والدین اور اولاد کی تربیت۔ از قاری حنیف ڈار
جنریشن گیپ !!
اولاد کو برباد کرنا، انہیں پل پل زخم دینا،ان کی شخصیت کو کچل کچل کر مسخ کرنا اور کھلا پلا کر پڑھا لکھا کر اپنا دشمن بنانا کوئی ھم سے سیکھے !
ان میں کبھی بھی اعتماد کو پنپنے نہ دینا، بلکہ دوسرے اگر اعتماد کا اظہار کریں تو تعجب کا اظہار کرنا اور اپنی اولاد کے لطیفے بنا بنا کر انہیں سنانا، ان کی ھر قسم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار کرنا، اگر وہ اچھے نمبر لے آئیں تو حلف لے کر اس بات کا یقین کرنا کہ انہوں نے نقل نہیں کی،، غلطی کسی کی بھی ھو مار اور گالیاں اپنی اولاد کو دینا،، سودا سلف لائیں تو بار بار شک کا اظہار کرنا کہ پیسے مار تو نہیں لیئے ؟ اور دکاندار سے فون کر کے ایک ایک چیز کا ریٹ پوچھنا،، دکان پر بھیجنا تو پیسے پورے گن کر دینا،چار آنے زیادہ نہ چلے جائیں،، سکول جائے تو بس کے کرائے کے پورے پیسے دینا،، یہ گنجائش نہ رکھنا کہ شاید ٹیکسی پہ آنا پڑ جائے،، جو بھی کاپی یا کتاب لینا ،،بچے کی خوب کلاس لے کر اور اگلا ھفتہ اسی ورد میں گزارنا کہ ھم تیرے اوپر کتنا خرچ کر رھے ھیں،، ھمارے والدین تو یہ کچھ ھم کو نہیں لے کر دیتے تھے،،
بچہ کچھ کھانے کو مانگے تو اسے یاد کرانا کہ اسلامک اسٹڈی کی بک 90 درھم کی لائے ھیں،، وہ کوئی اچھی ڈش پکانے کا بولے تو پورے سال کی فیس کا بل اس کے آگے رکھ دینا،، وہ کہیں آؤٹنگ میں جانے کی فرمائش کرے تو اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے رکھ کر اسے پڑھائی پر لیکچر دینا تا کہ آئندہ وہ اس قسم کے شوق سے توبہ کر لے،عین جس وقت وہ کارٹون دیکھنے کو ریموٹ پکڑے یا کھیل کے لئے بیٹ اٹھائے تو اس سے سوال کرنا کہ کیا قرآن پڑھا تھا؟ وہ وضو کرے تو اس کے ھاتھ پاؤں کو بار بار ھاتھ لگا کر چیک کرنا،، گیلے ثابت ھو جائیں تو پھر بھی کہنا کہ کمال ھے ابھی ابھی تو تم غسل خانے میں گئے تھے،ھمارے زمانے مین اتنا جلدی وضو تو نہیں ھوتا تھا،،
اس کے برعکس جب غسل کے لئے جائے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا کر پوچھتے رھنا کہ کیا کر رھے ھو؟ نہانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟ اور جب نماز پڑھ کے آئے تو یقین نہ کرنا اور اس سے پوچھنا مولوی صاحب نے کونسی سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی،،پھر اس کے دوست کو فون کر کے تصدیق کرنا یا پوچھنا کہ تیرے دائیں طرف کون تھا اور بائیں طرف کون تھا،،پھر اس کے باپ سے تصدیق کرنا،، پیرینٹس ٹیچرز میٹنگ پہ جانا ھی اس نیت سے کہ بچے کی برائیاں کر کے اسے ٹیچر کی نگاھوں سے بھی گرانا ھے ، مولوی صاحب کو ختم شریف پہ بلانا تو سارا وقت اولاد کی برائیاں بیان کرتے رھنا اور کہنا کہ یہ نماز پڑھنے جائے تو اس پر خصوصی نظر رکھا کریں یا کوئی تعویز دیں جو اس کو انسان کا بچہ بنا دے یوں بچے کو امام مسجد کی نظروں سے بھی گرا دینا،،
اپنے بچے کے سامنے دوسروں کے بچوں کی ھر وقت تعریف کرنا اور ان کی ماؤں کی بیان کردہ خوبیاں جے آئی ٹی کی رپورٹ سمجھ کر اپنے بچوں کے سامنے بیان کر کے انہیں لعن طعن کرنا حالانکہ وہ بچے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ممدوح بچے کیا گُل کھلاتے پھرتے ھیں،، شوھر کو ھر وقت ٹوکتے رھنا کہ تم بچے پر سختی نہیں کرتے ھو، اسے تھپکی دے کر اولاد پر پھینکنا کہ مرد بنو مرد،، باپ بن کے دکھاؤ،،بچہ فیس بک پر بیٹھے تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد سلام پھیرنے کے انداز میں نظر ڈال لینا، کہیں شادی کا کہہ دے تو تمسخر اڑانا اور دنبی میں دانا پڑنے کی بشارت سنانا ،،
سہیلیوں کو فون کر کے بتانا کہ اس کا بیٹا” وہٹی "مانگتا ھے- جاب کی تلاش میں دھکے کھا کر آئے تو اسے دیکھتے ھی کہنا” کھا آئے او” مجھے پہلے ھی پتہ تھا،، یا کہنا دوستوں کے ساتھ ھوٹلوں میں بیٹھ کر گپیں لگا کر آ جاتے ھو ،تم کام ڈھونڈتے کب ھو،، کڑیاں پچھے پھر کے آ جاتے ھو،،شادی میں کوشش کرنا کہ لڑکا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی نہ کرنے پائے بلکہ کسی ایسے رشتہ دار کی بیٹی سے شادی کرے جس نے زندگی میں آپ پر احسان کیا تھا، تاکہ اسے بَلی کا بکرا بنایا جا سکے،،
شادی کے بعد پہلی صبح کو دلہن کے کمرے کے بعد اپنی برادری کی عورتوں کو لے کر گِدھـوں کی طرح جھرمٹ لگا کر بیٹھ جانا تا کہ لڑکی کی عصمت کا حساب کتاب ان خرانٹ عورتوں پر مشتمل جیـوری میں پیش کر کے نشانِ حیدر لیا جائے،، دو چار ماہ اولاد کا سلسلہ نہ چلے تو ،،بار بار بچے کو اکیلے میں اماں جی کا مشکوک انداز میں پوچھنا” منڈیا تو ٹھیک تو ھے ناں ؟ ،، اور پھر تعویز دھاگے اور پیر بابے کے چکر،، بہو بے شک توحید کا عقیدہ رکھتی ھو مگر سسرال کے دباؤ پر جگہ جگہ دھکے کھاتی ھے تا کہ اولاد سے محرومی کا الزام اس کے سر نہ آ جائے کہ اگر یہ فلاں بابے کے مزار پر چلی جاتی تو آج صاحبِ اولاد ھوتی ،نیز دوسری شادی کا دباؤ الگ اس پر ھوتا ھے،، اس قسم کے رویوں کا نتیجہ ھوتا ھے کہ ھم بریکنگ نیوز سنتے ھیں کہ ؎
پنڈی چھاونی میں حاضر سروس کیپٹن بیٹے نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر والد ،والدہ اور تین بہنوں سمیت پورے خاندان کو رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیا،،
کل ماں اور باپ کو قتل کرنے والا بیٹا اورنگی ٹاؤن مین گرفتار !
لوگ والدین کو کیوں مارتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہ خود چلتی پھرتی لاش ھوتے ھیں !!
فــاعتبروا یا اولو الابصار،،اھل بصیرت عبرت پکڑو !
یہ وہ ساری شکایات ھیں جو والدین یا بچوں کے ذریعے مجھ تک پہنچیں اور میں نے دونوں فریقوں کو یہ سمجھایا کہ اولاد کو اس طرح رسوا نہیں کرتے اور دوسری طرف اولاد کو سمجھایا کہ اگرچہ ان کے طریقہ کار میں خامی ھو مگر ان سے بڑھ کر تمہارا ھمدرد کوئی ھے نہ ملے گا، یہ تمہارے وجود کا حصہ ھیں اور تم ان کی ایکسٹینشن ھو،، وہ تمہیں اپنا آپ سمجھ کر اس طرح کا سلوک کرتے ھیں،،وہ جس طرح خود ھونا چاھتے ھیں تمہیں ویسا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں یہ الگ بات ھے کہ وہ عمر کے فرق کو بھول گئے ھیں، اولاد نے وقتی طور پہ اگرچہ میری نصیحت کا برا بھی منایا مگر پھر وقت آیا کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ میری بات ھی ٹھیک تھی،جبکہ ان کو بھڑکانے والے انہیں دھوکا دے رھے تھے
میری دادی جان کشمیر سے انگور کی بیل لائیں ،، تین چار ٹہنیاں تھیں جن میں سے تین سوکھ گئیں تھیں جبکہ چوتھی کو بھی میں نے سوکھا سمجھ کر اس کو کھینچنے کی کوشش کی تو دادی جان نے دور سے ھی ڈانٹ پلا دی ،، اور ایک خالص دیسی گالی بھی عنایت فرمائی ،،اس کے بعد وہ اٹھ کر آئیں اور ھلکا سا ناخن مار کر اس ٹہنی کو چیک کیا ،،، اور ریزلٹ اناؤنس کیا کہ یہ ابھی سبز ھے ، یہ درخت اسی میں سے چلے گا ،
تین سال کے بعد پاکستان جانا ھوا تو اس بیل نے ھماری کوٹھی کے چھت پہ ساری فصیل کو گھیر لیا تھا ، پڑوس میں والد صاحب کی دیوار کو بھی لپیٹ لیا تھا اور برآمدے کے سامنے اپنے انگوروں کے خوشوں سمیت جھالر بنا کر لٹک رھی تھی ، انتہائی میٹھا پھل تھا ،، میں کرسی پہ چڑھ کر انگور کا خوشہ توڑ رھا تھا کہ دادی جان نے پھر ایک ھلکی سی شوگر کوٹڈ گالی سے نواز کر یاد کرایا کہ تم تو اس کو نکال کر پھینکنے والے تھے ـ
کوئی انسان بھی 100٪ برا نہیں ھوتا ،، اس کی کوئی نہ کوئی ٹہنی ضرور سبز ھوتی ھے ، اور کوئی بھی انسان 100٪ اچھا نہیں ھوتا اس کی دو چار ٹہنیاں ضرور سوکھی ھوتی ھیں ،،، آپ کو اولاد سے ضرور گلے شکوے ھوں گے اور ھونے چاہئیں کیونکہ آپ ان کو نبئ کریم ﷺ کے زمانے کے بچوں ،عبداللہ ابن عباسؓ ، عبداللہ بن عمرؓ ، عبدالرحمان بن ابوبکرؓ سے موازنہ کر کے دیکھتے ھیں ،، اگر آپ اپنی اولاد کو ان کے ہمجولیوں اور آج کے نوجوانوں کے ساتھ تقابل کر کے دیکھیں تو یقیناً آپ کو ان میں سبز ٹہنی ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں ھو گی ،، یاد رکھیں ساری دنیا کسی بچے کی تعریف کرتی پھرے ،، وہ ساری دنیا کے نیوز چینلز پہ ٹاک شوز کا موضوع بنا ھوا ھو ،،،،مگر خدا گواہ ھے کہ اس بچے کو سب سے زیادہ خوشی اپنی ماں اور اپنے باپ کی طرف سے ملنے والی شاباش پہ ھوتی ھے ،،
بچہ تو ترستا پھرتا ھے کہ ماں یا باپ میں سے کوئی اس کی غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لے ، اسے پاس بٹھا کر سوال کریں ، اس کے سر پہ پیار سے ھاتھ پھیریں ، لوگوں میں اپنے بچے کی اچھی صفت کا تذکرہ کریں جس طرح اللہ پاک اپنے نیک بندوں کے تذکرے کرتا ھے اور فرشتوں کو بلا کر فخر کا اظہار کرتا ھے ،، کتے کی طرح روٹی کھلا دینے کا نام بچے پالنا نہیں ھے ،،، انگریز تو کتے کو بھی اس سے زیادہ وقت اور پیار دیتا ھے جتنا ھم اپنے بچوں کو دیتے ھیں ،، اس سے کلاس کی چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھیں ،، اپنے بچے کا دفاع کریں ، اس کی خطاؤں کو چھپائیں نہ کہ مرچ مسالہ لگا کر دوستوں اور سہیلیوں کو سنائیں ،،
لوگ اپنا اچھا بچہ آپ کو ھر گز نہیں دیں گے ،، آپ کا بچہ وھی رھے گا جس کو آپ جگہ جگہ بدنام کر رھے ھیں ،، جو شکایتیں آپ کو اپنے بچے سے ھیں وہ ساری حرکتیں دوسروں کے بچوں میں بھی ھیں ،،، دوستوں میں بیٹھے رھنا ، دیر سے آنا ، بات کو ایک کان سے سننا اور نکال دینا ،، جماعت کی نماز میں کوتاھی ،، یا نماز پڑھنے میں کوتاھی ،،یہ ساری بچپن کی Silly Mistakes ھیں جو آپ بھی کر کے آئے ھیں اور میں بھی ، اور ھمارے بچوں کے بچے بھی کریں گے ،، اگر وہ یہ نہ کریں تو بچے نہ کہلائیں "ابے ” کہلائیں ،،
اور آخری بات یہ کہ بچہ بھی ھمارے اندر ابوبکر صدیقؓ ، عمر فاروقؓ ،عثمان غنیؓ علی المرتضیؓ والی جھلک دیکھنا چاھتا ھے ،، اگر ھم عمر فاروقؓ نہیں بن سکتے تو وہ عبداللہ بن عمر کیسے بنے گا ؟ خدا را معاف کرنا سیکھیں اور اللہ کا مشورہ مان لیں ورنہ اولاد کو کھو بیٹھیں گے ،،
وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ))التغابن: 14
اور اگر معاف کر دیا کرو اور صفحہ پلٹ دیا کرو اور خطا چھپا لیا کرو تو ،، بے شک اللہ بڑا غفور اور رحیم ھے ( وہ بھی تو تمہیں معاف کرتا ھے ، پچھلا گناہ بار بار نہیں دھراتا اور تمہارے عیب چھپائے رکھتا ھے ،،کیا تم رب کی نقل نہیں کر سکتے ؟
انسان، ابابیل اور اولاد !
ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے ،، اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے ،، مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں ،،،، آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے ،،
ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے ، بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے ،، یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس،، اور کوئی آپشن نہیں ھے ،، ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سے نکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے ـ
ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے ،، اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے ؟ بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے دکھایئے یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں ،دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے ،، اولاد کی خرابی میں خود ھماری اپنی کوتاھیوں کا ھاتھ ھوتا ھے ،، اولاد چونکہ ھمیں اسوہ سمجھتی ھے لہذا ھمارے کردار کا انتہائی دلچسپی سے جائزہ لیتی ھے ،، ھم جوں جوں دوستوں کے ساتھ فراڈ کرتے ھیں ، جھوٹے وعدے کرتے ھیں ، ان کا مذاق اڑاتے ھیں ،، کسی کے لئے ذلت آمیز رویہ اختیار کرتے ھیں ، بیوی پر ظلم کرتے ھیں ، اولاد کی نظروں سے گرتے جاتے ھیں ، اور ایک وقت آتا ھے کہ ان کی نظر میں ھماری وقعت ایک ٹکے کی نہیں رہ جاتی ،، یہ وہ وقت ھوتا ھے کہ ھمیں اس کو شناختی کارڈ دکھا دکھا کر کہنا پڑتا ھے کہ کمبخت میں تیرا باپ ھوں ،،،،،،،،،
والدین اور اولاد کا مخمصہ !
یہ ایک خط نہیں ، یہ ھر دوسرے گھر کی کہانی ھے ، اور ھر گھر کے دوسرے بچے کی کہانی ھے، میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ کھلا پلا کر ضائع کرنا اور اپنی اولاد کو اذیت ناک رویوں کے سبب ذھنی مریض بنانا کوئی والدین سے سیکھے ! یہ پولٹری فارم کا کام شروع کرنے سے پہلے ،مرغی کے بچے پالنے کا کورس کرتے ھیں ،مگر اپنی اولاد کو پالنے کے لئے انہیں کسی کورس کی ضرورت نہیں ،، باقی بات یہ خط آپ کو سمجھا دے گا !
میں 22 سال کا ہو چکا ہوں الحمداللہ۔۔ اکلوتا ہوں ماں باپ کا۔ماں حافظہ قرآن ہیں والد صاحب آرمی سے ریٹائرڈ ہیں۔ طیعت میں سختی اور انا حد درجہ ۔ماں کی خواہش تھی مجھے اعلٰی تعلیم دلوانے کی۔ انٹر میڈیٹ تک گورنمنںٹ کے اداروں میں پڑھا۔ مگر معاشی حالات نے مزید تعلیم کی اجازت نہیں دی۔ سو یونیورسٹی میں داخلہ لیا کمپیوٹر سائنشز آنررز میں اور ساتھ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے۔ درآں حالیکہ والد صاحب گھر چلاتے رہے اور میں پڑھتا رہا۔
یونیورسٹی کے چار سال میری زندگی کے اذیت ناک سال تھے۔ معاشی تنگی، تفریح خود پہ حرام کی ہوئی، نا کہیں آنا نہ جانا، نہ لباس کی فکر ، نہ خوراک کی۔ کیمپس میں اشرافیہ کے بچے پڑھنے آتے تھےساتھ، سٹیٹس میں فرق تھا لہٰذا کوئی دوست نا بنا سکا۔ پڑھائی میں اچھا تھا۔ اس لئے نیک نامی تھی کیمپس میں جو بعد میں بد مزاج اور غیر سماجی ہونے کا طعنہ بن گئی، شدید احساس کمتری۔ اس پر طرہ یہ ک والد صاحب کی انا اور خودداری ہر معاملے میں، چھوٹی باتوں پہ ڈانٹ ڈپٹ،طنز، گھر سے نکلنے کی دھمکیاں، متعدد بار تلخ کلامی (جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا)،
اس ماحول میں چھوٹی بہنوں پہ ذہنی دبائو۔ اور ہر معاملے کی تان والدہ پہ توڑنا، گھر کا ماحول اذیت ناک کر دینے کے لئے کافی تھا۔ میں اب اس حد تک چڑچڑا ہو چکا ہوں کہ جیسے سب جزبات مر گئے ہوں اور کوئی خواہش باقی نہ رہی ہو۔ ڈگری تقریباََ پوری ہو چکی ہے ۔ مگر اس قدر ذہنی دباو کا شکار ہوں پچھلےایک سال سے اپنا فائنل ائیر پروجیکٹ مکمل نہیں کر سکا۔
دنیا کے سامنے ایک منافقانہ رویہ ہے میرا۔ خود کو خوش مزاج ظاہر کرتا ہوں مگر اندر سے بہت تلخ مزاج ہوں۔
میرا سوال آپ سے صرف اتنا ہے کہ ایک طویل عرصہ میں اپنے نفس کو قابو میں کر کے خوفِ خدا اور صاف نیت کے ساتھ پڑھائی مکمل کرتا رہا ہوں تو کیا مجھے اس کا صلہ ملے گا یا نہیں۔ کیونکہ والد صاحب نے کئی دفعہ کہا ہے کہ میں نافرمان ہوں انکا اور سڑک پہ جوتیاں چٹخایا کروں گا۔ ایسے میں ، میں اندر سے بالکل ٹوٹ جاتا ہوں۔ کہ میرا جرم کیا تھا، ، اپنے لئے معاشرے میں کوئی ہمدرد نا بنا سکا تو کیا میری آنے والی زندگی مزید اذیت ناک ہوگی؟
نماز پڑھتا ہوں اور دین سے لگاو رکھتا ہوں۔ پتہ نہیں والد صاحب کیا دیکھنا چاہتے ہیں مجھ سے۔
معذرت چاہتا ہوں کہ باتیں بہت سی کہہ گیا مگر باتیں بہت سی باقی ہیں ابھی۔
اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
الجواب ــ
یہ بالکل درست ہے کہ والدین بعض دفعہ بہت نا انصافی کر جاتے ھیں – اپنی اولاد کو سوء ظن میں وہ وہ الزام دیتے ھیں، اس کی شخصیت پہ وار کرتے ھیں،، اپنی زبان سے سانپ کی طرح ڈستے ھیں – الفاظ کی صورت میں نیزے کی انی استعمال کرتے ھیں ،، مائیں بیٹیوں کو عاشقوں کے طعنے دیتی ھے ،جن کا کوئی وجود نہیں ھوتا ، باپ بیٹے پہ وہ الزام لگاتا ھے کہ عرش کانپ اٹھے ! اولاد کے اندر احساس کمتری سب سے پہلے گھر والے بھرتے ھیں بلکہ کوٹ کوٹ کر بھرتے ھیں، انٹرویو دینے جاؤ تو پہلے گھر سے ھی کہہ کر بھیجا جاتا ھے کہ ” یہ منہ اور مسور کی دال ” واپس آؤ تو سب سے پہلا طعنہ ھی گھر سے ملتا ھے ،، باپ بیوی پر اپنی مردانگی جتانے کے لئے بیٹے کی ناکامیوں کو گنواتا ھے کہ دیکھ میں نے پہلی دفعہ ٹرائی میں جاب لے لی تھی اور اپنے سورما کو دیکھ جو سمجھتا ھے کہ یہ مجھ سے زیادہ تعلیم یافتہ ھے ،، کس طرح دھکے کھا رھا ھے وغیرہ وغیرہ !
بعض دفعہ ان ناکامیوں پر اولاد کی ھمت بندھانے کی بجائے ماں باپ ان ناکامیوں کو اپنی نافرمانی کی سزا کہہ کر زخم پر نمک چھڑکتے ھیں ،،
مگر سب سے بڑی زیادتی یہ ھے کہ پھر احساسِ جرم بھی نہیں رکھتے ،، بات واضح ھو جانے کے بعد میں یہ اقرار نہیں کرتے کہ ان سے زیادتی ھو گئ ھے – بلکہ زیادتی کو فرض سمجھ کر ادا کیا جاتا ھے ،، صرف اس لئے کہ وہ اس کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنے ھیں ،،بہت سارے تو یہ قرض خودکشی کی صورت جھٹ پٹ چکا دیتے ھیں اور بعض ساری زندگی سسکتے رھتے ھیں ،، ھم اولاد کو دنیا میں لائے ھیں اور ان کو پالنا اور تعلیم دینا ھمارا فرض منصبی ھے ، یہ فرض ادا کرنے والوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئ ھے ،، یہ کوئی اولاد پر احسان نہین ھے کہ صبح ، دوپہر ، شام کھانا سامنے رکھ کر کتے کے ٹھیکرے میں پانی پلایا جائے !
اولاد کو توڑ پھوڑ کر اس کی ھستی کو ملیا میٹ کر کے ، اس کی خودی کو تحت الثری میں پہنچا کر ،،،،،،،،، اس سے والدین کی محبت کا تقاضہ کرنا بھی ٹانگیں توڑ کر دوڑنے کا مطالبہ کرنے جیسا ھے ، بابا جی وہ آپ کا احترام کرے ، پلٹ کا جواب نہ دے ،یہ بھی اس کی مہربانی ھے ،،
اس تمام تر humiliation کے بعد جب اس کی بیوی آتی ھے ، جو اسے جی جی کر کے بلاتی ھے ، جس کو مان دوسری بار دال نہین دیتی تھی وہ اس کے آگے چن چن کر کھانا رکھتی ھے ،، اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھتی ھے تو وہ مردہ زندہ ھو جاتا ھے ، اپنے مسیحا کا دیوانہ ھو جاتا ھے ،، اسے اپنی اھمیت کا احساس ھوتا ھے ،، اب سب کو فکر لگ جاتی ھے کہ بہو نے تعویز کرا دیا ھے ،، سب سے بڑا تعویز محبت ھے جس کا کوئی توڑ نہیں اور سب سے کالا جادو نفرت انگیز لفظوں کی وہ مار ھے جس سے کسی کو مارا جاتا رھا ھے ،، یاد رکھیں اولاد کے حال کے رویئے ماضی کا قرض ھوتے ھیں جو منافع سمیت چکائے جا رھے ھوتے ھیں !