یہ رہا کامیابی کا نسخہ از گل نوخیز اختر
مجھے ایسی کتابیں بہت پسند ہیں جن میں زندگی بدلنے کے مختلف سنہری طریقے دیے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک کتاب دیکھی جس کا عنوان تھا ’’امیر ہونے کے طریقے‘‘۔ پہلی فرصت میں خریدی اور پہلا صفحہ پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا ’’اپنے کام میں بھرپور محنت کریں اور خوب۔۔۔‘‘ باقی کچھ پڑھنے کو دل ہی نہیں کیا لہذا اگلا صفحہ پلٹا۔ ’’وقت ضائع کبھی مت کریں بلکہ اپنا ٹائم ٹیبل کچھ ایسا بنائیں کہ جس میں آپ فضول کاموں کی بجائے۔۔۔‘‘ مزید اگلا صفحہ پلٹنا پڑا۔ یہاں لکھا تھا ’’آپ جتنے بھی پیسے کماتے ہیں ان میں سے کچھ نہ کچھ بچت ضرور کریں‘ تھوڑی تھوڑی بچت ہوتی جائے گی اور پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ۔۔۔‘‘ جماہی لی اور اگلا صفحہ دیکھا‘ یہاں بھی کچھ ایسی ہی بکواس لکھی ہوئی تھی۔ پانچ سو صفحات کی کتاب پانچ منٹ میں ختم ہوگئی۔ انتہائی غصہ آیا۔ مصنف پاکستانی تھا اور اس کا فون نمبر بھی کتاب کی پشت پر درج تھا۔ میں نے اُنہیں فون کیا اور پوچھا کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘۔ جواب ملا ’’کچھ نہیں‘ صرف زندگی بدلنے کے طریقے بتاتا ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ امیر ہونے کا اصل طریقہ کیا ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر میں تو امیر نہیں ہوسکا لیکن مصنف کے اکاؤنٹ میں ساڑھے سات سو روپے ضرور چلے گئے تھے۔ یہ ہے امیر ہونے کا صحیح طریقہ!!!
میں کوشش کے باوجود کوئی ایسا بندہ نہیں ڈھونڈ سکا جس نے ’’موبائل انجینئر بنئے‘‘ پڑھ کر کبھی اپنا موبائل خود ٹھیک کیا ہو یا ’’خود اعتمادی‘‘ والی کتاب پڑھ کر اپنے علاقے کے تھانیدار سے گردن اکڑا کر بات کی ہو۔ اِن کتابوں میں ایسے قصے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ کیسے ایک بندہ پیدائشی معذور تھا لیکن ایک دن اس نے دل میں ٹھان لی کہ میں نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے اور پھر ایک دن وہ نہ صرف وہیل چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا بلکہ میراتھن ریس بھی جیت گیا۔ اصل بات پتا نہیں کیا ہوتی ہے لیکن ہم جیسوں تک جب یہ قصے پہنچتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم ہی وہ نکمے ترین انسان ہیں جو ’’وِل پاور اور مثبت سوچ ‘‘ سے محروم ہیں۔ ایک جگہ لکھا پڑھا کہ اگر رات کو سوتے وقت اپنے آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہا جائے کہ صبح میں نے فلاں ٹائم پر اٹھنا ہے تو ہمارا لاشعور ہمیں ٹھیک اُسی وقت اُٹھا دیتا ہے ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔۔رات الارم لگانے کی بجائے اپنے آپ کو مخاطب کرکے سختی سے تاکید کی کہ ’’اوئے! مجھے ٹھیک 10بجے اٹھا دینا‘‘۔ حیرت انگیز طور پر گہری نیند آئی۔ صبح آنکھ کھلی تو بے اختیار وال کلاک پر نظر پڑی اور یقین نہیں آیا‘ سوئیاں ٹھیک 10 بج کر پندرہ منٹ دکھا رہی تھیں۔ گویا تجربہ کامیاب رہا تھا۔ میں نے خود کو داد دی ۔۔۔ اتنے میں موبائل کی بیل بجی‘ شکیل صاحب کا فون تھا‘ پوچھنے لگے کہ آپ سے گیارہ بجے میٹنگ تھی لیکن آپ آئے ہی نہیں۔ میں ہنس پڑا۔ آجاتا ہوں بھائی، ابھی تقریباً ایک گھنٹہ باقی ہے۔ دوسری طرف سے کچھ دیر خاموشی رہی‘ پھر اُن کی سپاٹ آواز سنائی دی ’’ذرا ٹائم دیکھ لیجئے‘‘۔ میں بوکھلا گیا‘ آنکھیں ملیں اور غور سے کلاک کی طرف دیکھا‘ میری روح فنا ہوگئی۔ چھوٹی سوئی تین پر اور بڑی دس پر تھی۔ ’’سوئیوں کے انتخاب نے رُسوا کیا مجھے‘‘۔ میں نے فوری طور پر چھلانگ لگائی اور شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر ’’لاشعور‘‘ کو اچھی خاصی سنائیں۔ اپنے آپ کو ڈانٹنے کا یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا۔۔۔!!!
کتابی ڈائٹ پلان بھی آپ نے بڑے دیکھے ہوں گے‘ یہ بادی النظر میں کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں۔ ناشتے میں تین ہری مرچیں ۔۔۔ دوپہر کے کھانے میں گھاس۔۔۔اور شام کو نیم گرم پانی کے ساتھ دو ٹشو پیپر۔۔۔ نیز زیادہ بھوک لگے تو ہر وہ چیز کھائیں جو نہ آئل میں پکی ہوں‘ نہ اُبلی ہوئی ہوں‘ نہ زمین میں اُگتی ہوں اور نہ کوئی انسان انہیں کھاتا ہو۔ یہ ڈائٹ پلان شروع کرنے بہت آسان ہیں لیکن ڈیڑھ گھنٹے بعد جب ڈیلے باہر آنے لگتے ہیں تو بندہ وعدہ کرلیتا ہے کہ اگلے ہفتے سہی۔ میں نے زیادہ تر سلِم لوگ وہی دیکھے ہیں جو کسی ڈائٹ پلان کی بجائے بیماری کی وجہ سے کمزور ہوجاتے ہیں اور پھر سب کو ذہنی مریض بناتے ہوئے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے ڈائٹ کے ذریعے وزن کم کیا۔ ورزش کے شوقینوں سے بھی پوچھ کے دیکھ لیں۔ یہ جو صبح سویرے پارکوں کے چکر لگاتے موٹے نظر آتے ہیں یہ دو تین سال سے اسی اُمید پر دوڑے چلے جارہے ہیں کہ ایک دن اِن کی ویسٹ 63 سے 36 ہوجائے گی۔ خواتین تو اس معاملے میں اور بھی حساس ہوتی ہیں۔ ہماری ایک کولیگ کا نِک نیم ’موتی‘ تھا جسے وہ ہمیشہ انگریزی میں لکھنے کی مخالفت کیا کرتی تھیں۔
ایک کتاب اور پڑھی‘ نام تھا ’’دوسروں کو قائل کرنے کا فن‘‘۔ یہ کتاب پڑھ کر میں نے کئی دوستوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں باشعور انسان ہوں۔ اس بات پر حسب توقع خاصی بحث ہوتی رہی کہ میں بیک وقت "دو دعوے” کیوں کر رہا ہوں ۔ بالآخر یہ طے پایا کہ میں غلط ہوں۔ میرا خیال ہے مجھ سے پہلے مخالفین یہ کتاب پڑھ چکے تھے۔ ایسی کتابیں بظاہر بہت اٹریکٹ کرتی ہیں‘ ایسا لگتا ہے ہمارا سارا مسئلہ حل ہوگیا۔ ’’ناکامی کی وجوہات‘‘ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ غیر سنجیدہ رویے‘ بیکار دوستوں کی محفلیں ‘بلاوجہ کی ٹینشن‘ صحت پر توجہ نہ دینا اور اپنے کام کو نہ سمجھنا ناکامی کی سب سے بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی دماغ میں کسی ایسے رشتہ دار کا بھی خیال آجاتا ہے جو کم بخت ہر وقت منہ پھاڑ کر ہنستا رہتاہے‘ تعلیم بھی واجبی سی ہے‘ دوستوں میں جواری بھرے ہوئے ہیں‘ پکے سگریٹ بھی پیتا ہے اور اپنی دوکان پر بھی سارا دن فیس بک ہی کھولے رکھتاہے ۔۔۔ اس کے باوجود اس کا بزنس دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ کتاب کہتی ہے کہ یقیناً شروع میں اس نے کتاب میں بیان کردہ ساری محنت کی ہوگی۔ لیکن یہ بھی غلط ثابت ہوتا ہے اور پتاچلتا ہے کہ موصوف نے بہنوئی کی موٹر سائیکل بیچ کر چالیس ہزار کا پرائز بانڈ لیا اور بدقسمتی سے بانڈ بھی نکل آیا۔۔۔ اس کے بعد ’’ناکامی کی وجوہات‘‘ کی ایسی کی تیسی۔۔۔!!!
اُن لوگوں کی تقریریں بھی آپ نے سنی ہوں گی کہ ہر چیز میں پیسے کو اہمیت نہیں دینی چاہیے‘ جذبات اور احساسات کی قیمت پیسے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ کبھی ایسی خوبصورت باتوں کا لیکچر دینے کے لیے مدعو کر کے دیکھئے‘ ڈیڑھ لاکھ سے کم میں بکنگ ہوجائے تو آپ کی جوتی ‘اِن کا سر۔۔۔!!! یہ کتابوں سے لے کر تقریروں تک چند منٹوں میں تقدیر بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ 40 فیصد من گھڑت جذباتی اور محیرالعقول واقعات‘ 10 فیصد مذہب کا تڑکا‘ 10 فیصد تصوف کا تڑکا‘ 10 فیصد مسخ شدہ تاریخ کے حوالے اور 30 فیصد اپنی عظمت کی داستانیں۔۔۔ لیجئے بہترین کتاب اور تقریر تیار ہے۔ پورے اعتماد سے سامنے بیٹھے ہوؤں پر ثابت کردیں کہ وہ ہونق ‘بیوقوف اور چول ہیں۔ اِن میں سے کوئی خر دماغ کوئی لاجیکل سوال کرلے تو اُس پر ایسے مسکرائیں گویا اُس کی جہالت کنفرم ۔
اچھی اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصول کس کو نہیں معلوم؟ پھر بھی ہمیں ایسی کتابیں احساس کمتری میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ناکامی کی وجوہات بے شک کچھ اور ہوں لیکن یہ کتابیں پڑھ کر ہمیں لگتاہے کہ یہ ساری غلطیاں ہم نے کی ہیں۔ کامیابی حاصل کرنی ہے تو ایسی کتابیں پڑھنے کی بجائے لکھنا شروع کر دیجئے ۔ ناکام لوگوں کی محفلوں میں جانا شروع کر دیجئے‘ یہ آپ کی باتیں سن کر نہ صرف اثبات میں سرہلائیں گے بلکہ سوال بھی کریں گے کہ کامیابی کے لیے کیا کیا جائے؟ ۔۔۔اِنہیں اپنی کتاب خریدنے کا مشورہ دیجئے۔۔۔!!!