دیا تھا کہ وہ قیام رمضان میں ان کی امامت کرائے اور ذکوان نماز میں قران مجید کو دیکھ کر پڑھا کرتے تھے ، امام بخاری نے اس حدیث کو صحیح میں تعلیقا مگر صحت کے وثوق کےساتھ ذکر فرمایا ہے؛
اسی طرح سعودی عرب کے علماء کی فتوی کمیٹی نے بھی اپنے جواب میں لکھا ہے :
؛ امام ابی داؤد نے ؛ کتاب المصاحف ؛ میں ایوب عن ابی ملیکہ کی سند سے یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے ۔ ( فتاوی اسلامیہ جلد ۱)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ام المومنین کا غلام ہاتھ میں قران پکڑ کر نماز پڑھاتا تھا ، پھر ورقوں کو الٹنے پلٹنے کے لیے ظاہر ہے دوسرا ہاتھ لگانا پڑھتا تھا ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہاتھ میں قران بھی پکڑا ہوا ہو، دوسرے ہاتھ سے ورق بھی الٹے جارہے ہوں اور ہاتھ باندھے ہوئے بھی ہوں ، اس سے معلوم ہوا کہ ام المؤمنین عائشہ کے دور تک میں بھی نماز ہاتھ چھوڑ کر پڑھی جاتی تھی ۔
حضرات ایک طرف تو یہ صورت حال ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نماز میں حالت قیام میں ہاتھ چھوڑنا سنت ہے، دوسری طرف وہ روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ ہاتھ سینے پر، پیٹ پر یا زیر ناف باندھے جائیں، حالانکہ دور صحابہ میں یہ روایات جمع نہیں ہوئی تھیں اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ دور صحابہ میں ارسال یعنی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے پر عمل تھا ۔ تاہم ضروری ہے کہ ہاتھ باندھنے کا بھی جائزہ لیا جائے تا کہ تصویر کے دونوں رُخ سامنے رہیں :
امام ابن حزم اندلسی:
؛ نمازی کے لیے حالت قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھنا مستحب ہے ۔ ( المحلی جلد۳ ترجمہ غلام احمد حریری طبع لاہور)-
سب جانتے ہیں مستحب وہ امر ہے کہ اگر کرلیا جائے تو ثواب مل جاتا ہے ، نہ کیا جائے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہوتا، جب حقیقت یہی ہے تو پھر ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور لڑائی جھگڑے کا کیا مطلب ؟ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں:
؛ حضرت عمر رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کو
مُستحب سمجھتے تھے، کبھی کرتے تھے اور کبھی چھوڑ
دیتے تھے ۔ ( ازالة الخفاء ) –
حضرات جب اصل حقیقت یہ ہے تو پھر ان مسائل پر مناظرہ اور فتوی بازی کیوں ؟ علماء کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ اصل حقائق عوام تک پہنچائیں نہ کہ اپنے مسلک کی پیروی میں انہیں چھپائیں، لوگوں کو بتایا جائے کہ رفع یدین کرنے اور چھوڑنے میں ، اسی طرح ہاتھ چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔
ایک حنفی عالم شیخ محمد الیاس فیصل نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ؛ نماز پیغمبر ؛ اس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنے یا زیر ناف باندھنے پر کوئی نص موجود نہیں ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ سینہ یا زیر ناف ہاتھ باندھنے کی کوئی یقینی اور قطعی بات موجود نہیں ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
؛ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں یا سینے پر ؟ اس پر
قطعی اور یقینی نص موجود نہیں – البتہ دونوں طرف
ایسی روایات موجود ہیں جن پر علمائے سند نے کلام کیا
ہے ۔ تا ہم ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایات نسبتا
زیادہ واضح اور ثابت ہیں ۔ ( نماز پیغمبر ص ۱۲۰)-
اس کتاب کو بقول ان کے بیت اللہ شریف کے زیر سایہ شروع کیا گیا پھر کچھ حصہ مسجد نبوی ریاض الجنہ میں لکھا گیا اور پھر اس کی تکمیل بیت اللہ شریف کے زیر سایہ کی گئی۔
اس کتاب پر مشہور علماء اہل سنت حضرت مولانا اسعد مدنی مرحوم ،حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی مرحوم شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور، حضرت مولانا محمد عبداللہ مرحوم خطیب مرکزی جامع مسجد اسلام آباد، مولانا ڈاکٹر سید شیر علی پی ایچ ڈی مدینہ یو نیورسٹی و مدرس بنوری ٹاؤن کراچی کی تقاریظ اور تائیدی کلمات موجود ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب بزرگ اس بات کو تسلیم فرما رہے ہیں کہ سینہ پر یا زیرناف ہاتھ باندھنے کی کوئی قطعی اور یقینی نص موجود نہیں ہے ، جبکہ دوسری طرف یہ یقینی بات موجود ہے کہ امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے لوگوں کو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے دیکھا ، ظاہر ہے یہ مدینہ والے سب تابعین تھے جنہوں نے صحابہ کو اسی طرح ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے دیکھا اور صحابہ نے پیغمبر کو دیکھا ۔ رہا شیخ محمد الیاس فیصل کا یہ کہنا کہ ؛ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایات نسبتا زیادہ واضح اور ثابت ہیں ؛ تو اس کے جواب میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اہلحدیث بھی یہی بات فرماتے ہیں کہ زیر ناف والی روایات کمزور ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھنے والی روایات زیادہ صحیح اور ثابت ہیں –
اتنی بات تو یقینی طور پر ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ نبی علیہ السلام نماز پڑھتے ہوئے ایسا تو نہیں کرتے ہوں گے کہ فجر کی نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھ لیے، ظہر میں پیٹ پر باندھ لیے، عصر میں ناف سے نیچے باندھ لیے، مغرب میں خود زیرناف باندھے اور عورتوں کو کہہ دیا تم سینے پر باندھ لو اور پھر عشاء میں ارسال کر لیا یعنی ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز پڑھ لی، یہ مضحکہ خیز طریقہ تو یقیناً پیغمبر نے اختیار نہیں کیا ہوگا، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھی اور صحابہ کو سکھائی ، بخاری کی روایت کے مطابق پیغمبر نے حکم دیا :
؛ صلوا كما رايتموني اصلي ؛ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو –
مقام فکر یہ ہے کہ شروع میں ہم نے جو پانچ طریقے ذکر کیے ہیں نبی علیہ السلام ان میں سے کس طریقہ پر نماز پڑھتے ہوں گے، کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ پیغمبر نے حکم دیا نماز اس طرح پڑھو جیسے میں پڑھتا ہوں لیکن ہمارے علماء نے اس میں اتنا اختلاف ڈال دیا، یا روایات کی وجہ سے اتنا اختلاف ڈال دیا گیا کہ آج ہم یہ معلوم ہی نہیں کر پا رہے کہ رسول اکرم کا اصل طریق نماز کیا تھا، پھر بالائی حیرت یہ کہ اہلسنت کے ان پانچوں گروہوں میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہے کہ صلوا کما رآیتمونی آصلی کے مطابق ہمارا ہی طریقہ ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے علماء و فقہاء جب کوئی حتمی اور متفقہ رائے قائم نہ کر سکے تو بعض علماء نے ایک عجیب و غریب بیان داغ دیا، چنانچہ امام نووی شرح مسلم میں کہتے ہیں :
؛ امام احمد اور اوزاعی اور ابن منذر کا بیان ہے کہ نمازی
کو اختیار ہے جیسے جی چاہے کرے ۔ امام مالک کا بیان
ہے نمازی کو اختیار ہے چاہے تو سینے پر ہاتھ باندھے اور
چاہے نہ باندھے ، اور یہی قول مالکیہ حضرات کے نزدیک
رواج یافتہ ہے نیز انہوں نے کہا کہ نفل میں باندھے اور
فرض نمازوں میں چھوڑدے اور لیث بن سعد کا بھی یہی
قول ہے – ( شرح مسلم مع مختصر شرح نووی جلد۲ ، ص
۲۸ ترجمہ مولانا وحید الزمان ، طبع نعمانی کتب خانہ
لاہور ) –
سوال یہ ہے کہ جب نبی نے کہہ دیا کہ ؛ نماز اس طرح پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں ؛ تو نبی نے نمازی کو پابند کردیا کہ تو نے نماز میری نماز کی طرح پڑھنی ہے تو اب نماز ی کو یہ اختیار کیسے مل گیا کہ وہ جس طرح چاہے نماز پڑھے ؟ جب پیغمبر نے یہ اختیار نہیں دیا تو پھر کوئی دوسرا یہ اختیار کیسے دے سکتا ہے، پھر کیا مالکیوں کی یہ بات مضحکہ خیز نہیں لگتی کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ فرض نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں اختیار ہے چاہے سینے پر باندھ لو اور چاہے کھلے چھوڑ دو، جب فرض میں ہاتھ باندھنے مکروہ ہیں تو اب جو تمہارے دیے گئے اختیار سے سینہ پر باندھ لے گا تو اس کی نماز تو مکروہ ہوگئی ، ایسی نماز پڑھنے کا فائدہ ہی کیا ہے جو مکروہ کرکے پڑھی جائے، پھر اس سے بھی بڑا مضحکہ یہ ہے جب وہ کہتے ہیں کہ فرض نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے اس لیے فرضوں میں ہاتھ چھوڑنے ضروری ہیں جبکہ نفل نماز میں تم باندھ سکتے ہو، جب آپ کے نزدیک سنت ثابتہ ارسال یعنی ہاتھ چھوڑنا ہے تو پھر نفل نماز میں خلاف سنت ہاتھ باندھنے کا تم کیوں کہہ رہے ہو، کیا یہ عجب نہیں کہ فرض ایک طریقے سے پڑھے جائیں اور نوافل دوسرے طریقہ سے ؟
ایک اور حوالہ ملاحظہ فرمایے :
؛ ابن قاسم نے امام مالک سے ارسال ( نماز میں ہاتھ چھوڑنا)
نقل کیا ہے اور امامیہ کا اسی پر عمل ہے ؛ ۔
( تیسیر الباری شرح صحیح بخاری جلد۱ صفحہ ٤٨٩ تاج کمپنی کراچی )-
مذکورہ بیانات پڑھ کر آدمی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ کیا نبی کی نماز اسی طرح ہی تھی کہ جب آپ نماز پڑھاتے تھے تو پیچھے کچھ صحابہ سینے پر کچھ پیٹ پر کچھ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیتے تھے اور کچھ ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے تھے، پھر امام مالک کا بیان مزید الجھاؤ پیدا کرتا ہے کہ نفلوں میں باندھ لو اور فرضوں میں چھوڑ دو، مولانا وحید الزمان حاشیہ ابن ماجہ پر لکھتے ہیں ؛ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ امام ترمذی نے کہا ہے ولکل واسع عندھم یعنی ہر ایک میں وسعت ہے علماء کے نزدیک ( ابن ماجہ جلد۱ ، ص ٤١٣،٤١٤- مہتاب کمپنی اردوبازار لاہور)-
ہم چاہتے ہیں کہ علماء کرام کے کچھ مزید حوالہ جات پیش خدمت کردیں :
مولانا عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:
؛ عن معاذ ان رسول الله صلي الله عليه و اله وسلم كان اذا قام في الصلاة رفع يديه معال أذنيه فإذا كبر ارسلها – رواه الطبراني – ( فتاوى شيخ علامة عبدالحي لكهنوى جلد۱، ص۳۲٦، طبع اول ) – حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر بلند کرتے اور پھر انہیں کھلا چھوڑ دیتے ۔
(۲) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے اور آپ کے صحابہ بھی یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سروں میں خون اتر آتا ۔ ( عینی شرح کنز الدقائق ص۲۵۰ طبع نولکشور )-
(۳) عترت رسول ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے ؛ ( نیل الاوطار ج۲، ص ٧٦، طبع مصر )-
(۴) شیعہ اور سنی نمازوں میں جو فرق ہے میری دانست میں اس کی کوئی اہمیت نہیں – مالکی مذہب کے لوگ جو سُنی ہی ہیں وہ بھی ہاتھ چھوڑ کر اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح شیعہ پڑھتے ہیں – اس کے یہ معنی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اس طرح پڑھا اور کبھی دوسری طرح پڑھا ۔ ( خطبات بہاول پور ڈاکٹر حمید اللہ ص٣٤، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد )-
(۵) مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں:
ہاتھ کھول کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں، باندھ کر بھی، سینے پر بھی ہاتھ باندھ سکتے ہیں ، بالائے ناف بھی، آمین پکار کر بھی کہہ سکتے ہیں اور آہستہ بھی ، غرض کہ بعض امور کے سوا کسی خاص طریقہ کی پابندی ضروری نہیں ۔ چنانچہ مختلف اماموں نے مختلف صورتیں اختیار کیں ۔ ( علم الکلام اور کلام ص۳۱۱ نفیس اکیڈمی کراچی )-
حضرات یہ ہے مختصر روداد نماز میں ہاتھ چھوڑنے اور باندھنے کی، علماء کا یہ فرمانا کہ نبی علیہ السلام نے ان سب طریقوں کے مطابق نماز پڑھی ہے کبھی سینے پر کبھی پیٹ پر کبھی ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ہیں یا کبھی چھوڑ دیے ہیں، یہ ایک ایسی بات ہے جو ہضم نہیں ہو سکتی شید ہمارا ہاضمہ اتنا قوی نہیں، اس ساری بحث میں جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ امام مالک کا یہ کہنا قطعی طور پر درست ہے کہ ہم نے اہل مدینہ کو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر انہوں نے اسی مسلک کو اختیار بھی کیا، دوسرے تینوں امام مدینہ سے سینکڑوں میل دور پیدا ہوئے اور سنی سنائی پر اکتفاء کیا جبکہ امام مالک نے مدینہ میں پیدا ہوئے پلے بڑھے جوان ہوئے پڑھا پڑھایا اور مدینہ کے مسلمانوں کو اپنی آنکھوں سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے دیکھا اور پھر اسے اپنا فقہی مذہب قرار دیا ، یہ ایک عمل کا تسلسل ہے جو نبی سے صحابہ، صحابہ سے تابعین اور ان سے امام مالک تک پہنچا، دوسرے شہروں کے مقابلہ میں مدینہ طیبہ کو اس لیے ترجیح ہے کہ یہاں رسول نے دس سال گذارے، ان کے بعد پہلے تین خلفاء نے پچیس سال نمازیں پڑھائیں اگر ان سب نے ہاتھ باندھ کر نمازیں پڑھی ہوتیں تو مدینہ میں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا نہ رواج پیدا ہوسکتا تھا اور نہ کوئی سوال اٹھ سکتا تھا وہ بھی امام مالک کے دور تک جو کہ خیرالقرون ہے اور تابعین کا دور ہے –
نماز میں تبدیلی کب اور کیسے آئی اس کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے لیکن یہاں اشارہ کافی ہوگا ،
چنانچہ بخاری و مسلم میں مطرف بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ ہم نے بصرہ میں حضرت علی کے پیچھے نماز پڑھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا لقد صلی لنا ھذا صلاتہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او قال لقد ذکرنی ھذا صلاتہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ انہوں نے ( حضرت علی نے) ایسی نماز پڑھائی جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھایا کرتے تھے یا یوں کہا کہ انہوں نے مجھ کو آنحضرت کی نماز یاد دلا دی ۔ ( تیسیر الباری شرح صحیح بخاری جلد۱ صفحہ ٥٤٤، صحيح مسلم مع مختصر شرح نووي ج٢ ص٢٠، ترجمه علامه وحيد الزمان )-
اس روایت پر اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ نماز میں تبدیلی حضرت علی کی خلافت شروع ہونے سے کچھ قبل شام و بصرہ کے علاقوں میں شروع ہو گئی تھی اسی لیے جب حضرت علی نے اپنے دور خلافت میں بصرہ میں نماز پڑھائی تو صحابی رسول حضرت عمران بن حصین پکار اٹھے کہ علی نے ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے جیسی نبی علیہ السلام پڑھاتے تھے ، مطلب واضح ہے کہ لوگ نبوی نماز کو ترس گئے تھے جس کی یا د حضرت علی نے ان کو دلائی ۔
ہم نے صورت حال سامنے رکھ دی ہے ، اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں کہ ہاتھ چھوڑیں یا باندھیں اور باندھیں تو کہاں باندھیں لیکن ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر طریق سنت کے علی الرغم بات فقہاء کرام اور مجتہدین عظام ہی کی ماننی ہے تو وہ کہتے آرہے ہیں کہ اس معاملہ میں وسعت ہے اور آپ کوئی بھی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں تو پھر ان کی ہی مان لیجیے، سر پٹھول کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے، فقہاء و محدثین اجازت دے رہے ہیں کہ چاہے تو باندھ لیں اور چاہیں تو چھوڑ کر پڑھ لیں، پھر اس چھوڑنے کو شیعہ کا شعار کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ جبکہ اہل سنت کا ایک مستقل طبقہ اسے سنت بھی کہتا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے، ہماری مسجدوں میں اگر کوئی رفع یدین کرتا نظر آئے یا آمین اونچی کہتا سنائی دے تو سب کی نظریں اس کی طرف اٹھتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کوئی وہابی اور غیر مقلد گُھس آیا ہے، اسی طرح اگر کوئی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتا نظر آجائے تو اس کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شیعہ لگ رہا ہے، اصل میں یہ ذمہ داری علماء کرام کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان جو مشترکات ہیں انہیں اجاگر کریں اپنے مسلک سے قطع نظرعوام تک اصل حقائق پہنچائیں تاکہ امت میں ایک رواداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی فضاء پیدا ہو ۔