يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي! از قاری حنیف ڈار
قرآن حکیم انسان کو اس کی دنیا اور آخرت کی زندگی کے مختلف کلپ دکھا دکھا کر سمجھاتا ھے کہ یہ حقیقت کو سمجھ لے مگر انسان نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ بس نہیں سمجھنا ـ دنیا میں ھم جتنی نیکی کماتے ہیں ، جو بھی بھلے کام کرتے ہیں ، مسکینوں ، بیماروں ، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں ، جو بھی نماز روزہ کرتے ہیں یہ سب صرف اور صرف اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں ، من شکر فانما یشکر لنفسہ ، جو شکر کی روش اختیار کر کے اللہ کی طرف سے دیئے گئے کو اللہ کی اطاعت میں استعمال کرتا ھے وہ اپنی ذات کا بھلا کرتا ھے ، ان احسنتم ، احسنتم لانفسکم ،، اگر بھلا کرتے ھو تو اپنی ذات کے لئے بھلا کرتے ھو ،، قیامت کا ایک منظر ھے کہ جب انسان دیکھے گا کہ ایک بھلے انسان نے جو کچھ بھی بھلا کیا تھا اس کے نتیجے میں اسی کو تول کر نوازا جا رھا ھے ، اللہ نے کچھ بھی ضائع نہیں کیا ، اس وقت وہ کہے گا کہ کاش میں نے بھی اپنی اس زندگی کے لئے کچھ آگے بھیجا ھوتا ، میں تو رب پر احسان کر کر کے نماز کوٹرخاتا رھا ، کاش مجھے پتہ ھوتا کہ میں اس سجدوں سے اپنے محل بنا رھا تھا تو میں طویل طویل سجدے کرتا ، کاش مجھے معلوم ھو جاتا کہ مسکین کو کھانا کھلا کر میں اپنا جنت کا محل بنوا رھا تھا تو ذرا اچھا بنواتا اور کسی مسکین کی تھوڑی زیادہ مدد کر دیتا ،، اے کاش ، اے کاش ! اللہ پاک فرماتا ھے کہ اس دن انسان کو سمجھ لگ جائے گی مگر اس وقت سمجھ لگنے کا اس کو کیا فائدہ ؟ [ وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ] الفجر ۲۳
[ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (الفجر ـ 24) ]
کہتے ہیں کہ نارتھ امریکہ میں کوئی کارپینٹر کسی کمپنی کے لئے لکڑی کے خوبصورت گھر بنایا کرتا تھا ، جب پینتیس چالیس سال گزر گئے تو اس کو ریٹائرڈمنٹ کا خیال آیا اور اس نے کام چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ، اس نے اپنی کمپنی کے باس کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو اس نے اسے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا مگر وہ اصرار کرتا رھا کہ اس نے کام ترک کر کے اب اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا ھے ،، اس پر باس نے اس کو کہا کہ پھر جاتے جاتے اپنے ہاتھوں ایک اے کلاس یادگار گھر بنا کر دے جاؤ ، اس پراجیکٹ کو مکمل کر کے تم جا سکتے ہو ،،اس نے بھی سوچا کہ ان کے ساتھ اتنا عرصہ کام کیا ھے تو ان کو ناراض کر کے جانا کچھ مناسب نہیں لہذا اس نے با دلِ نخواستہ کام کرنے کی حامی بھر لی ، پراجیکٹ پر کام شروع ھوا تو اس نے نہ تو میٹریل کی کوالٹی پر کوئی توجہ دی اور نہ دیگر ٹیکنکل چیزوں پر کہ کاریگر اس کو ٹھیک سے لگا رھے ہیں یا بس کام پورا کر رھے ہیں ،، اس پر یہی دھن سوار رھی کہ جیسے کیسے پراجیکٹ مکمل کر کے جان چھڑائے اور گھر پہنچے ،، آخر پراجیکٹ مکمل ھوا اور وہ رپورٹ لے کر باس کے پاس پہنچا اور اس کو خوشخبری سنائی کہ پراجیکٹ مکمل ھو گیا ہے ، باس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر مسکرا کر دراز میں سے ایک چابی نکالی ،، یہ چابی اُسی اے کلاس گھر کی تھی جو اس نے آخر میں بنوایا تھا ،، باس نے کہا کہ آپ نے ھماری اتنی خدمت کی ھے لہذا ھم سوچا کہ آپ کو ریٹائرڈمنٹ کے تحفے میں سرپرائز کے طور پر یہ گھر دے دیا جائے ،، یہ سن کروہ سناٹے میں آ گیا ،، اب وہ گھر کو ایک نئی نظر سے دیکھ رھا تھا ، وہ جس جگہ بھی اس کے میٹریل یا فٹننگ میں خرابی دیکھتا تو اس کے دل سے یہی ہوک اٹھتی کہ ’’ اے کاش مجھے پہلے پتہ ھوتا ، اے کاش مجھے پہلے پتہ ھوتا کہ یہ میرا اپنا گھر ھے ، بس حشر کے میدان میں یہی اے کاش اے کاش کی گونج ھو گی ، جب لوگ دیکھیں گے کہ جن کاموں کو وہ خدا کے فائدے کی سمجھ کر پیچھے سے اتار رھے تھے ، سجدوں کی بجائے کوے کی طرح ٹھونکیں مار رھے ہیں ، وہ تو ہمیں کو لوٹا دی گئی ہیں کہ وزن کرا کر نور لے لو، اور اس نور کی روشنی میں پل صراط پر سے گزر کر میری جنت میں داخل ھو جاؤ، مگر نور تو خلوص کے ساتھ کی گئی عبادت میں ھوتا ھے ناں ، خدا پر احسان چڑھا کر کی گئی عبادت میں نور کہاں ؟