کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سمیت "بنواسرائیل” میں سے ہیں۔۔۔؟ از انجینئر عبید فاروقی
افراد امت کے بارے حتمی طور پر ابھی کچھ کہنا یا لکھنا مناسب نہیں کہ تمام کے تمام بنی اسرائیل (قبیلے یا قوم) میں سے ہیں یا نہیں۔۔۔ البتہ محمد نبینا ورسولنا علیہ الصلوة والسلام کے بارے ایسا کچھ کہنا بوجوہ ناممکن ہے۔۔۔ گذشتہ چند دنوں سے دو ویڈیوز (ایک لیکچر اور دوسری مکالماتی گفتگو پر مشتمل) سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں جن میں ایک فاضل مقرر و متکلم نے اپنا اصولی مؤقف بیان کیا ہے جو اس تحریر کی ابتدا میں بطور سوال میں نے رقم کیا ہے۔۔۔ دونوں ویڈیوز میں اس مؤقف کے علاوہ اور بہت سی باتیں کہی گئی ہیں مثلا” الکتاب سے کیا مراد ہے۔۔۔ اور "بنی اسرائیل” ہی تا قیامت افضل و منعم علیھم ہیں وغیرہ۔۔۔
بنو اسرائیل کی ترکیب مع "اسرائیل” کے تعین اور "الکتاب” کے حوالے سے بہت سی تیکنیکی اور اصولی وضاحتوں کی بطور تمہید اگرچہ یہاں بہت اھمیت و ضرورت ہے مگر ان سے صرف نظر کرتے ہوئے براہ راست اوپر دیے گئے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔۔۔ سادہ جواب تو یہی ہے کہ ایسا کہنا بر بنائے حقیقت نہیں۔۔۔ خارج از قرآن میں بھی دلائل (Arguments) بطور تائید و توثیق موجود ہیں جنہیں قرآن نے خود اھمیت دی ہے اور ان سے استنباط کی اجازت بھی ۔۔۔۔ ايتونى بكتاب من قبل ھذا او اثارة من علم إن كنتم صادقين… اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لے آؤ یا علم کی بارگاہ سے کوئی نشان (دلیل) لے آؤ اگر تم (اپنے دعووں میں) سچے ہو۔۔ الاحقاف:4 ۔۔۔
مناسب بلکہ انسب یہی ہے کہ قرآن ہی کو، جو نص قطعی، ناقابل تردید و تنسیخ فیصل اور حاکم ہے، کواختیار کیا جائے پھر اس ضمن میں خود مکتفی ہے اور اعلی و فائق بھی۔۔۔ کہ اس نیر تاباں کے ہوتے ہوئے کسی ٹمٹماتے دیئے کی کیا ضرورت۔۔۔
ملاحظہ فرمائیں اس ضمن میں قرآن حکیم کا لازوال و لم یزل بیان۔۔۔ سیدنا و ابینا ابراھیم سلام اللہ علیہ جب کعبہ مکرمہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو انکے ساتھ صرف انکے فرزند ارجمند سیدنا اسمعیل سلام اللہ علیہ بطور معاون تھے۔۔۔ یاد رھے یہ سب کچھ "بنو اسرائیل” کو باور کروانے کیلئے کہا جا رہا ہے جو اپنے (سے) علاوہ کسی کو رسول تسلیم کرنے کیلئے ہر گز تیار نہ تھے اس مکمل صورت حال کا ما قبل آیات میں تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ اس رکوع کا آغاز بھی "یابنی اسرائیل” کے خطابی اسلوب سے ہو رہا ہے:
واذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت واسمعیل ربنا تقبل منا انك انت السمیع العلیم۔۔۔ اور یاد کرو جب ابراھیم اور اسمعیل (سلام اللہ علیھما) گھر (البیت الحرام) کی بنیادیں اٹھاتے (جاتے) تھے (تو التجا کرتے جاتے تھے) اے ھمارے رب! ھم سے (اس کاوش کو) قبول فرما بیشک تو سمیع علیم (خوب سننے جاننے والا) ہے۔۔
اور ساتھ ساتھ رب کی بارگاہ میں یہ دعا بھی کرتے جا رہے تھے۔۔۔۔ ربنا واجعلنا مسلمین لك ومن ذریتنا أمة مسلمة لك وارنا مناسكنا وتب علينا انك انت التواب الرحيم… اے ھمارے رب! ھم دونوں کو اپنا (ھی) مسلم (اطاعت کیش و تابع فرماں) بنائے رکھنا اور ھمیں، ھمارے مناسک (حج اور طور طریق حیات) کے حوالے سے رھنمائی فرماتے رھنا اور ھم پر رحمت (و شفقت) سے توجہ کئے رکھنا بلاشبہ تو بھرپور رحمت (و شفقت) سے توجہ فرمانے والا، رحم کرنے والا ہے۔۔۔ البقرہ:127،128۔۔۔۔
دعائے خلیل و ذبیح (سلام اللہ علیھما) میں خصوصی توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ…. "ھماری ذریت” سے ایک "امة مسلمة” بنائے رکھنا۔۔.. "ذریتنا” کی نسبت یہاں صرف اور صرف دو مسلموں (مسلمین۔۔۔ میم کی فتح یعنی زبر اور یاء کے سکون یعنی جزم کے ساتھ۔۔۔جو نصبا” تثنیہ ہے) سے بیان ہوئی ہے اس میں کوئی تیسرا فرد شامل نہیں تو یہ بات طے ہو گئی کہ اس مقام مکرم و محترم (البیت الحرام) سے جس "ذریت” کی مناسک (حج و حیات) کے لئے تربیت و تعمیر کا آغاز ہوا اس کا تعلق، توالد و تناسل کے اعتبار سے صرف ان دو حضرات گرامی و نامی سے ہوا۔۔۔ سیدنا ابراھیم سلام اللہ علیہ سے سیدنا اسمعیل سلام اللہ علیہ کی ولادت با سعادت ہوئی اور آگے وہ "ذریت” جس کا مقام بود و باش وادئ غیر ذی زرع (زراعت کے بغیر وادی) ، جہاں کعبةاللہ ہے، میں ہوا۔۔۔۔۔۔ "ذریت” کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کا تعلق نسلا” اس شخص سے استوار رھتا ہے جہاں سے ابتدا ہوئی۔.۔ یعنی باپ سے بیٹا پھر اس بیٹے سے بیٹا اور یوں تا لمحہ ھذا۔۔۔ اور آگے بھی۔۔۔تولیدی و نسلی اعتبار سے کڑی سے کڑی جڑی رہے گی۔۔۔ وادئ غیر ذی زرع میں بیت اللہ کی تعمیر کے وقت سے جو نسل منصہ شھود پر آئی وہ "ذریت اسمعیل” تھی اور اس لحاظ سے "بنو اسمعیل”۔۔۔۔۔ کہنے کو تو انہیں "بنو ابراھیم” بھی کہہ سکتے ہیں۔.. "ذریت ابراھیم” تو ہیں ہی مگر یہ تخصیص کیونکر ممکن ہوگی کہ ابراھیم سلام اللہ علیہ کی اولاد میں کس بیٹے سے۔۔۔۔؟ اس مقام پر طے ہو گیا کہ بیت اللہ کے ارد گرد تعمیر کے وقت سے جس "ذریت” کا آغاز ہوا وہ "ذریت اسمعیل” کہلائی۔۔۔۔ گویا "بنو اسمعیل”۔۔۔ کردار و گفتار میں عظیم ان نابغہ ھستیوں کے اگلے دعائیہ کلمات ملاحظہ فرمائیں جو تا قیام قیامت اور بعد ازاں (بھی) سفینوں اور افراد امت (حفاظ) کے سینوں میں محفوظ رہیں گے:
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتك ويعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم انك انت العزيز الحكيم… اے ھمارے رب! اس ( ھماری ذریت) میں، انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور ان کو کتاب و حکمت سکھائے اور (اسکے ذریعے) انکا تزکیہ کرے کچھ شک نہیں تو غالب حکمت والا ہے۔ البقرہ:129
ناظرین محترم! اس دعائیہ اپیل و التجا کے استجاب و قبولیت کے نتیجے میں کون سی واحد و وحید اور کائناتی و آفاقی ھستی (رسولا”) کا تولد مسعود و ظہور محمود ہوا۔۔۔ اور کس ھستی کی "ذریت” سے ۔۔۔ جس کی "ذریت” سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی وہ نادر روزگار اور وحدت الہ کی علمبردار شخصیت، سیدنا اسمعیل سلام اللہ علیہ کے نام گرامی سے معنون و معروف ہے اور قرآن مجید اس پر شاھد ہے۔۔۔ اس لحاظ سے اگر کہا جائے، اور جیسا کہ مشہور و معلوم عام ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبا”و نسلا” تعلق "بنو اسمعیل” سے یے، کیا مبنی بر حقیقت نہ ہوگا۔۔۔۔! اب اگر کوئی "دانشور” دوست یہ دعوی کرے کہ خود سیدنا اسمعیل سلام اللہ علیہ اپنے والد گرامی (سلام اللہ علیہ) سمیت "بنی اسرائیل” میں سے ہیں یا یہ کہ قرآن میں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے "بنی اسمعیل” میں سے ہونے کا ذکر نہیں تو پھر
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!!
کیا قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا "بنی اسرائیل” میں سے ہونے کا صریحا” ذکر ہے۔۔۔!!
"بنو اسرائیل” ہی کو تو خطاب کرکے ان کے بزرگوں کی دعاؤں اور تمناؤں کی انہیں یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ جس ھستی کی بعثت و آمد پر تم سیخ پا ہوئے جا رہے ہو اس بارے تمہارے آباء و اجداد اپنے رب کے حضور کسطرح عجز و انکساری سے دعائیں مانگ رہے تھے اور اپنے وقت پر انکی بعثت کے کس شدت سے درخواست گذار اور طلبگار تھے۔۔۔ تو گویا ابراھیم و اسمعیل سلام اللہ علیھما اسلاف (Predecessors) ہیں اور "بنو اسرائیل”اخلاف”(Descendants) ہیں۔۔۔
اس پر مستزاد یہ کہ فاضل متکلم سے یہ بھی طے نہ ہو پایا کہ "اسرائیل” ہے کون۔۔۔ کس شخص یا جگہ کی نسبت سے یہ عنوان قرار پایا۔۔۔ کچھ تو تعین ہو تاکہ "بنی”(children۔۔۔ جو درحقیقت "ابن” کی جمع "بنون” ہوکر "بنین” بنا پھر حرف ندا "یا” اور ترکیب اضافی کے باعث "بنی” ہوا) کی نسبت (مضاف) اپنے مضاف الیہ (اسرائیل) سے طے ہو سکے ۔۔۔
اس سے اگلی اہم بات یہ بھی ہے کہ "وادی غیر ذی زرع” اور کعبہ کے قرب و جوار میں ہونے والی یہ آبادی "امیون” کہلائی اور انہی میں سے محسن انسانیت، نبینا و رسولنا ختم المرسلین علیہ الصلوة والتسلیم کی بعثت مبارکہ ہوئی۔۔۔ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وأن كانوا من قبل لفی ضلل مبين… وہی (اللہ ہی تو) ہے جس نے "امیوں” میں، انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔۔۔ جو ان پر اسکی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔۔۔ یقینا” وہ (امیون) اس سے قبل صریحا” ضلال (بے خبری) میں تھے۔۔۔الجمعہ:2
ان "امیوں” میں مبعوث رسول کریم عليه الصلوة والسلام بارے قرآن حکیم نے بتایا کہ:
وماکنت تتلوا من قبله من كتاب ولا تخطه بيمينك إذا لارتاب المبطلون…. (اے رسول!) آپ اس سے پہلے کسی کتاب کی تلاوت نہیں کرتے تھے نہ ہی اس (قسم کی کسی چیز) کو ضبط تحریر میں لاتے تھے مبادا (اسے) باطل کہنے والے شک میں پڑنے لگیں۔۔۔العنكبوت:48…. مزید صراحت یوں فرمائی:
وکذالك اوحينا اليك روحا”من أمرنا… ماكنت تدرى ما الكتاب ولا الايمان… اسی (سابقہ طریق ہائے وحی میں سے ایک کی) طرح ھم نے آپکی طرف (بھی) اپنے امر سے وحی کی۔۔۔ (حالانکہ) آپ "الکتاب” (فی ذاتہ) سے متعلق واقف تھے نہ ہی (اس پر) ایمان کی بابت آگاہ ۔۔۔ الشوری:52
ان محولہ آیات کی روشنی میں واضح ہے کہ جب آپ وحی شدہ کسی منزل کتاب (revealed book) سے آگاہ نہ تھے تو آپ (علیہ الصلوة والسلام) اور آپکے”امی” (Ummi) متبعین کا "بنو اسرائیل” میں سے ہونے کا دعوی کیسے درست مان لیا جائے ۔۔۔ جبکہ بنو اسرائیل کے انبیاء و رسل (علیھم السلام) پر اپنے اپنے وقت اور مقام پر نازل شدہ کتب اور صحائف کی کثرت تھی۔۔۔۔ قرآن کے مطابق آپ ان کا مطالعہ کرتے تھے نہ ہی ان سے آگاہ تھے۔۔۔ کیونکر باور کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسرائیل میں سے تھے۔۔۔ محولہ آیات اور مذکورہ وضاحت سے یہ امر بھی عیاں ہے کہ "الکتاب” سے مراد وہ کتاب نہیں جو سابقہ انبیاء (بشمول سیدنا موسی سلام اللہ علیہ) پر نازل ہوئیں۔۔۔ خاتم المرسلین محمد نبینا و رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کی اپنی جداگانہ حیثیت و اھمیت ہے سابقہ کتب کے بر عکس اس کا اپنا جلی عنوان۔۔۔ "القرآن الحکیم والمجید”۔۔۔ ہے۔۔۔ یہ ھدی اللناس۔۔۔بیان اللناس۔۔۔ ذکراللعالمین ۔۔۔شفاءاللناس ہے۔۔۔ جس کا مھبط قلب محمد (علیہ الصلوة والسلام)، جو بشیر و نذیر ہونے کے ناطے کافة اللناس۔۔۔ رحمةاللعالمين۔۔۔ اور رھتی دنیا تک "انی رسول اللہ الیکم جمیعا” کا بلا شرکت غیرے۔۔۔ یکتا و تنہا۔۔۔ اور۔۔۔ حقیقی و اصلی مصداق ہے۔۔۔ آفاق و انفس کے اس کائناتی پیمبر کی ذات اقدس و اطہر پر نازل ہونے والی کتاب "القران الکریم بلسان عربی مبین” ہی اب ھدایت کا اکلوتا منبع و مرجع اور مآخذ و مرکز ہے ۔۔۔۔۔علاوہ ازیں حوالے (references) تو ہو سکتے ہیں قرآن کریم کی طرح کے "متن” (Text) ہر گز نہیں۔۔۔ فلا اقسم بمواقع النجوم ۔۔۔ وانه لقسم لو تعلمون عظيم … انه لقرآن کریم ۔۔۔ ایسا نہیں۔۔۔ مواقع النجوم کی قسم (بطور شہادت و وثاقت) ہے اگر تم سمجھو تو یہ بہت عظیم (بھاری) قسم ہے (کہ) یقینا” یہ قرآن، کریم (تکریم و کرامت والا اور اصلح و انفع) ہے ۔۔۔ فلھذا۔۔۔ ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم۔۔۔ اب ھدایت و رھنمائی کے بھکاری اپنا کشکول طلب اسی دربار کی چوکھٹ پر بڑھائیں گے تو انفرادی سطح پر راھئ صراط استقامت اور اجتماعی طور پر ھادئ اقوام اور شہنشاہ عالم کا مقام پاکر فائزالمرام ہوسکتے ہیں۔۔۔
سابقہ انبیاء علیھم السلام کا مقام و مرتبہ ہر لحاظ بلند و بالا اور واجب الایمان والایقان۔۔۔ مگر ۔۔۔ وہ۔۔۔ رسولنا ونبینا محمد خاتم المعصومین والنبیین صلی اللہ علیہ وعلی ازواجہ الطاھرات و اصحابہ وآلہ اجمعین وبارک والتسلیم کی طرح آفاقی و کائناتی نہیں ۔۔۔ آپ علیہ الصلوة والسلام پر نازل ہونے والی کتاب "القرآن الکریم” ہی کی بدولت ان سابقہ کتب مع کتاب موسی (سلام اللہ علیہ) کی بایں طور تصدیق ہوئی کہ اپنے اپنے ادوار میں ان کا حقیقی و اصلی وجود تھا۔۔۔ ان کتب کی جملہ اساسی تعلیمات کا رھتی انسانیت تک اب قرآن ہی محافظ و "مہیمن” ہے۔۔۔.المائدہ:48 ۔۔۔۔
ان کے علاوہ اور بھی ایسے نکات قابل گفتگو ہیں مثلا” ۔۔۔ "۔۔۔ صراط الذین انعمت علیھم” اور "یابنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم۔۔۔” میں تصریف آیات کے تحت انعام یافتہ قوموں/افراد کے حوالے سے تطبیق ۔۔۔۔۔۔اور بائیبل میں سیدنا یعقوب سلام اللہ علیہ کو "اسرائیل” کا لقب دینا وغیرہ ۔۔۔ ان امور کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔۔۔
مذکورہ توضیحات سے کسی دوست کی تضحیک یا اہانت مقصود نہیں اور نہ ہی اپنی انا کی تسکین۔۔۔ چونکہ کافی عرصے سے یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر آرہی تھیں مجھے انتظار تھا کوئی فاضل و محقق دوست سنجیدگی سے ان پر اظہار خیال فرمائے گا تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔۔۔ الا ماشاءاللہ۔۔۔ میرے ایک کرم فرما دوست نے انگریزی میں اجمالا” تبصرہ فرمایا ہے اور انکے برخوردار کا بھی منجملہ اس حوالے سے اظہار خیال ہوا۔۔۔ اللہم اجرھما اجرا” کبیرا۔۔۔۔۔ قرآن حکیم سے جو اخذ کر پایا ہوں، قرآنی حدود میں ہی رھتے ہوئے بلا کم و کاست میں نےعرض کر دیا ہے اس میں یقینا” سہو و خطا کا امکان ہے جس کے لئے ہر لمحہ اپنی اصلاح کا طلب گار ہوں۔۔۔ مگر بحث برائے بحث نہیں۔۔۔ اسطرح کے جدل سے پیشگی معذرت۔۔۔ وما توفیقی الا باللہ۔۔۔علیه توکلت والیه انیب۔۔ اللهم ارنا الحق الیقین۔۔ واھدنا الصراط المستقیم۔۔۔ نستغفرک ونتوب الیک۔۔۔۔
انجینئر عبید فاروقی