چند معروضات دین از مفتی احسن قریشی
چند معروضات
یہ دین تو اصلا صرف یقینوں کی تبدیلی کے لئے آیا تھا یہ تو اس لئے آیا تھا کہ انسان کو فساد جسمی ، فساد روحانی، اور فساد مالی سے نکالے ، یہ تو اس لئے آیا تھا کہ انسان اپنی زندگی خوشی خوشی گزار سکیں ، یہ تو امن و سلامتی کے لئے آیا تھا ، یہ تو جہنم سے بچانے کے لئے آیا تھا ، یہ جنت دلانے کو آیا تھا ۔ اس دین کے اصول انسانوں نے دین کے بنیادی ماخذ سے نکالے۔ وہ انسان تو ہم ہی جیسے تھے لیکن اصول وضع کرکے احسان عظیم فرما گئے ۔ پہلی صدی کے علماء کی دو کتب مشہور ہیں : مؤطا امام محمد اور مؤطا امام مالک ۔ امام شافعی کے بیان کے مطابق مؤطا کو اصح الکتب کا درجہ حاصل ہے اور اس باریک سی کتاب میں سوائے آسان آسان باتوں کے جو ضروریات دین کی تشریح ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ لیکن ان دو کتب کو تو ہم پڑھتے ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں وہاں وہ ہے جو ہم کرتے نہیں۔
کتنی حیرانی کی بات ہے دجال کا ذکر وہاں ایک خبر واحد کے طور پر ہے لیکن کیا وہ قرون اول سے اجماعا عقیدہ ہے ؟؟؟( اصل پوسٹ کے الفاظ یہ تھے :” کہ دجال کا ذکر بھی وہاں نہیں ؟؟؟ ” لکھتے ہوئے غلط لکھا گیا جس کو اب درست کرچکا ہوں )۔ حیرانی سی حیرانی کہ عمر و عائشہ کی بحث کی انھیں کوئی ضرورت ہی نا تھی ؟؟؟ حیرانی پر حیرانی ان کے پاس کوئی ایسی روایت بھی نہیں کہ جس میں پندرہ سالہ بالغ لڑکے کو رضاعت کے ذریعے محرم بنایا گیا ہو ؟؟؟ حتیٰ کہ اسقدر محروم و مردود تھے کہ نزول عیسی و طہور مہدی سے بھی بالکلیہ فارغ تھے۔ پھر بھی ائمہ تھے ۔۔۔۔ اس زمانے کے علماء کا مسلک سادہ تھا بے حد سادہ ۔امام محمد نے حدیث پڑھی امام مالک سے اور اس پر اپنے معروضات کا اضافہ کیا اور شاگرد بنایا ۔ امام شافعی جیسے بزرگوں کو فقہ کے اصول مدون ہوئے۔
فقہ کیا ہے؟ فقہ اصل ماخذ سے مسئلے کے حل ہے جسے استخراج و استنباط کہیں۔ ماخذ اول قرآن ہے ، ماخذ ثانی حدیث ہے ، ماخذ ثالث اجماع ہے ، ماخذ رابع قیاس ہے۔ قرآن ہر مسئلے کا وہ حصہ بیان کرتا ہے جو لازمی ہے جس کے بغیر گزارا نہیں ۔ حدیث قرآن کا بیان ہے، تشریح ہے ۔ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ کا متفق ہونا ہے دین کی کسی ایک بات پر، لہذا درجہ میں کسی بھی حدیث سے بڑا ہے درجے میں متواتر کی طرح ہے لہذا (مثلاً) علاءالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی اپنی کتاب بدائع الصنائع میں (مثلا )کتاب الصلاۃ میں یوں لکھتے ہیں : اما فرضیتہا فثابتہ بالکتاب والسنۃ والالجماع والمعقول اور اس کے بعد ہر ماخذ کی دلیل لاتے ہیں۔ قرآن بھی اجماعا ثابت ہے اور اس کے درج کرنے میں صرف وہی آیت درج کی گئی جس کے آیت ہونے کو سب نے مانا اور اس کی گواہی دی گویا یہ بھی متواتر ہے ۔ ( اس سلسلے میں وہ آیات جن کو بکری کھا گئی تھی ، چونکہ کسی کو یاد نہ تھیں اس لئے وہ کتاب میں نہیں ہیں گواہی دینا اور ان کا بیان کرنا تو بہت دور کی بات ہے) اس کے بعد حدیث کی بات کی جاتی ہے ۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ قبول کس کو کریں کہ ہر ایک بیان کررہا ہے؟ اس کو ایک مثال سے جانیں : ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے معراج کی حدیث پیش کی اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بیان ہوا کہ انھوں نے اللہ کو دیکھا – عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث پر جرح کی اور رد کیا اور فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا : لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ- کوئی آنکھ اس کا ادراک نہیں کرسکتی ۔۔۔۔۔۔الخ ، ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اس دلیل کے سامنے خاموش ہوئے ۔ کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو گستاخ نہیں کہا ۔ کیوں ؟؟؟؟؟
کیوں ؟؟؟؟ اس لئے کہ قرآن حدیث غیر متواتر کو رد کرسکتا ہے اور اس کا الٹ نہیں ہو سکتا اگر حدیث قرآن کے معنی کو بدلے تو تابعین علماء تک کا دستور حدیث کو رد کرنا تھا نہ کہ زبردستی اس کو داخل کرکے چھوڑنا ۔۔۔ یہ بے حد آسان راستہ تھا۔ چناچہ اصول طے ہے کہ قرآن کے کسی حکم پر کسی حدیث فرد کے ذریعے قید بھی نہیں لگ سکتی ایسی قید جو قرآن نے نہیں لگائی کجا کہ منسوخ کرنا ۔۔ یہ تو بعید از خیال ہے۔۔۔ اسی کے نتیجے میں یہ اصول بھی وضع ہو گیا کہ ضروریات دین کیا ہیں اور انھیں کہاں دیکھنا ہے اور کونسی بات ضروریات میں شامل ہی نہیں۔ آگے چلنے سے پیشتر ایک قصہ :
سن 2008 کا ذکر ہے میرے بھائ مبشر قریشی کی ای میل موصول ہوئی کہ بھائ یہ کیا قصہ ہے کہ مسلم کی ایک حدیث کی بنا سعودیہ میں 15 سال کے لڑکوں کی رضاعتیں ہورہی ہیں ؟ میں نے اس حدیث کو اسی اصول کی بنا پر رد کیا اور قرآن کی آیت والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین ۔۔الخ پیش کی کہ قرآن کا حکم دو سال کے اندر رضاعت ہے ۔ لہذا یہ حدیث ثابت ہوتے ہوئے قابل اخذ مسئلہ نہیں۔۔ اس پر مکمل مقالہ تیارہوا جس میں بھائی بھی شریک تھے۔ جس میں استخراج اور استنباط مسائل کے اصول ساتھ میں بیان کئے وہ مقالہ والد محترم نے Comsats بھیجا۔ حال یہ ہے کہ امام بخاری چونکہ مجتہد مطلق تھے، اس لئے ان کا فتویٰ آج بھی دنیا میں بقول ابا مرحوم ، برما کے کسی علاقے میں معمول بہ ہے جس کے نتیجے میں ایک میاں بیوی ایک جانور کا دودھ نہیں پیتے۔ سوچئے کتنا عظیم دھوکا ہوا کہ امام محمد کے علم کے آگے کسی کا زور نہ چلتا تھا، فقہ حنفی سارے کا سارا ان کی تالیف امام شافعی جیسے جلیل القدر ان کے شاگرد اور آج ان کو کون جانتا ہے ؟ کس کو پتا ہے کہ ان کی بھی کی سیرت کی کتاب ہے ؟ کس کس نے ان کی تالیف کردہ مؤطا پڑھ رکھی ہے؟ کون ہے جو آج حنفی ہے؟ ہے کوئی تو سامنے آئے۔
چلئے آگے چلتے ہیں :ہوا کیا؟ علم کو علم کے بدلے پیٹ دیا گیا – لیکن یہ کام اس وقت نہیں ہوا جب امام محمد کا علم معروف تھا یہ کام کافی بعد میں ہوا۔ چنانچہ حدیث کو بنیاد بنایا گیا ۔ آج کی معلومات کے مطابق کوشش کی گئی کہ تالیفات میں ہر ممکن وہ بات شامل ہو جو تابعین کے مسلک معروف سے دور ہو اور ان احادیث کے ذریعے قرآن میں اضافہ شروع کیا گیا ۔۔ قرآن کے آزاد احکامات پر قیود لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ضروریات دین میں بے تحاشہ اضافہ ہونے لگا ۔ مثلاً اوپر مذکور ایک اہم بات جو کہ ابواب فتن میں دجال کا بیان ہے ، کہا گیا کہ ہر نبی نے اپنی امت کو اس کے فتنے سے ڈرایا۔ میں نے قرآن میں دیکھا کہ اتنا اہم معاملہ قرآن میں نہیں، اشارۃً بھی نہیں اور کسی نبی نے قرآن کی کسی آیت کے مطابق ، بشمول محمد ﷺ کے ، دجال سے نہیں ڈرایا حالانکہ یاجوج ماجوج کا دو جگہ ذکر کردیا، دخان کا ذکر کردیا مجھے تو یہ بھی نہیں پتا چل سکا کہ اس کی بابت پیش کردہ حدیثیں خبر واحد ہونے کے باوجود متواتر کس نے بنا ڈالیں، میں اس سے بھی قاصر ہوں کہ دجال کے آنے پر اجماع کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان ثابت کرسکوں، تابعین میں ثابت کرسکوں یا تبع تابعین میں ثابت کرسکوں ۔۔۔ ہے کوئی جو کرسکے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اس حدٰیث کا سب سے بڑا فائدہ کس نے اٹھایا ؟ مرزا غلام احمد نے ان احادیث کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرکے ایک نیا بیانیہ لانے کی کوشش کی اس نے مہدی موعود سے لے کر مسیح موعود تک سب باتیں اپنے اوپر چسپاں کیں اور بالآخر متنبی بنا۔ آجکل بھی مہدی بننے کی کوشش جاری و ساری ہیں اور کوئی کوئی کبھی کبھار اس سلسلے میں اگلے جہاں بھی چل دیتا ہے ۔۔۔۔ مسیلمہ کذاب اور ابو طیب متنبی کے پاس یہ گر نہیں تھا ورنہ ہزاروں پروانے ان کو مل جاتےاور نہیں تو اسائلم تو مل ہی جاتا کہیں نہ کہیں –
رفع یدین نہ کرنا بعض لوگوں کے نزد شرک اسی لئے بنا کہ انھوں نے ضرورہات دین میں اپنی طرف سے حدیث کے زور پر اضافہ کیا ۔۔۔ عجب ہے کہ نماز، قیام قرات رکوع سجدہ کا نام ہے ،اس سے قبل وضو ہوگا ، ضروری وضو اور ضروری نماز تو صرف وہی ہے جو قرآن میں ہے، اسی لئے یا تو وہ شرائط نماز ہیں جیسے پاک ہونا یا فرائض نماز ہیں جیسے قرآت اور کہیں سے بھی ہو کتنی بھی ہو نہ یہ کہ فلاں آیت ہو تو ہی نماز ہوگی کجا کہ مکمل سورۃ دلیل کے لئے سورۃ مزمل پڑھ لی جاوے : فقراءوا ما تیسر من القرآن – کیا کرے گا نومسلم جب ضروریات دین کی کم از کم مقدار کے ساتھ کلمہ شہادت کہے گا بمقابلہ ضروریات کی فوری ناممکن العمل مقدار سامنے دیھکے گا اور کہے گا کہ بھائی یہ ویلے لوگوں کاکام ہے نماز پڑھنا اور مسلمان ہونا اور یہی قول ہے کسی بھی مسلمان کے انگریز باس کا – مجھے افسوس ہے کہ ہمارے مدارس نے حدیث بخاری ایسے پڑھائی کہ اس کو یقین کے اس درجے تک پہنچا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی ایک حدیث بخاری و مسلم کو معقول وجوہ کی بنا پر شک کی نظر سے دیکھے تو سب کو اسلام خطرے میں نظر آنے لگتا ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ کسی مدرسے میں فقہ حنفی کے اصل مدون امام محمد کی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی سوائے مؤطا امام محمد کے ، وہ بھی کہیں کہیں صرف مصروف رکھنے کے لئے – مجھ سے طلاق کے مسئلے پر سوال ہوتا ہے میں ایک ہی جواب دیتا ہوں قرآن میں کیا ہے؟ تم جو حدیث لائے وہ اس کے بیان کے موافق ہے یا مخالف؟۔۔۔ حدیث آزاد آیت پر قید ہے یا نہیں ؟۔۔ آیت کی وضاحت ہے یا نہیں ؟ اور کھیل ختم –
مجھ سے عشر کے مسئلے میں بخاری کی حدیث پیش کرکے چھوٹ لی جانے کی کوشش ہوتی ہے میرا جواب ہوتا ہے کیا یہ چھوٹ قرآن میں ہے اگر نہیں تو اس حدیث کی وجہ سے اضافہ نہیں کرسکتا – کسی بھی مسئلے کی بابت میرا یہی اسلوب ہے الحمد للہ –
اب بات آتی ہے نبی کے کردار کی – غور کریں عیسائیوں نے نبیوں کی بابت ہمیشہ جنسی افسانے تراشے جیسا کہ حضرت لوط ﷺ کے بارے میں ایک جگہ بیان ہے کہ لوط نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ شراب پی اور اگلی نسل ان سے چلی ۔ لوط ﷺ وہ شخصیت جنھیں ایسی قوم ملی جو آج بھی تصور کرنا مشکل ہے ۔ سوچیں کہ آپ کا پورا شہر ہر ہر مرد دوسرے مرد کے ساتھ مشغول ہو اور آپ ان میں اکیلے ہوں ۔۔۔ اسی طرح کیا بعض عیسائی عیسی علیہ السلام کی والدہ کو اب تک متہم نہیں کرتے ؟ ایسا ہی حال یہود کا ہے ۔ چناچہ سب سے پہلے اس کام کا آغاز مدینہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے شروع ہوا ابھی تو نبی بھی موجود تھے – اللہ نے سورۃ نور اتار دی عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کا بیان اللہ نے کیا اور ایسا کیا کہ اللہ اکبر: لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنت بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین (اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے) ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا والآخرۃ لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیم ( اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا) اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ھینا وھو عند اللہ عظیم (جب کہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منھ سے وه بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه بہت بڑی بات تھی) ولولا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بہتان عظیم (تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی ﻻئق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے) یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدا ان کنتم مؤمنین ( اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو) ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین آمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والآخرۃ۔ واللہ یعلم انتم لاتعلمون (جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی کی بات پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے) ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ وان اللہ رؤف الرحیم (اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے واﻻ مہربان ہے۔ (تو تم پر عذاب اتر جاتا) اللہ کی قسم یہ آیات عائشہ رضی اللہ عنھا کی شان ہیں کوئی حدیث جو اس شان کے خلاف ہے وہ قابل بیان نہیں کہ وہ ان دھمکیوں کا سامان کرے جو اللہ نے یہاں بیان کیں – اماں عائشہ کا ذکر تو نبی ﷺ کا حوالہ ہے وہ ان کا لباس تھیں، نبیﷺ ان کا لباس تھے یہ بھی قرآن نے بتایا ۔ کیا کوئی محدث بیان کرے اور اس بیان سے نبی کا لباس پھٹے تو کیا وہ اللہ کی اس دھمکی کی زد میں ہے یا باہر ہے؟ فیصلہ خود کرے اس ساری بات کو پڑھ لینے والا ۔ کوئ ایسی حدیث، جو کسی بھی بنا، نبی کی شان میں کمی کا سبب بنے اسے ان آیات کی روشنی میں صاف طور پر رد کردو۔ غور کرو یہ سازش نبیﷺ کے دور میں شروع کی گئی اور بعد ازاں احادٰیث کی کتب میں اور پھر اور لوگوں نے ان کو ہمیشہ برا بنایا۔ کسی کو پتا ہے کیوں ؟ صرف اس کو پتا چل سکتا ہے جس کی بیگم پر کبھی کوئی بہتان لگ جائے ۔ کیا آپ اپنی بیگم پر بہتان برداشت کریں گے َ؟ کبھی نہیں!!! اس لئے کہ آپ کی بیگم پر بہتان حقیقتاً آپ کی اپنی ذات پر الزام ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ سازش اب اور رنگوں میں بھی جاری ہے اور اس کی وکالت عملاً ضروریات دین بن چکی۔ اس سازش کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں ؟ دیکھئے : لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا حوالے سے بات کرچکا۔ ام عیسی علیہ السلام کی بات بھی ایسے ہی کہی جاتی ہے مغربی حلقوں میں اور ان کو بدکردار ثابت کیا جاتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کے ننگے دوڑنے اور حضرت داؤد علیہ السلام پر تھوپے گئے افعال شنیعہ کا حوالہ بھی ہے، موسی علیہ السلام کی بیگم اور سالی کا ذکر اللہ نے کیا تو کہا : تمشی علی الاستحیا ۔۔۔ الخ ، داؤد علیہ السلام کا ذکر آیا تو اللہ نے قرآن میں تو صرف بھیڑوں کا ذکر فرما یا لیکن جانے کس نے کب کہاں کیسے بھیڑوں کی جگہ بیگمیں ڈال دیں اور اب مشہور ہے کہ 99 بیگمات تھیں، داوؤد علیہ السلام کی اور 100 کے لئے کسی کی بیگم پر نظر تھی؟؟؟ کیا واقعی یہ امت ہر وہ گناه کرے گی جو پچھلوں نے کیا؟ چناچہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کی بابت حدیث کہ جس کا متن نبی ﷺ کا فدا ہونا ایک شادی شدہ عورت پر اور پھر اس کی طلاق کروا کر اپنے نکاح میں لے آنا ۔ یہ سب کیا ہے؟ یوسف ﷺ کو قرآن نے بری کیا ۔۔ لوگوں نے اسی عورت کے عشق میں مبتلاء ہونا ثابت کیا ۔ جائیے دیکھیں حاشیہ جلالین کا اور سوچیں کہ یوسف تو بری تھے یہ جلالین بھی کیا "اللہ کی شوری” تھے یا صرف روایت کرنے میں غلطی کرگئے یا کسی اور نے بعد میں کچھ اضافہ جدیدہ مفسدہ فرمایا؟ اس تمام سلسلے میں انبیا کو جنس زدہ ثابت کرنا بھی شامل ہے. کیا سب معروف انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ایک بدکردار عورت کا دراتے آنا مشترک نہیں ہے؟ کیا جنسی الزامات کی غلاظت سہنا سب انبیائے کرام کی مشترک وراثت نہیں ہے؟ کسی کو شک ہے تو کسی بھی تفسیر کی کتاب اور توریت و بائبل کے قصے دیکھ لے. سب نبی تو ایک ایک بیوی والے تھے یا چند کی دو دو تھیں ، لہذا اسی تعداد کی نسبت سے ذلیل کیے گئے، جب کہ آقا علیہ ﷺ نے بیش از بیش شادیاں کیں، لہذا آپﷺ کو اسی تعداد کی نسبت سے رگیدا لگایا گیا . کبھی محسوس کیجیے گا کہ کس طرح کا سلوک امت کے مریض دل والے لوگوں نے کیا اور نبی کریم ﷺکے دل پر کیا گزری ہوگی کہ فرمایا کہ میں سب نبیوں سے زیادہ ستایا گیا ہوں. نبیوں کو جنسیت زدہ ثابت کرنا ایک قدیم مائنڈ سیٹ ہے جس نے اس امت میں at the rate of knots سفر کیا ہے. اور ہاں، انبیا کی بیویوں پر بھی یہی پیغمبری الزام لگے ہیں. بیوی ہی سے ایسی باتیں منسوب کر کے یہ گند پھیلایا جاتا ہے ۔ چنانچہ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کو اس چاند ماری کے لیے گویا چن ہی لیا گیا ہے ۔ غور تو کریں ہر ایسی حدیث ام المؤمنین کی نسبت سے بیان کیوں کی گئی؟
(اسی ضمن میں ایک ذاتی بات : جب میں مدرسہ میں طالب علم تھا تو لفظ ” لواطت ” سے چڑتا تھا کہ یہ تو نبی لوط علیہ السلام کے نام کا اشتقاق ہے ۔اسی پر بحث ہوئی تو کسی نے چیلینج کیا کہ اگر تو اتنا ہی مجتہد ہے تو جب تیرا بیٹا پیدا ھوا تو اسکا نام رکھ کر دکھانا ۔ الحمد للہ میرا سب سے بڑا بیٹا اس کا نام لوط ہے اور وہ آج 13 سال کا ہے)۔ مزید موقع ملا تو فرشتوں کو بھی نہ چھوڑا چناچہ ھاروت و ماروت کو زھرہ کے ساتھ مبتلاء کیا گیا اور پھر انھیں بابل میں سزا یافتہ بنا ڈاالا۔ جانتے ہیں کیوں ؟ یہ دو فرشتے جادو کا علم زمین پر لائے اور اس کی نفی بھی کی اور کہا کہ ہم امتحان ہیں ، ہم سے مت سیکھو۔ ارے اللہ کا فرمان تو دیکھو : و یفعلون ما یؤمرون کا اطلاق ہے ملائکہ پر۔ آخر میں منتہائے قول : دین کے علم کا سب سے بڑا ماخذ قرآن ھے , جس بات کے مخالف ہو اس کو بلا کھٹکے رد کرنا ہر دور کی اہم ترین ضرورت ہے اس پر عمل ہو تو تمام دنیا کی امن اور سلامتی اور فساد سے حفاظت کی ضمانت ہے –
واللہ اعلم بالصواب-وما علینا الا البلاغ المبین و الحمد للہ رب العالمین