اِنَّهٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ : اور بیشک نزول مسیح قیامت کی نشانی ہے ۔۔۔۔؟؟؟از ابن آدم
نزول مسیح کے سلسلے میں اگرچہ بکثرت روایات ملتی ہیں تاہم قرآن کی جن آیات کو اس کے استدلال میں پیش کیا جاتا ہے ان میں سوره زخرف کی آیت ٦١ بھی شامل ہے. اس تحریر کا موضوع نزول مسیح کا اقرار یا انکار نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کی اس آیت پر بحث کرنا ہے جو نزول مسیح کی قطعی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی رہی ہے۔ سورہ زخرف کی آیت ٦١ میں ارشاد ہوتا ہے:
"اور بیشک ‘وہ’ الساعۃ کے علم کا ذریعہ ہے؛ تو تم اس (الساعۃ) میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو؛ یہی سیدھا راستہ ہے (٦۱)-"
یہاں استعمال شدہ ضمیر ‘وہ’ کس کی طرف پھر سکتی ہے، اور اگر پھرتی ہے تو کن معنوں میں پھرتی ہے یہ اہم ترین سوال ہے۔ کیونکہ اس آیت سے دو آیت پہلے حضرت عیسیؑ کا ذکر ہوا ہے اس لئے عمومی طور پر یہ ضمیر حضرت عیسیٰ کی طرف پھیری جاتی ہے اور لفظ ‘الساعۃ’ کو قیامت کے معنوں میں لے کر اس آیت کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے
اور بیشک نزول مسیح دراصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم قیامت میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے (٦١)
آیت پر بحث سے پہلے اس سورت کا مخاطب اور مرکزی مضمون کا تعین کرنا ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ آیا یہ ضمیر اس معنی میں حضرت عیسیؑ کی طرف پھر بھی سکتی ہے یا نہیں۔ سوره زخرف وسط مکی دور کی سورت ہے جس کا بنیادی خطاب مشرکین مکہ سے ہے. سورت کا آغاز ہی قرآن مجید کی اہمیت سے ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ سے لوگ اپنے عقائد کی اصلاح کریں. آیت ٣ میں ارشاد ہوتا ہے:
کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اِسے سمجھو (٣)
اس کے بعد مشرکین مکہ کی بنیادی غلطی شرک فی الذات یعنی فرشتوں کو الله کی بیٹیاں ماننا کا زکر ہوا ہے. ساتھ ہی مشرکین مکہ کی قرآن سے عدم اعتنائی کا بھی ذکر ہے، اور اس تنبیہہ کا اعادہ ہے کہ جو قومیں رسولوں کا مذاق اڑاتی ہیں الله ان کو ہلاک کر دیا کرتا ہے، پھر قرآن کی بابت مشرکین کے بے تکے اعتراضات کا ذکر ہے کہ یہ قرآن تو جادو ہے، یا قرآن کسی سردار پر کیوں نہ نازل ہوا.
آیت ٤٤ میں بتا دیا گیا کہ عنقریب تم لوگوں کو اس قرآن کے متعلق جواب دہی کرنی ہو گی.
اس کے بعد حضرت موسیٰ اور فرعون کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے کہ جب فرعون نے پے در پے کئی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی انکار کیا اور رسول وقت کا مذاق اڑایا تو وہ اس دنیا میں ہی عذاب کا شکار ہو گیا.
فرعونیوں کے عذاب کے بعد حضرت عیسیٰ کا ذکر شروع ہوا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ جیسے ہی انکا ذکر ہوا، تو تمھاری قوم نے انکا بھی مذاق اڑایا، حالانکہ وہ بنی اسرائیل کے لئے نشانی بنا کر بھیجے گئے تھے (٥٩) اور آیات ٦٠ میں بتایا گیا کہ الله کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمھارے اندر سے فرشتہ پیدا کرکے دکھا دے.
اس تقریر کے بعد آیت ٦١ اتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اور بیشک ‘وہ’ الساعۃ کی نشانی ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خطاب مشرکین مکہ سے ہو رہا ہے جو نہ ہی حضرت عیسیٰ کو مانتے تھے اور نہ ہی قیامت پر یقین رکھتے تھے. کیا ایسی صورت میں نزول مسیح مشرکین مکہ کے لئے قیامت کی دلیل بن بھی سکتی تھی.
اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی ہندو کسی مسلمان سے کہے کہ ‘وشنو کا دسواں اوتار ہزاروں سال سے جاری کلیُگ کے خاتمہ پر آئے گا، اور اسکے بعد دوبارہ ستیُگ کا آغاز ہوجائے گا، لہذا ستیُگ کے بارے میں شبہ نہ رکھو’- اس پورے مکالمہ میں ست یگ آنے کی دلیل وشنو کا دسواں اوتار ہے، لیکن بات یہ ہے کہ مسلمان جو کہ کلیُگ اور ستیُگ کی ایسی کسی تفریق کو مانتے یا جانتے ہی نہیں ہیں تو اس پر یقین دلالنے کے لیے مسلمانوں کو کسی ایسی چیز کا حوالہ دیا جانا چاہیے جو وہ مانتے بھی ہوں- اور جب دلیل میں ایک اوتار کی آمد کا نظریہ بتایا جائے، تو مسلمان کیسے مان سکتے ہیں- مسلمان اول تو کسی کلکی کی آمد کے منتظر نہیں ہیں، جبکہ اوتار کا نظریہ بھی اسلام کے بالکل خلاف ہے، تو مسلمانوں کے لیے اس دعوے پر یقین کرنے اور پھر دعوے کے حق میں پیش کی جانے والے دلیل کی اہمیت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے-
بعینہ یہی معاملہ اس صورت میں پیش آئے گا کہ مشرکین مکہ کو قیامت پر یقین دلانے کے لیے حضرت عیسیؑ کا حوالہ دیا جائے۔ حضرت عیسیؑ کا نزول ثانی ہو یا غیر معمولی پیدائش، دونوں ہی مشرکین مکہ کے لیے ثبوت طلب دعوے تھے اور ان دعووں ہی کو ایک ایسی چیز یعنی قیامت پر اعتقاد کے لیے پیش کیا جائے جس کو مدعا علیہ مانتا ہی نہ ہو، تو ایسی دلیل و ثبوت کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے-
یہی وجہ ہے کہ یہاں ‘وہ’ کی ضمیر حضرت عیسیؑ کی طرف نہیں بلکہ قرآن کی طرف پھرتی ہے کیونکہ یہ قرآن ہی مشرکین کے لئے نشانی کے طور پر آیا تھا. جس کا اسی سوره میں اظہار بھی کیا گیا ہے؛اور اسی کی جواب دہی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے.
حضرت عیسیؑ اور حضرت مریمؑ کا ذکر پہلی بار قرآن شریف میں ہوا سورہ مومنون میں ہوا۔ آیت ۵۰ میں حضرت عیسیؑ کا نام بھی نہیں لیا گیا ہے، بلکہ انکو بی بی مریمؑ کا بیٹا بیان کیا گیا ہے۔ اور انکو اور انکی والدہ کو نشان/معجزہ بیان کیا ہے۔ گویا سورہ مومنون میں درحقیقت حضرت عیسیؑ کی غیر معمولی پیدائش کو معجزہ بتایا ہے کہ کیسے ایک کنواری نے بچہ جنا، اور کیسے حضرت عیسیؑ بغیر کسی مرد کی مداخلت کے پیدا ہوئے۔ گویا دونوں ماں بیٹا اللہ کی ایک نشانی کے ظہور کے طور پر سامنے آئے۔
سورہ مومنون کے نزول کے بعد مشرکین نے شور ڈالا، کہ کنواری مریم کے بچہ ہونے کا جو دعوی ہے تو اس بچے/ بشر (حضرت عیسیؑ) کے ماننے والے تو انکو خدا کا بیٹا بتاتے ہیں- جبکہ دوسری جانب ہم تو فرشتون کو خدا کی بیٹیاں بتاتے ہیں، تو ہمارے معبود یعنی کہ فرشتے (غیر مرئی مخلوق) زیادہ برتر ہوئے، یا عیسائیوں کا معبود جو کہ ہمارے جیسا ہی ایک انسان تھا.
حضرت عیسیٰ کے حوالے سے مشرکین کے اٹھائے گئے اس طوفان کا جواب سوره زخرف میں دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ (ابن مریم) دراصل بنی اسرائیل کے لئے الله کی طرف سے نشانی بن کر ائے تھے اور الله اس چیز پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تمھارے اندر سے فرشتوں کو پیدا کر دے جن کو تم اپنا معبود مانتے ہو. گویا الله نے بتا دیا کہ جنھوں نے ہٹ دھرمی دکھانی ہوتی ہے وہ ایسی کج بحثیں کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اصلاح کرنے کی بجائے جھگڑے اٹھاتے رہتے ہیں.
اس آیت میں نزول عیسیٰ کا حوالہ نہ ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ کا نزول بنیادی طور پر ان کے مسیح ہونے کی وجہ سے بتایا جاتا ہے. جب کہ کسی مکی سورت میں حضرت عیسیٰ کا بحیثیت مسیح تعارف کرایا ہی نہیں گیا ہے۔ درحقیقت یہودیوں کے ہاں قیامت سے قبل ایک مسیح کے آنے کا نظریہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پہلے سے ہی موجود تھا. جب حضرت عیسیٰ ان نشانیوں کے مصداق نہیں بنے تو عیسائیوں کے ہاں بھی حضرت عیسیٰ کے نزول کا نظریہ پیدا ہوا تاکہ وہ دوسری بار آ کر اپنے آپ کو یہودیوں کے مسیح موعود ثابت کریں. درحقیقت عیسائیوں کے نزول عیسیٰ کا بنیادی مقصد ان کا یہودیوں کے مسیح کی شرائط پوری کرنا ہے.
قرآن نے حضرت عیسیٰ کے لئے مسیح کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن یہ ہجرت مدینہ کے تین سال بعد پہلی بار سوره آل عمران میں آیا ہے. اس کے بعد سوره نساء، مائدہ اور توبہ میں بھی آیا ہے. قطع نظر اس کے کہ وہ یہودیوں کے مسیح موعود ہیں بھی کہ نہیں. مکی قرآن میں حضرت عیسیٰ کا ذکر سب سے پہلے ابن مریم کے طور پر سوره مومنون میں آیا ہے اور اس کے بعد سوره زخرف میں آیا ہے. اور پھر سوره مریم، انبیاء، الانعام اور ہجرت کے بعد سوره بقرہ اور سوره صف میں بھی آیا ہے. ان میں سے کسی ایک سورت میں بھی حضرت عیسیٰ کے لئے مسیح کا لفظ نہیں آیا. گویا اگر قرآن حضرت عیسیٰ کو مسیح موعود بیان کر بھی رہا ہوتا تو اس کی دلیل سوره آل عمران یا اس کے بعد کی کسی نازل شدہ سورت سے ہی لی جا سکتی ہے. یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے آیت ٦١ کی ضمیر کو حضرت عیسیٰ کی طرف پھیرنے کے باوجود بھی یہاں نزول مسیح کو قیامت کی دلیل نہیں مانا ہے بلکہ ولادت مسیح کو قیامت پر یقین دلانے کے لئے دلیل بنایا ہے. لیکن سوال پھر یہی اٹھتا ہے کہ مشرکین مکہ تو حضرت عیسیٰ کو مانتے ہی نہیں تھے تو ان کی غیر معمولی ولادت قیامت پر یقین دلانے کے لئے کیسے ایک دلیل بن سکتی تھی. دراصل یہاں پر ضمیر قرآن کی طرف ہی پھر رہی ہے اور اسی کو الساعۃ پر یقین رکھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
لیکن یہاں ایک مزید سوال ہے کہ الساعۃ کو کس دلیل پر قیامت کو لیا جا رہا ہے؟ الساعۃ کا بنیادی مطلب میں ہلاکت خیز گھڑی کا ہونا ہوتا ہے. قرآن میں بیشک الساعۃ اکثر مقامات پر قیامت کے ہی معنوں میں آیا ہے؛ لیکن آیات کے قرائن بتا دیتے ہیں کہ یہاں الساعۃ سے قیامت مراد لی بھی جا سکتی ہے کہ نہیں. دراصل یہاں آیت ٦١ کے الساعۃ میں سوره زخرف کی ہی آیت نمبر ٤١ سے ٤٤ کا حوالہ دیا گیا ہے. جس میں ارشاد ہوا:
اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں (٤١) یا تم کو آنکھوں سے اِن کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے اِن سے وعدہ کیا ہے، ہمیں اِن پر پوری قدرت حاصل ہے (٤٢) تم بہر حال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو (٤٣) حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی (٤٤)
اصل میں کفار مکہ نبی کریم سے بار بار معجزات کا مطالبہ کر رہے تھے اور یہاں پر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن ہی تمہارے لئے علامت بن کر آیا ہے اور اسی کے حوالے سے تم سے باز پرس بھی ہو گی. مزید یہ کہ اب کیونکہ بار بار کی تنبیہات کے باوجود تم لوگ کفر کی ضد پر قائم ہو اور ہدایت سے منہ موڑے ہوئے ہو تو الله نے تم لوگوں پر دنیاوی عذاب مسلط کرنے کر وعدہ کر لیا ہے. اور ان چار آیتوں کے بعد قوم فرعون کا قصہ بیان ہوا ہے جہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک نشانی دیکھنے کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو سب دنیاوی جاہ و جلال کے باوجود غرقابی کا عذاب ان پر نازل ہوا. اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ کا ذکر ان کے ابن مریم ہونے کے حوالے سے کیا گیا ہے کہ وہ ایک نشانی ہی تھے بنی اسرائیل کے لئے اور ایسی نشانیاں ہم آج بھی پیدا کر سکتے ہیں کہ تمھارے اندر سے فرشتے پیدا کر دیں لیکن درحقیقت تم لوگوں کو جو نشانی دی گئی وہ قرآن ہے اور یہی کتاب تم لوگوں کو تمھارے انجام سے بھی آشنا کر دے گی اگر تم نے اپنے کفر کی روش کو نہ چھوڑا.
حرف آخر:
سوره زخرف کی اس آیت سے نزول مسیح کا استدلال ہرگز بھی نہیں نکل رہا ہے بلکہ یہاں قرآن کے لئے بیان ہوا ہے کہ وہ مشرکین مکہ کے دنیاوی ہلاکت کی آگاہی دیتا رہے گا. یہ دنیاوی ہلاکت ان کی بالاخر غزوہ بدر کے موقع پر ہوئی جس میں ان کے تمام سردار ہلاک ہوئے. اور انکا غرور خاک میں مل گیا۔