وفا کا پیکر جوڑا ۔ قاری حنیف ڈار

ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ـ
ایک ھم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑـ

الشيخ المحدث العلامة/ عبدالله بن يوسف الجديع ۔۔
أحد أعضاء المجلس الأوروبي للإفتاء والبحوث ـ
المستشار الشرعي لمسجد مدينة ليدز الكبير،

عراق کے یہ محدث علامہ البانی کے درجے کے محدث ہیں ، جب تک عالم عرب میں رھے ، بس وھی پرانے اجماع کے فتوے نقل کرتے رھے مگر اللہ پاک ان کو کوئی اور دنیا دکھا کر کوئی اور ھی کام لینا چاھتا تھا ، یہ پہلے عراق سے کویت اور پھر کویت سے ۱۹۹۳میں برطانیہ ھجرت کر گئے اور ایک نو مسلمہ انگریز عورت سے شادی کر لی ، وھاں ان کا سامنا نئے حالات سے ھوا جب کئ ایسے واقعات ان کے پاس فتوے کے لئے آئے جس میں میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ھو جاتا اور پورا خاندان بکھر کر رہ جاتا ،، لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نصرانی عورت اسلام کی توحید سے متاثر ھو کر میرے پاس مسلمان ھونے کے لئے آئی ، جس پر میں نے اسے بتایا کہ مسلمان ھونے پر اس کو نہ صرف شوھر سے الگ ھونا پڑے گا بلکہ بچوں کو بھی چھوڑنا پڑے گا ، یہ سن کر اس عورت پر دھشت اور ھراس کی سی کیفیت طاری ھو گئ اور وہ اسلام قبول کیئے بغیر اٹھ کر چلی گئ ،مگر ساتھ میں شیخ کی نیند بھی لے گئ ،،

شیخ کے اندر بالکل ویسی ھی ٹھک ٹھک ٹھک ٹھک چلتی رھی جیسی فلائیٹس کی روانگی کے بعد فلائیٹوں والے بورڈ پر ٹائمنگز تبدیل ھوتے وقت ھوتی ھے ،، یہ تو سرا سر تعسیر ھے تیسیر تو بالکل نہیں ھے اور یہ تو سامنے سامنے تنفیر ھے تبشیر تو ھر گز نہیں ھے بلکہ یہ تو اللہ کے دین سے روکنے والی بات ھے ،، علامہ محدث شیخ جدیع نے سارے اجماع اٹھا کر فریج کے اوپر والے خانے میں رکھ دیئے جہاں برف بنتی ھے ، اور خود سارا اسلامی مواد کھنگال ڈالا تا کہ اس نام نہاد اجماع کی پشت پر موجود علمی ذخیرہ کی سکروٹنی کر کے خود اس اجماع کی قوت کا اندازہ لگائیں ، پتہ چلا کہ یہ ھماری اس وقت کی سوپر پاور والی رعونت پر مشتمل اجماع ھے کہ ایک عورت مسلمان ھو کر غیر مسلم مرد کے نیچے ھو گی تو اسلام کی ناک کٹ جائے گی ، گویا عیسائیت اسلام کے ساتھ بدفعلی کر رھی ھو گی ،،

شیخ نے حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دو خلفائے راشدین کا یہ فیصلہ ڈھونڈ لائے کہ اگر ایک عیسائی عورت مسلمان ھوتی ھے اور امید رکھتی ھے کہ وہ اپنے شوھر اور بچوں کو بھی مسلمان بنا سکتی ھے تو وہ اسی نکاح میں اس شوھر کے ساتھ رہ سکتی ھے اور اس کے لئے کوئی محدود مدت نہیں ھے ، چنانچہ شیخ جدیع نے دلائل پر مبنی ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ھے ( میاں بیوی میں سے کسی ایک کا مسلمان ھو جانا اور اس کے خاندان پر اثرات ) شیخ کی اس کتاب نے ایک طوفان بپا کر دیا اور بڑے بڑے برج زلزلے کی زد میں آ گئے ،مگر یورپی فتوی اینڈ ریسرچ کونسل کو شیخ جدیع کا مدلل موقف قبول کرنا پڑا ، شیخ اس یورپی یونین کی دائمی فتوی اینڈ ریسرچ کونسل کے جنرل سیکرٹری تھے پھر علمی مشغولیت کی وجہ سے استعفی دے کر صرف رکنیت اور مشاورت پر اکتفاء کیا اور کئ کتابیں تصنیف فرمائیں ، لیڈز شہر کی گرینڈ مسجد کے امام و خطیب ہیں ،، میری لندن کے علماء سے گزارش ھے کہ وہ ان کے ساتھ رابطے میں رہیں تا کہ جدید فقہی مسائل میں ان کی آراء سے استفادہ کر سکیں ،،

تو اس سے یہ قیاس ہو سکتا ہے کہ مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح درست ( regular)ہے؟ سوال ذہن میں آیا ہے. راہنمائی فرمائیے

نبی علیہ السلام سے بڑی دلیل کیا ہوگی، آپ نے حضرت زینب کا نکاح ان کے خاوند ابو العاص بن ربیع کے ساتھ برقرار رکھا تھا، زینب ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں اور ابوالعاص بطور کافر مکہ میں ہی رہے ، وہ بعد میں مسلمان ہوئے۔
زینب مسلمان خاوند کافر و مشرک تھا، پیغمبر علیہ السلام نے نکاح ختم نہیں کیا اور جب وہ مسلمان ہوکر مدینہ آگیا تو پیغمبر نے اُسی سابقہ نکاح پر زینب کو خاوند کے پاس بھیج دیا۔
سنت نبوی سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہوجائے تو نکاح قائم رکھا جاسکتا ہے ۔
البتہ مسلمان عورت کا نکاح از روئے قرآن کافر مرد کے ساتھ منع ہے ۔

وفا کا پیکر جوڑا ،،

حضرت زینبؓ بنت محمد رسول اللہ ﷺ کا نکاح ان کے خالہ زاد ابا العاص ابن ربیع سے ھوا تھا ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ایک بیش قیمت ہار اپنی بیٹی کو شادی کے تحفے میں دیا ،، نبئ کریم ﷺ کے اعلانِ نبوت پر حضرت زینبؓ تو مسلمان ھو گئیں مگر ابا العاص اپنے مذھب پر ڈٹے رھے مگر آپس میں ان دونوں کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا ،، ابا العاص غزوہ بدر میں قریش کی طرف سے لڑنے آئے تو قیدی بنا لئے گئے ،جب فدیئے کا فیصلہ ھوا تو حضرت زینبؓ نے جو کچھ پاس تھا وہ فدیئے میں بھیج دیا جس میں وہ ھار بھی شامل تھا جو حضرت خدیجہؓ نے ان کو شادی پر دیا تھا ، ھار کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے پہچان لیا اور اپنی بیٹی کی اس کیفیت کو یاد کر کے آپ کی آنکھیں بھیگ گئیں جو سے وہ گزری ھو گی کیونکہ حضرت زینب کو ماں کی یہ نشانی بہت عزیز تھی جس کو شوھر پر قربان کر دیا تھا ،،

اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ اگر تم مناسب سمجھو تو یہ ھار زینبؓ کو واپس کر دو اور ھم ابا العاص کی رہائی کسی نئ شرط پر طے کر لیتے ہیں ، صحابہؓ کی رضامندی کے بعد آپ نے وہ ھار ابا العاص کو واپس دے دیا اور فرمایا کہ تیرا فدیہ میری بیٹی ھے مکہ جا کر زینب کو مدینے بھیج دینا ،، حضرت ابا العاص نے اپنی زوجہ سے شدید محبت کے باوجود مکہ جا کر اپنے عہد کی پابندی کرتے ھوئے حضرت زینبؓ کو مدینے روانہ کر دیا ،، کچھ عرصے بعد حضرت ابی العاص سامانِ تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ھوئے تو مسلمان دستے کے ہاتھ چڑھ گئے ان کا قافلہ قیدی بنا لیا گیا مگر خود ابا العاص بچ نکلنے میں کامیاب ھو گئے اوررات کے وقت مدینہ آ کر حضرت زینبؓ سے پناہ چاھی ،، حضرت زینبؓ نے ان کو پناہ دے دی فجر کی نماز میں جب رسول اللہ ﷺ نے جماعت کھڑی کی اور تکبیرِ تحریمہ کہہ لی تو عورتوں والی طرف سے حضرت زینبؓ نے پکار کہا کہ ،،[ "أيها الناس، أنا زينب بنت محمد، وقد أجرت أبا العاص فأجيروه. ]

اے لوگو میں زینب بنت محمد ﷺ ھوں ، میں نے ابی العاص ابن ربیع کو پناہ دے دی ھے تم بھی اس پناہ کا احترام کرو ،، سلام پھیرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نمازیوں سے کہا کہ کیا تم نے بھی وہ سنا ھے جو میں نے سنا ھے ؟ نمازیوں نے جواب دیا کہ جی بالکل سنا ھے ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے ، یہ بات میں نے بھی ابھی نماز میں سنی ھے جیسا کہ تم نے سنی ھے اور مجھے اس سے قبل اس بات کی کوئی خبر نہ تھی ، البتہ ایک ادنی مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ھے لہذا ھم بھی زینبؓ کی اس پناہ کو تسلیم کرتے ہیں ،، اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنا رخ انور اپنے گھر کی طرف کیا اور فرمایا کہ میری لختِ جگر ابی العاص کی خدمت کرو مگر یہ بات یاد رکھو کہ تم اس کے لئے حلال نہیں ھو ـ

اس کے بعد قریش کے ان لوگوں نے جو کہ ابی العاص کے رشتے دار اور بچپن کے دوست تھے ان کو اسلام پیش کیا ،، جس پر ابی العاص نے کہا کہ واللہ تم لوگ مجھے بُرا مشورہ دے رھے ھو کہ میں اپنے اسلام کی بنیاد بد عہدی اور غداری پر رکھوں ، ایسا ممکن نہیں ھے جب تک کہ میں حقداروں کا حق ادا نہ کر دوں ، اللہ کے رسولﷺ ابی العاص کا قصد بخوبی جانتے تھے لہذا صحابہؓ سے فرمایا کہ اگر تم اس قافلے کا سامان ابی العاص کو واپس کر دو تو بہت بھلی بات ھے ورنہ یہ تمہارے لئے مال فے ھے جس طرح چاھو استعمال کر سکتے ھو ،، صحابہؓ نے برضا و رغبت وہ سامان ابی العاص کو واپس کر دیا ،،

ابی العاص مکہ پہنچے تو تمام لوگوں کو حرم میں بلا کر ان کا مال ان کے سپرد کیا اور پوچھا کہ تم میں سے کسی کا کوئی حق مجھ پر باقی تو نہیں ؟ تمام لوگوں نے کہا کہ ھمیں ھمارا حق وصول ھو گیا ھے ،اس کے بعد ابی العاصؓ نے اعلان کیا کہ میں گواھی دیتا ھوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کی قسم اے قریش میں نے یہ اعلان اسلام مدینے میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس وجہ سے نہیں کیا کہ مبادا تم یہ سمجھو کہ تمہارا مال ہڑپ کرنے کی نیت سے میں نے اسلام قبول کیا ھے ، اس کے بعد آپ اونٹ پر بیٹھے اور مدینہ تشریف لے آئے ، رسول اللہ ﷺ ان کے اسلام سے بہت خوش ھوئے اور حضرت زینبؓ کو سابقہ نکاح پر ھی ان کے حوالے کر دیا ،، یوں چھ سال کے امتحان کے بعد یہ جوڑا دوبارہ اپنی نارمل عائلی زندگی کی طرف لوٹ آیا ،،

اللہ کے رسول ﷺ ابی العاصؓ سے بہت خوش تھے ، ایک موقعے پر آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ ابی العاص بہترین داماد ھے جس نے مجھ سے جب بھی بات کی سچ بولا اور جب بھی عہد کیا تو اس کی پابندی کی

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.