ابو جانی۔۔۔از عرشی ملک
٭٭٭٭٭٭ ابو جانی ٭٭٭٭٭٭
جب میں اپنی عمر کے چوتھے سال میں تھا
میرے ابو جانی مجھ کو بے حد پیارے لگتے تھے
میری سوچوں کے آکاش پہ روشن تارے لگتے تھے
بے حد عظمت کے مالک اور بے حد اچھے لگتے تھے
دنیا کا کچھ علم نہیں، پر ابو سچے لگتے تھے
………………………………………………..
چھ سالوں کا ہو کر میں نے جان لیا
میرے ابو سارے علم کے مالک ہیں
ہر پل ہنستا ،روشن چہرہ ،کتنے حِلم کے مالک ہیں
………………………………………………..
جب میں اپنی عمر کے دسویں سال میں پہنچا
مجھے لگا کہ،یوں تو ابو ، اچھے ہیں
پر مجھ سے غصے رہتے ہیں
ان کا علم و فہم بھی گر چہ اچھا ہے پر خاص نہیں ہے
میرے ہر ساتھی کے ابو ، اتنے علم کے مالک ہیں
…………………………………………….
بارہ سال کا ہو کر میں کچھ بے کل سا تھا
ہر پل سوچا کرتا تھا
ابو کو خوش کرنا کتنا مشکل ہے
جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ابو مجھ سے کتنا پیار کیا کرتے تھے
گود میں مجھ کو لے کر چاہت کا اظہار کیا کرتے تھے
تب وہ کتنے اچھے تھے
………………………………………………..
سولہ سال کا ہو کر یک دم میں کافی مایوس ہوا تھا
ابو یوں تو ٹھیک ہی ہیں پر وقت کا ساتھ نہیں دے پاتے
اکثر ہیں پیچھے رہ جاتے
……………………………………………………
سترہ سال سے بیس برس کی مدت کافی مشکل تھی
مجھ کو یوں لگتا تھا جیسے،ہر پل مجھ پر نکتہ چینی
ابو کی اب عادت بنتی جاتی ہے
میری ٹوہ میں رہنا ان کی فطرت بنتی جاتی ہے
میرے ملنے والوں سے بھی اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں
مجھ سے کچھ مایوس سے ہیں اور بگڑے بگڑے رہتے ہیں
تب میں ان کی نظروں سے بچ بچ کے گذرا کرتا تھا
اور یہ سوچا کرتا تھا
ان کی صحبت میں کچھ دیر بھی رہنا کتنا مشکل ہے
ان کی گہری گہری نظریں سہنا کتنا مشکل ہے
جانے ماں کس طرح ان کا ساتھ نبھاتی آئی ہے
……………………………………..
چوبیس اور پچیس برس کی عمر میں مجھ کو یوں لگتا تھا
ان کو میری ہر خواہش سے بیر سا ہے
دنیا کے حالات کا بھی کچھ علم نہیں ہے
طیش میں جلدی آ جاتے ہیں
شائد ان میں حِلم نہیں ہے
جانے دنیا والوں کا وہ ساتھ نبھانا کب سیکھیں گے
آنے والے نئے دنوں سے ،ہاتھ ملانا کب سیکھیں گے
………………………………….
تیس برس کا ہو کر میں حیران ہوا کہ
اپنے ننھے بچوں کو کس طور سنبھالوں
ایک نہیں وہ سنتے میری
حالانکہ میں چھوٹے ہوتے اپنے ابو سے ڈرتا تھا
جو کچھ وہ کہتے کرتا تھا
………………………………….
چالیس اور پینتالیس سال کا ہو کر آخر میں نے جانا
ابو نے ہم سب کو کافی،طور، اطوار سکھائے تھے
خوب ڈسپلن میں رکھا تھا
میں حیران ہوا کہ ابو اتنے بچوں کو کیسے
اک نظم و ضبط میں رکھتے تھے
………………………………
نصف صدی کی عمر بِتا کر میں نے جانا
بے شک ابو نے ہم سب پر کافی وقت لگایا تھا
روز و شب قربانی دی تھی سارا مال لٹایا تھا
چھ بچوں کو نظم و ضبط سکھانا اور پروان چڑھانا
کام کوئی آسان نہیں تھا
میرے دو بچے ہیں وہ بھی اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں
اور جینریشن گیپ کے ان کے لب پر دکھڑے رہتے ہیں
……………………………………..
پچپن سال کی عمر میں مجھ پر اور بہت سے راز کھلے
بے شک ابو اعلیٰ ظرف تھے
متحمل تھے،دانشور تھے
دور تلک وہ دیکھ رہے تھے دیدہ ور تھے
وہ ہر کام کو مجھ سے بڑھ کر احسن طور پہ کر سکتے تھے
کر سکتے ہیں۔۔۔۔
……………………………………..
اب میں ساٹھ برس کا ہو کر
چوٹ پہ ڈنکے کی کہتا ہوں
میرے ابو جانی مجھ کو جان سے پیارے لگتے ہیں
میری سوچوں کے آکاش پہ روشن تارے لگتے ہیں
بے حد عظمت کے مالک اور بے حد اچھے لگتے ہیں
دنیا کا کچھ علم نہیں،پر ابو سچے لگتے ہیں
……………………………………..
چار برس کی عمر میں جو ایمان تھا میرا
ساٹھ برس کی عمر میں عرشی وہ ایمان ہوا ہے تازہ
ابو کی قدر و قیمت کا آج ہوا مجھ کو اندازہ
٭٭٭
عرشی ملک