کیا میزان بینک سے قرض لے کر گھر بنانا جائز ہے؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے صرف علماء کرام سے فتویٰ لے لینا کافی ہے اور خود اس معاملے کی تحقیق ہم پر فرض نہیں ہے بلکہ جیسے علماء کرام بتائیں ویسے کر لینا چاہیے ، کیونکہ وہ فتویٰ غلط بھی ہوا تو اس کا وبال ہم پر نہیں بلکہ علماء کرام پر ہو گا تو یہ پوسٹ آپ کے لیے نہیں ہے۔ کیونکہ علماء کرام اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ یہ پوسٹ ان کے لیے ہے جو دل کے مکمل مطمئن ہونے کے بعد ہی اس طرح کے فتووں پر عمل کرتے ہیں۔ یہ میری ذاتی تحقیق کے نتائج ہیں جو غلط بھی ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے دنوں احباب نے میزان بینک سے قرض لے کر گھر بنانے کا مشورہ دیا تو اس بارے معلومات لینے کا سوچا۔ علماء کرام سے رابطہ کیا تو دونوں طرح کی آراء ملیں۔ جہاں کچھ علماء اس کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں وہاں ایک بڑی تعداد اس سے دور رہنے کا بھی مشورہ دیتی ہے۔ اس کے بعد دینی اور دنیاوی لحاظ سے اسے دیکھا ، تو دونوں لحاظ سے اسے لکھوں گا۔
سب سے پہلی چیز یہ کہ آپ کسی بھی بینک سے قرضہ لیں تو آپ کو سود/کرایہ /منافع کی رقم ایک جتنی ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔ پچاس لاکھ اگر آپ دس سال کے لیے قرض پر لیں تو تقریباً واپس آپ کو 82 لاکھ کرنے ہونگے یعنی اصل رقم پر تقریباً 64 فیصد۔ جہاں عام بینک سیدھا سیدھا سود لیتا ہے وہیں میزان بینک اس رقم کو کرائے کی مد میں لیتا ہے۔ میزان بینک کا اصول یہ ہے کہ بینک اور قرض لینے والا مل کر ایک چیز میں سرمایہ لگا رہے ہیں، اس لیے بینک اس مکان کا آپ سے کرایہ لے گا۔ اگر آپ دس سال کےلیے لے رہے ہیں تو مکان کے 99 حصے ہونگے، اکیس مہینے تک آپ بینک کو کرایہ دیں گے لیکن قسط نہیں۔ اکیس مہینوں کے بعد آپ ہر مہینے ایک حصہ خریدیں گے، اور ساتھ میں کرایہ بھی دیں گے۔ جیسے جیسے آپ حصے خریدتے جائیں گے آپ کا کرایہ کم ہوتا جائے گا۔ اگر آپ یکمشت سارے حصے خرید لیں تو آپ کا کرایہ ختم ہو جائے گا۔ ایسے دیکھیں تو بڑا سادہ سا اصول لگتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کرائے کے مکان میں رہ رہے ہوں۔ ان کو یہ لگتا ہے کہ ویسے بھی تو کرایہ دے رہے ہیں تو اس طرح دس سال کے بعد مکان تو اپنا ہو جائے گا بلکہ شروع سے ہی اپنا ہو جائے گا اور جتنے پیسے بینک کو دینے ہیں اتنی تو پراپرٹی کی قیمت ہی بڑھ جائے گی دس سال میں۔ اس لیے بظاہر یہ بہت پرکشش آفر لگتی ہے۔
تو پھر مسئلہ کہاں ہے۔
پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر آپ کی قسط کسی مہینے لیٹ جائے یا خدانخواستہ کسی ناگہانی آفت جیسے نوکری چھوٹ جانے یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قسط دینے کے قابل نہ رہیں تو بینک صدقہ جبریہ کے نام پر جرمانہ لگانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ رہنے والی رقم کا بیس فیصد تک ہوتا ہے جو کہ ایک بہت بڑی رقم بنتی ہے اور یہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ بینک کہتا ہے کہ یہ رقم صارف سے لے کر وہ صدقہ کر دیتا ہے، لیکن ایک بندہ قسط ادا کرنے کے بھی قابل نہیں ہے تو پھر اس سے زبردستی کا صدقہ لینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اگر قسط لیٹ ہونے کی صورت میں بینک کوئی جرمانہ نہ لگائے تو بینک کرایہ وصول کرتا رہے تو بھی اس کا جائز منافع بڑھتا رہے گا جو کہ جائز بھی ہوگا لیکن یہ شرط ایسی ہے جو روایتی بینکوں کے سود کے طریقہ کار کی طرز پر لگائی گئی ہے تاکہ لوگ وقت پر قرض ادا کریں۔ یہ پہلی چیزہے جو اس کو جائز نہیں رہنے دیتی بلکہ سود کی ہی شکل میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یاد رہے کہ پچاس لاکھ قرض لینے کی صورت میں اکیس مہینوں کے بعد ماہانہ قسط ایک لاکھ کے قریب ہوگی جو آہستہ آہستہ کم ہوتی جائے گی۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ ماہانہ قسط کی رقم سے زیادہ بینک کو دینا چاہیں تو بینک آپ سے اضافی رقم پر تین فیصد وصول کرتا ہے۔ یعنی اگر آپ ایک لاکھ اضافی دیتے ہیں تو بینک اس کو ستانوے ہزار شمار کرے گا اور تین ہزار اپنا منافع رکھ لے گا کیونکہ آپ کا قرض جلد ختم ہونے سے بینک کا کرایہ جلدی ختم ہونے کی وجہ سے بینک کا نقصان ہوگا۔ بینک اس کی یہ وضاحت دیتا ہے کہ چونکہ وقت کے ساتھ زمین کی قیمت بڑھتی ہے اس لیے بینک جلدی خریدنے پر تین فیصد لیتا ہے۔ جب اس کا میں نے پوچھا کہ اگر کسی بھی وجہ سے وہاں زمین کی قیمت کم ہوجائے تو کیا بینک تین فیصد صارف کو فائدہ دے گا تو جواب ملا کہ نہیں۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی زلزلہ یاسیلاب یا کسی اور وجہ سے مکان کو نقصان پہنچتا ہے یا گر جاتا ہے تو پھر آپ کو تکافل یا انشورنس کی صورت میں ہی پیسے ملیں گے۔ نقصان کی صورت میں بینک ذمہ دار نہیں ہوگا۔
چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ بینک جیسے ہی پیسے دے گا اس کا کرایہ شروع ہو جائے گا۔ اگرچہ قرضے کی قسط اکیس ماہ کے بعد واپس کرنی ہوگی۔ یعنی یہاں یہ تو سوچا جا رہا کہ کچھ وقت مکان کی تعمیر میں لگے گا لیکن کرایہ پہلی اینٹ لگنے سے بھی پہلے لے رہے۔ جس سے بات بالکل واضح ہو جاتی کہ یہاں کرایہ مکان کا نہیں بلکہ پیسوں کا لیا جارہا ہے جو بینک نے دیے ہیں۔
ان سب چیزوں کو دیکھیں تو اس شراکت داری میں بینک کا رتی برابر بھی نقصان نہیں ہے۔ جو صرف اور صرف سود کے معاملے میں ہی ممکن ہوتا ہے ورنہ کسی بھی دوسرے شراکت والے معاملے میں نہیں ہوتا۔ یہ چیز بالکل ہی واضح کر دیتی ہے کہ میزان بینک نے اپنی کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ سٹیٹ بینک کی سود والی پالیسی کو ہی بس اسلامی نام دے کر حلال کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ اس کو اسلامی بنانے کے لیے جوحقوق چھوڑنے پڑتے تھے وہ بینک نے نہیں چھوڑے۔ جو علماء کرام اس کو جائز قرار دیتے ہیں انھیں ان معاملات پر ضرور غور کرنا چاہیے نہ کہ اس کے لیے اصلاحات اور حیلے تلاش کر کے دیتے پھریں۔
نوٹ: یہ میری ذاتی رائے ہے اور کوئی فتویٰ نہیں ہے۔ فتوے علماءکرام پہلے ہی دے چکے ہیں۔ جنہوں نے فتووں پر عمل کرنا ہے وہ ان کے جواز کے مطابق لے لیں۔ اگر کوئی بات اس میں درست نہیں لکھی تو اس کی اصلاح کی گزارش ہے۔ یہ پوسٹ صرف گھر کے لیے قرض لینے کے بارے لکھی گئی ہے۔ باقی معاملات میں بینک سے قرض لینے کی کیا صورتیں ہیں ، غلط ہیں یا صحیح ، ان کے بارے مجھے نہیں معلوم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹرعدنان نیازی
۔۔۔۔۔۔
اس موضوع پر اکثر لوگ اس لئے بھی آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ "حضرت مفتی تقی عثمانی” کی برانڈ اس کی پشت پر ہے۔
مفتی صاحب کے علمی قد کے آگے عامی تو ڈھیر ہیں ہی، لیکن ہمارے اچھے خاصے علم رکھنے والے علمائے کرام بھی بالکل چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں، گویا مفتی صاحب کے علم کی چمکے سے ان کی آنکھیں ایسی خیرہ ہوئی ہیں کہ اب کچھ اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔کسی بھی قسم کی تنقید "کبیرہ گنا” سمجھی جاتی ہے۔
کیا مفتی صاحب اور اسلام میں کوئی فرق باقی رہ گیا ہے؟
سودی بینک کاری کو اسلامی قرار دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
تبصرہ: Usman EM