کیا اللہ بھی گمراہ کرتا ہے؟ از قاری حنیف ڈار
کیا اللہ بھی گمراہ کرتا ہے؟[سبحانک ھذا بہتان عظیم]ملحدین بھی یہ سوال بار بار اٹھاتے ہیں اور جواب دینے والے بھی اقرار سے باز نہیں آتے۔ اللہ اپنی تخلیق کو گمراہ کیوں کرے گا ؟ کیا اللہ پاک کو بہت شوق ھے بندوں کو جھنم میں جلانے کا کہ اگر کوئی گمراہ نہ ھو تو وہ خود آگے بڑھ کر گمراہ کر دیتا ہے ؟ جب اللہ ہی بندے کو گمراہ کرنے پر تُل جائے تو بندے کا تو باپ بھی مزاحمت نہیں کر سکتا۔ بندے کو خود گمراہ کر کے پھر اس گمراھی کا بوجھ بندے پر ڈال کر اس کو جھنم میں پھینک دینا عدل کہلاتا ھے ؟ جس کو چاہتا ھے گمراہ کر دیتا ھے ،جس کو چاہتا ھے ھدایت دے دیتا ھے تو ھدایت پانے والے کا کمال کیا ھے اور بھٹکنے والے کا قصور کیا ہے ؟ سب کچھ توکوئی اور کر رھا ہے ۔ جب اقرار کرتے ھو کہ واقعی خدا ہی گمراہ کرتا ھے تو پھر ملحدین کو مارنے کیوں دوڑتے ھو ؟ خدا کی مشیئت میں مداخلت کیوں کرتے ھو ؟ اس نے ان کو آگ میں جلانے کا ارادہ بہت پہلے سے کر رکھا ھے تو تم گلی گلی اور ملک ملک ان کو جنت میں گھسیٹ لے جانے کے لئے بسترے اٹھائے کیوں پھرتے ھو ؟ اللہ پاک نے گمراہ ھونے اور ھدایت پانے کا ارادہ اور اختیار انسان کو مکمل طور پر سونپ دیا ہے ، اور وہ اس میں بالکل بھی مداخلت نہیں کرتا ،، کافر کی بیوی یا بیٹا ھدایت کی تمنا کرے تو اس کو بھی ھدایت دے دیتا ھے ، ذرا بھی کراہت نہیں کرتا۔ فرعون کی بیوی کی مثال قرآن میں موجود ہے اور خالؓد ابن ولید کے باپ ولید ابن مغیرہ یا ابوحذیفہؓ کے والد عتبہ ابن ربیعہ کی مثال سب کے سامنے ہیں ، جب ھدایت کا ارادہ کیا ھے تو 70صحابہؓ کی شھادت کا سبب بننے والے خالد بن ولید کا ہاتھ بھی پکڑ لیا ۔کسی نبی کی بیوی ،باپ یا بیٹا ، تایا یا چچا گمراھی اختیار کرے تو اس اختیار اور ارادے میں ذرا بھی مداخلت نہیں کرتا اور ان کو گمراہ ھونے دیتا ہے ۔ ابراھیم علیہ السلام کے باپ آذر، نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا ، لوط علیہ السلام کی بیوی ، رسول اللہ ﷺ کے تائے اور چاچے اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اللہ پاک نے نہایت عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا کہ جس کو ھدایت کی طلب نہیں اس کو ھدایت نہیں دے گا اگرچہ اس اصول کی بنیاد پر خود انبیاء کی طرف انگلیاں اٹھنے کے واضح امکانات موجود تھے اور انبیاء کی دعوت داغدار ھو رھی تھی کہ اگر اتنی عقل و فہم والی بات تھی تو ان کے باپ ، بیوی اور بیٹے کی سمجھ میں کیوں نہ آئی ؟ پہلے اپنے بیٹے اور بیوی کو تو مسلمان کر لے ھم بھی ھو جائیں گے وغیرہ وغیرہ مگر اس امکان کے باجود اللہ نے دعوت و تبلیغ کے حق میں بھی ڈنڈی مار کر اولوالعزم رسولوں کے رشتے داروں کو بھی ھدایت نہیں دی ـ
آیات نوٹ فرمائیں
[ وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ( الکہف ۲۹ ) ]
[ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (3)الدھر ]
[ قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ ] ۱۰۷ ـ بنی اسرائیل
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری آیات ہیں جن میں ھدایت یا گمراھی کی مشیئت اللہ پاک نے خود انسان کی طرف منسوب کی ھے لہذا ممکن نہیں کہ پھر وہ گمراھی کو اپنی طرف منسوب فرما کر اپنے کلام میں تضاد کا اظہار فرمائے۔ ان تمام آیات کا ترجمہ کہ جن میں کہا جاتا ھے اللہ ھدایت دیتا ھے جس کو چاھتا ھے اور گمراہ کرتا ھے جس کو چاھتا ہے سرے سے ھی غلط ترجمہ ہے اور جو بات ھمارے دماغ میں گھسی ھوئی ھے اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہیں ۔ اسی لئے اللہ پاک نے قرآن کا اصل ٹیکسٹ قیامت تک محفوظ فرمایا ھے تا کہ امت ترجموں میں ھی گمراہ نہ ھو جائے۔
یضل الله من یشاء ویهدي من یشاء یہ آیت قرآن میں جہاں بھی آئی ھے اس میں مشیئت اللہ کی طرف منسوب نہیں بلکہ بندے کی طرف منسوب ہے ،یعنی ؎ یضل اللہ من یشاء’’ ان یُضل‘‘ و یھدی من یشاء’’ ان یُھدی ‘‘ اللہ گمراہ ھونے دیتا ھے اس کو جو چاہتا ھے کہ بھٹکے اور ھدایت دیتا ھے اس کو جو چاھتا ہے کہ اس کو ھدایت دی جائے ۔ یہاں یُضل اور یُھدی مخذوف ہے۔ اللہ کی طرف گمراھی کی نسبت گستاخی ھے ، شیطان گمراہ کرتا ھے، بندہ گمراھی کا ارادہ کرتا ھے اور اللہ اس کو گمراہ ھونے دیتا ھے یہی اس کی غیرت اور صمدیت کا حق ہے۔ انسان نام کی مخلوق پہلے دن سے یہی مشیئت دے کر ممتاز کی گئی ھے اور اسی اختیار کی وجہ سے اس کی اھمیت ہے، اور اسی اختیار کو مس یوز کرانے کے لئے شیطان اس کے ساتھ ساتھ لگا ھوا ھے جس طرح اگر کسی بچے کو والدین پیسے دے دیں تو مفت خورے اس کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔