ھمارا علمی ماضی ،،،، از قاضی حنیف ڈار
جناب ختم الرسل کی ذاتِ اقدس تمام اختیارات کا منبع تھی اور آپ اپنی ذات میں ھمہ جہتی پہلو رکھتے تھے ،، آپ ھی اللہ کے رسول ﷺ تھے تو آپ ھی حاکمِ اعلی تھے ، آپ ھی معلم تھے تو آپ ھی چیف جسٹس ،، آپ ھی ریاست کے سربراہ تھے تو آپ ھی عدلیہ کے سربراہ بھی تھے ،آپ ھی اسپیکر تھے اور آپ ھی وزیرِ داخلہ وخارجہ ،، آپ ھی فوج کے سربراہ بھی تھے اور آپ ھی وزیرِ دفاع بھی تھے ،،
آپ کے خلیفہ کو رسالت و نبوت کے سوا تمام اختیارات منتقل ھو گئے اور وہ شوری کے مشورے کے ساتھ اپنے ان تمام اختیارات کو استعمال کرتے تھے ،حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کسی بھی اختیار کو منتقل نہیں کیا گیا آخری فیصلہ ھر حال میں انہی کا ھوتا تھا اگرچہ وہ انتظامی ھو فوجی ھو ، یا سیاسی اور عدالتی ،، اگر کسی معاملے میں تنازعہ پیدا ھوا تو فریق ایک دوسرے کو حق دیتے کہ وہ کسی کو منصف یا ثالث مقرر کرے ،، پھر وہ اس ثالث کے فیصلے کے پابند ھو جاتے چونکہ لوگ مخلص اور خدا خوف ھوتے تھے لہذا نہ کوئی جانبدارانہ فیصلہ کرتا تھا اور نہ ھی کوئی اعتراض کرتا تھا یہانتک کہ اگر کسی کو خلیفہ سے شکایت ھوتی تو اسے بھی یہ اختیار دیا جاتا کہ وہ منصف یا ثالث کا نام تجویز کرے ،، اور پھر دونوں فریق اس ثالث کے فیصلے کو بغیر کسی اپیل کے قبول بھی کرتے اور نافذ بھی کرتے ،یہ تھا گھر گھر انصاف اور بغیر خرچ کے انصاف اور بغیر وقت ضائع کیئے فوری انصاف ،، اگر لوگ خدا ترس ھوں تو اس سے بڑھ کر بہتریں نظام عدل ممکن ھی نہیں ،، یہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کا تربیت یافتہ معاشرہ تھا جس کا ھرشخص اس حد تک متقی تھا کہ وہ ھر ذمہ داری کا اھل تھا ،اسے فوری طور پہ جج بن کر فیصلہ کرنا پڑتا تو کھیت و کھلیان کی منڈیر پر عدالت لگ جاتی اور وھیں بیٹھے بیٹھے فیصلہ اپنے تمام مراحل طے کر کے نافذ ھو جاتا ،،،
عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے محکمہ جاتی کام شروع کیا اور مختلف محکمے بنائے اور ان کے سربراہ مقرر فرمائے مگر آخری فیصلہ بہرحال آپ کا ھی ھوتا ،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دور بھی کچھ اسی طرح تھا ،، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں معاملہ کچھ یوں ھوا کہ خود آپ کو تو اپنی خلافت کی ساری مدت مخالفین سے برسرِ پیکار رھنا پڑا اور نظم نسق سے متعلق آپ کوئی مزید بہتری نہ لا سکے ،حالانکہ آپ جامع الصفات شخصیت تھے ،، علم آپ کی ذات کے گرد طواف کرتا تھا ، آپ نہ صرف گفتار پہ عبور رکھتے تھے بلکہ نکتہ سنجی میں بھی آپ کا ثانی نہیں پایا جاتا تھا ،آپ نہایت باریک بین شخصیت تھے ، فوراً مسئلے کی گیرائی و کہرائی کو پا لیتے تھے ،، اگر آپ کو اپنی صلاحیتیں مکمل طور پر بروئے کار لانے کا موقع دیا جاتا تو اس امت کا حال کچھ اور ھوتا ،،
جب حکمرانوں نے سیاست بلا دین شروع کی اور اپنے مخالفین کو بے دردی سے قتل کرایا تو اھل علم جو نبی کریم ﷺ کی علمی وراثت کے حامل تھے انہوں نے جان لیا کہ ان کا اصلی کام کیا ھے ، انہیں اس علمی وراثت کا جھنڈا اٹھانا تھا اور بس اسی ذمہ داری کو اپی سعی و جہد کا محور بنانا تھا ،وہ جان گئے تھے کہ حکومت کی بات کرنا آبیل مجھے مار کی دعوت دینا ھے ،نیک و یا بد اب حکومت مخصوص گھرانوں تک محدود ھو گئ ھے ، نواسہ رسولﷺ جناب امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت نے ثابت کر دیا تھا کہ حکومت کی طرف آنکھ اٹھانے والوں کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا چاھے ان کا سماجی و دینی مرتبہ کچھ بھی ھو ،، جو پیغام قاتلینِ امام عالی مقام دینا چاھتے تھے اس پیغام کو اھل علم نے ٹھیک طور پر وصول کیا اور اس بلا سے اپنے آپ کو الگ کر لیا جو لوگوں کے بچے کھا جاتی تھی،،
آج تک اھلِ علم نے اسی پالیسی کو دانتوں سے پکڑا ھوا ھے ،آج ھم ان کو یہ الزام تو دیتے ھیں کہ وہ آگے بڑھ کر خلافت کو قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ،حکومتی اقدامات کی مذمت کیوں نہیں کرتے ،،مگر حقیقت یہی ھے کہ جب تک وہ حکومت اور حکومتی معاملات سے الگ ھیں تب تک ھی محفوظ ھیں ،، علمی وراثت کو لے کر چلنے والے ھمارےائمہ حضرات نے حکومت کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا اور اس کے ساتھ جُڑے مظالم کی وجہ سے اس سے حرمت کے درجے تک کی نفرت کی ، انہوں نے کبھی بھی اپنے لاکھوں معتقدین کو لے کر حکومت کے لئے مہم جوئی نہیں کی ، وہ جانتے تھے کہ لوگ حکومت کی وجہ سے دین پر عمل نہیں کرتے بلکہ کسی تقدس کے جذبے کے تحت ھی حقیقی عمل اور قلبی اطاعت کے لئے تیار ھوتے ھیں ،انہوں نے اپنی ذات کے ساتھ جڑے تقدس کو لوگوں کو دین کی طرف متوجہ کرنے میں تو ضرور استعمال کیا مگر اس جذبےکا استحصال کرتے ھوئے لوگوں کو حکومتوں سے ٹکرانے کے لئے استعمال نہیں کیا ،،
دوسری جانب انہی عظیم ھستیوں نے کہ جو نبی ﷺ کے حقیقی وارث تھے ، حکمرانوں کی وحشت و بربریت کے باوجود انہیں علمی معاملات میں مداخلت کرنے کی قطعی اجازت نہیں دی اور خم ٹھونک کر ان کے سامنے ڈٹ گئے ،ھر ظلم کا مقابلہ کیا کوڑے کھائے ،قید کاٹی ، بھوک اور افلاس کا مقابلہ کیا مگر حکومتی رائے کو دین میں مداخلت کی اجازت نہیں دی ، یوں یہ سلطنت اس طرح تقسیم ھوئی کہ لوگوں کے ظاھر پر تو اموی و عباسی حاکم تھے مگر ان کے باطن پر ائمہ عظام کی حکومت تھی ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ سب کو معلوم ھے کہ عباسی خلیفہ ابوجعفر المنصور العباسی کو جب کچھ لوگوں نے مشورہ دیا جن میں مدینے کا گورنر جعفر بن سلیمان آگے آگے تھا کہ وہ لوگوں کی بار بار کی عہد شکنی کا علاج اس طرح کریں کہ آئندہ ان سے تین طلاق پر بیعت لیں ،، کہ اگر ھم امیر کی حکم عدولی کریں یا اس کے خلاف کسی محاذ میں شامل ھوں تو ھماری بیویوں کو تین طلاق ،،، یہ بیعت تلوار کی نوک پر لی گئ جس میں اھل مدینہ بھی شامل تھے یا تو یہ بیعت لو یا باغی قرار دے کر مار دیا جائے گا ، یوں لوگوں نے خوف و ھراس کے عالم میں یہ بیعت لے لی ،،، بیعت دینے کے بعد لوگوں نے امام مالک سے طلاق کا مسئلہ پوچھا کہ کیا جبر اور زور زبردستی کی طلاق لاگو ھو جاتی ھیں ، آپ نے فرمایا کہ جبری طلاق طلاق نہیں ھے ،، طلاق وھی ھے جو برضا و رغبت دی جائے ،کسی کے مجبور کرنے پہ طلاق دینے والے کی کوئی طلاق نہیں ،،
لوگوں نے خلیفہ وقت کو بھڑکایا کہ امام مالک یہ فتوی دے کر لوگوں کو آپ کی بیعت سے آزاد کر رھے ھیں ،، خلیفہ وقت نے گورنر مدینہ کے ذریعے آپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنا فتوی تبدیل کر دیں مگر امام مالک نے مزاحمت کی اور صاف جواب دے دیا کہ جو شریعت کا حکم ھے وھی بیان کرونگا چاھے کچھ بھی ھو جائے ،،، آخر اقتدار اپنی اصلیت پہ اترآیا ،، مدینے جس محلے میں امام مالک کا گھر تھا اس محلے والوں سے کہا گیا کہ وہ رفع حاجت اپنے گھروں میں کریں اور اسے اٹھا کر فلاں جگہ پہنچا دیا جائے یوں گندگی کا ڈھیر جمع ھو گیا ،، دو پہلوانوں کے ذریعے امام مالک کے کندھے کھنچوا کر جوڑوں سے نکال دیئے اور امام صاحب کے دونوں بازو اطراف میں لٹک گئے ،، اس کے بعد آپ گو گدھے پر بٹھایا گیا اور آپ کے بدن پر گندگی ملنا شروع کی گئ ،،جب گندگی ملنے والا داڑھی تک پہنچا تو امام صاحب کے آنسو نکل آئے مگر انہوں نے سنت رسول کو بھی نہ بخشا اور امام کا پورا چہرہ اس طرح گندگی سے لتھڑ دیا کہ آپ چہرے سے پہچانے نہیں جاتے تھے ، اس کے بعد آپ کو مدینے کا گشت کرانا شروع کیا گیا،، آپ جس گلی سے گزرتے تو بلند آواز سے فرماتے ،،” جو مجھے پہچان گیا ھے وہ تو جان گیا ھے مگر جس نے مجھے نہیں پہچانا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ھوں اور میرا فتوی اب بھی یہی ھے کہ جبر کی طلاق لاگو نہیں ھوتی ،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ھے کہ میری امت اس کام کی پابند نہیں جو اس سے جبر کے ذریعے کروایا جائے یعنی رفع عن امتی ثلاث ،میری امت پر سے تین چیزوں پر گرفت ھٹا دی گئ ھے ،، الخطا والنسیان وما استکرھوا علیہ ، غلطی سے ھو جائے یا بھول چوک جائے یا جس پر کوئی مجبور کیا جائے ،،،، آخر خلیفہ وقت کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی،،
حاکمِ وقت کے کان میں کسی نے پھونک دیا کہ قرآن مخلوق ھے ،،، یہ فتنہ عباسی خلیفہ مامون کے دور میں اٹھا اور مسلسل تین حکمرانوں (،مامون، معتصم اور واثق ) کے ادوار میں شدت سے جاری رھا پھر اور متوکل کے زمانے میں اپنے انجام کو پہنچا ،،عیسائی حکمرانوں کی طرح اانہوں نے جبر سے اس عقیدے کو عوام الناس پہ ٹھونسنے کی کوشش کی مگر لوگ جب بھی علماء کی طرف رجوع کرتے تو وھاں سے یہی فتوی جاری کیا جاتا کہ قرآن اللہ کا کلام ھے ،، اس کی مخلوق نہیں جتنا بڑا عالم ھوتا اس کے فتوے کا اثر زیادہ لوگوں پہ ھوتا ،امام احمد (164ھ-241ھ ) کو ایک دنیا پہچانتی تھی لہذا کوشش کی گئ کہ ان سے اس عقیدہ منوا لیا جائے تا کہ عوام کو قابو کرنا آسان ھو جائے ،، امام احمد کے انکار پر آپ پر سختی کی گئ ،ماموں نے تو کسی حد تک آپ کا لحاظ کیا اور سختی کو پابندیوں تک محدود رکھا ، مگر معتصم باللہ نے قید اور کوڑوں کی راہ اختیار کی ،، آپ کو قید کر دیا گیا مگر جب دیکھا گیا کہ امام اپنی رائے سے رجوع پر آمادہ نہیں تو آپ کو بھرے دربار میں بلوایا گیا رمضان کا مہینہ تھا اور منظر کچھ یوں تھا کہ امام احمد بیڑیوں اور طوق میں لپٹے ھوئے تھے اور زنجیروں کا فالتو حصہ جو کہ کافی وزنی تھا امام احمد کو ھی اٹھوایا گیا تھا ،، نقاھت آپ کے چہرے پہ صاف عیاں تھی معتصم نے آپ سے آخری بار پوچھا کہ آپ اپنی رائے سے رجوع کریں گے یا نہیں ،، آپ نے جواب دیا کہ امیر المومنین ھم آپ کے نانا ھی کی امانت کا بار اٹھائے ھوئے ھیں جس کی حفاظت ھماری ذمہ داری ھے ، بخدا آپ اللہ یا اپنے نانا کا کوئی قول اس ضمن میں پیش کر دیں میں ایک لمحے میں اپے موقف سے باز آ جاؤں گا ،، ورنہ جو امیر کی مرضی ھے وہ کر گزرے ،،
اس دن آپ کو 100 کوڑے مارے گئے ، ھر دس کوڑوں کے بعد کوڑے مارنے والا تبدیل ھو جاتا اور تازہ دم کوڑے مارنے والا شروع ھو جاتا ،، یہ سلسلہ کئ دن چلتا رھا ،، آخر ایک دن جب کہ امام احمد کا بدن لہو لہان تھا ، روزے کی حالت میں 50 کوڑے مارے جا چکے تو امام کی حالتِ زار پر خود امیر بھی پریشان ھو گیا اس نے کہا کہ اے ابو عبداللہ آپ اپنے موقف سے رجوع فرما دیجئے ،، اللہ کی قسم میں ان زنجیروں کو اپنے ھاتھ سے کھولوں گا اور آپ کو اپنے ساتھ تخت پہ جگہ دونگا ، آپ کی قدر و منزلت ھمارے دل میں ھے اور ھم آپ کو مشقت سے نکالنا چاھتے ھیں ،، مگر امام کا وھی موقف تھا ،، کتاب اللہ یا نبئ کریم ﷺ کے قول سے دلیل لایئے ورنہ جو جی چاھئے کر گزرئیے ،، معتصم کو تاؤ آ گیا اور ایک نئے جوش سے کوڑوں کی بارش کروا دی ،، امام احمد پر غشی طاری ھونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ میں روزے سے ھوں مجھے پانی نہ پلایا جائے اور غش کھا کر گر پڑے ، ھوش میں آنے کے بعد آپ نے نماز ظھر کی نیت کر لی مگر دربار میں بیٹھے درباری علماء نے طنز کیا کہ بڑا امام بنا پھرتا ھے مگر اتنا مسئلہ نہیں پتہ کہ خون بہہ جانے پر وضو ٹوٹ جاتا ھے ،، آپ نے فرمایا کہ میں نے سنا ھے کہ امیر المومنین عمر ابن الخطاب نے خون میں لت پت اپنی نماز پڑھی تھی ،، اور مسلسل کئ دن خون کے جریان کے دوران نماز پڑھتے رھے تھے ،،
کہا جاتا ھے کہ جتنے کوڑۓ امام احمد کو مروائے گئے کسی ھاتھی کو بھی مروائے جاتے تو وہ بلبلا اٹھتا مگر امام احمد نے اف تک نہ کی ،، واثق آیا تو اس نے امام پر تدریس کی پابندی لگا دی اور بعد میں آپ کو قیدِ تنہائی میں رکھنے کا حکم دیا اور لوگوں کے آپ سے ملنے پر پابندی لگا دی ،، متوکل باللہ نے آ کر آپ پر سے یہ پابندیاں اٹھوائیں اور آپ کے مطالبے پر اس فتنے کے سرخیل علماء سے مناظرے کا بندوبست دربار میں کیا ،،،،
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ کو مخاطب کر کے پوچھا کہ امیر المومنین ان سے پوچھئے کہ کیا رسول اللہ ﷺ کو اس مسئلے یعنی قرآن کے مخلوق ھونے کا علم تھا یا نہیں ؟ علمائے سوء کی جان پر بن آئی ،، ایک نے کہا کہ آپﷺ کو علم نہیں تھا ،،، امام احمد نے سوال کیا کہ جس مسئلے کا علم صاحب وحی ﷺ کو نہیں تھا ،،، اس کا علم داؤد کو کیسے ھوا ؟ کیا وحی دوبارہ شروع ھو گئ ھے ،،؟؟ داؤد سے کوئی جواب بن نہ پڑا ،، خلیفہ کے چہرے پہ غصے کے آثار ںطر آنا شروع ھوئے ،، دوسرے گروپ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کو بھی مسئلے کا پتہ تھا ،،، اب امام احمد نے سوال اٹھایا کہ اگر آنحضرت ﷺ کو مسئلے کا علم تھا تو کیا آپ ﷺ نے قرآن کو مخلوق جاننے پر ایمان کی دعوت لوگوں کو دی اور اس پر ایمان نہ لانے والوں کو سزائیں دیں ؟ گروپ نے جواب دیا کہ نہیں ،،، امام احمد نے کہا کہ امیرالمومنین جس مسئلے پر ایمان کی دعوت اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں دی آپ کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دینا اور ایمان نہ لانے والوں کو سزائیں دینا کس نے واجب یا فرض کیا ؟ خلیفہ کے چہرے پر خفت کے آثار صاف دیکھے جا سکتے تھے ،
امیر المومنین اللہ کے رسولﷺ کو اگر اس مسئلے کا پتہ تھا تو آپ نے ابوبکر صدیقؓ کو اس کے بارے میں بتایا تھا تھا یا نہیں ؟ گروپ نے جواب دیا کہ نہیں ؟ امام نے کہا کہ امیر المومنین جس مسئلے کے بابت اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے یارِ غار کو خبر نہیں دی اس کی خبر داؤد کو عالمِ ارواح میں کیسے ھو گئ ؟ اگر یہ کہتے ھیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا تھا تو سوال اٹھتا ھے کہ کیا ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو اس مسئلے پر ایمان لانے کی دعوت دی یا نہیں ،،،،، گروپ پر سکتہ طاری تھی ، اے امیر المومنین جس کے بابت اللہ کے رسول ﷺ نے نہ علم دیا اور نہ ایمان کا مطالبہ کیا اور نہ ھی خلفائے راشدینؓ نےان پر ایمان کی دعوت دی ،، اس مسئلے پر دعوت دینے پر آمادہ کر کے یہ لوگ آپ کو ایسی گھاٹی میں لے آئے ھیں کہ جس کے دونوں طرف آگ ھے اگر آپ اس مسئلے سے جان چھڑائیں گے تو اپنے پہلوں کی آگ بھی بجھا دیں گے اور اپنے آگے کی آگ بھی بجھا دیں گے ،،،، خلیفہ نے علمائے سوء کے گروہ کو مخاطب کیا ،، تم لوگ اس شخص کے مقابلے میں اس تنکے جتنا علم بھی نہیں رکھتے جو میرے ھاتھ میں ھے ،، اور اس گروہ کو دربار سے نکال دیا ،،،امام احمد پر سے پابندیوں کو ھٹا دیا گیا مگر سرکاری طور پر اس مسئلے کے اختتام کا اعلان نہ کیا ، شاید اسی لئے اس مسئلے کا اختتام خلیفہ کے لئے نہایت ذلت آمیز رھا ، ایک مسخرہ خلیفہ کے دربار میں آیا اور اس نے کہا کہ ” اے امیر المومنین میں آپ کو پرسہ دینے آیا ھوں ، تعزیت کرنے آیا ھوں کیونکہ اور کوئی شخص اور گھرانہ تعزیت کے لئے مجھے مناسب نہیں لگا ،، اس لئے کہ مرحوم نے آپ کے گھرانے میں ھی جنم لیا اور اسی میں پلا بڑھا اور آج مر گیا ،، خلیفہ ہکا بکا اس مسخرے کا منہ دیکھتا رھا ،، کچھ بکو گے بھی یا نہیں کہ کس کا انتقال ھو گیا ؟ امیر المومین میں قرآن کے فوت ھونے پر آپ کو پرسہ دیتا ھوں انا للہ و انا الیہ راجعون ،، آخر قران مر گیا ،کل نفسٍ ذائقۃ الموت ،،، اے امیر المومنین صبر کیجئے کہ سب مخلوق کے مقدر میں اللہ نے مرنا ھی لکھا ھے ،، خلیفہ کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ،، اگر قرآن مخلوق ھے تو پھر اس کا مرنا بھی لازم ھے اس سے انکار اس کے مخلوق نہ ھونے کی واضح دلیل تھی ،، خلیفہ نے اسی دن اعلان کر دیا کہ آئندہ اگر کسی نے کلام اللہ کو مخلوق کہا تو اس کو سزا دی جائے گی یوں یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا ،،
امام احمد ایک ڈاکو کو بہت دعائیں دیا کرتے تھے فرماتے تھے کہ مجھے جب بھی کوڑے مار کر کوٹھڑی میں واپس پھینکا جاتا تو ایک ڈاکو جو میرے سامنے کی کوٹھڑی میں تھا مجھے کہتا کہ اے امام احمد میں ایک ڈاکو ھوں ، ان لوگوں نے میرا ایک ھاتھ کاٹ دیا میں پھر بھی باز نہیں آیا پھر پاؤں کاٹ دیا میں پھر بھی باز نہیں آیا ،، اب یہ مجھے جب بھی گرفتار کرتے ھیں تو ھزار ھزار کوڑے کی سزا دیتے ھیں مگر میں اب بھی یہ کہتا ھوں کہ اگر مجھے انہوں نے چھوڑا تو میں پھر بھی یہی کام کروں گا ،، اے احمد اگر میں باطل کے لئے اتنی استقامت دکھا سکتا ھوں تو کیا آپ اللہ کے لئے استقامت نہیں دکھا سکتے ؟ اگر آپ نے ھار مان لی تو حشر میں میری موجودگی میں اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ؟؟ آپ استقامت کی روش کو اختیار کریں آپ پر پوری امت کے ایمان کا بوجھ ڈال دیا گیا ھے اور آپ سخت آزمائش میں آزمائے گئے ھیں ،،