چراغ حسن حسرت کے لطیفے
چراغ حسن حسرت کے لطیفے
کسی مشاعرے میں حفیظؔ جالندھری اپنی غزل سناتے سناتے چراغ حسن حسرت سے مخاطب ہوکر بولے:
”حسرتؔ صاحب! مصرع اٹھائیے۔”
اور حسرتؔ صاحب نہایت بیچارگی سے کہنے لگے :
”ضرور اٹھاؤں گا ، اپنی تو عمر ہی غزلوں کے مصرعے اٹھانے اور مردوں کو کندھا دینے میں کٹ گئی ہے۔”
*
مولانا چراغ حسن حسرتؔ بلند پایہ صحافی انشاء پرداز اور شاعرتھے ۔ فوج میں کپتانی کے منصب پر فائز تھے لیکن ڈسپلن کے پابند نہیں تھے ۔
سنگاپور میں تعیناتی کے زمانے میں جب کرنل مجید ملک نے جو خود بھی شاعر تھے کبھی معاملہ میں مولانا سے تحریری باز پرس کی تو انہوں نے فائل پر یہ شعر لکھ کر بھیج دیا
جرمنی بھی ختم اس کے بعد جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
چراغ حسن حسرتؔ کا قد لمبا تھا ۔ ایک روز بازار گئے ۔ آموں کا موسم تھا ۔۔۔
ایک دوکاندار سے بھاؤ پوچھا ۔ دوکاندار نے پانچ آنے سیر بتایا حسرتؔ نے کہا۔
”میاں آم تو بہت چھوٹے ہیں ۔”
دوکاندار نے کہا۔”میاں نیچے بیٹھ کر دیکھو آم چھوٹے ہیں یا بڑے ۔ قطب مینار سے تو بڑی شے بھی چھوٹی نظر آتی ہے ۔”
*
مولانا چراغ حسن حسرتؔ بے حد ذہین و فطین اخبار نویس ، شاعر ، ادیب و نقاد ہونے کے علاوہ اعلی پایہ کے مبان داں تھے ۔ ہر ایک کا مذاق اڑانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ وہ ہفتہ وار ”شیرازہ شائع کرتے تھے ایک بار جو شامت آئی تو حکیم یوسف حسن پر طنز کیا :
”حکیم صاحب!اپنے پرچے کو بہتر بنائیے ۔ ذرا اس جانب تو جہ دیجئے ۔ کیوں اپنا وقت ضئع کررہے ہیں ۔۔۔”
حکیم صاحب یہ پڑھ کر سیخ پا ہوگئے ۔ کس کی مجال تھی جو ان پر انگشت نمائی کرے حکیم صاحب نے جواب دیا :
”حضرت مولانا’پہلے اپنے گھر کی خبر لیجئے ‘ یہاں تو چراغ تلے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ آپ کا” شیرازہ ” نیوز ایجنٹوں کے ہاں سے سیدھے ردی کے بیوپاریوں کے ہاں پہنچ رہا ہے۔اللہ!”شیرازہ” بکھرنے سے بچا لیجئے ۔”
(ماخوذ از ریختہ ڈاٹ کام)