اقسامِ اولیاء اللہ کے بیان میں
اقسامِ اولیاء اللہ کے بیان میں !
ابدال – یہ چالیس ھوتے ھیں، بائیس یا بارہ شام میں اور اٹھارہ یا اٹھائیس عراق میں رھتے ھیں !
اخیار – پانچ سو یا سات سو ھوتے ھیں ، ان کو ایک جگہ قرار نہیں ،،سیاح ھوتے ھیں اور ان کا نام حسین ھوتا ھے –
اقطاب -قطب العالم ایک ھوتا ھے، اس کو قطب العالم و قطبِ اکبر و قطب الارشاد و قطب الاقطاب و قطب المدار بھی کہتے ھیں ،، عالم غیب میں اس کا نام عبداللہ ھوتا ھے !
اس کے دو وزیر ھوتے ھیں جو امامین کہلاتے ھیں، وزیرِ یمین کا نام عبدالملک اور وزیرِ یسار کا نام عبدالرب ھوتا ھے ،، اس کے علاوہ بارہ قطب اور ھوتے ھیں، سات تو سات اقلیم میں رھتے ھیں ان کو قطبِ اقلیم کہتے ھیں،،اور پانچ یمن میں ان کو قطبِ ولایت کہتے ھیں،،یہ عدد تو اقطابِ معینہ کا ھے، اور غیر معین ، ھر شہر اور ھر قریہ میں ایک قطب ھوتا ھے ! شیخ ابنِ عربی نے تو یہاں تک لکھا ھے کہ ھر بستی میں خواہ وہ کفار ھی کی ھو ایک قطب ھوتا ھے،، اس کلام کے دو مطلب ھو سکتے ھیں،، ایک تو یہ کہ وہ بظاھر وھاں کے ھی باشندوں میں سے ھو مگر اندر ھی اندر مسلمان ھو،،اور یہ بعید ھے ! دوسری صورت یہ ھے کہ وہ وھاں مقیم نہ ھو مگر وہ بستی اس کے تصرف میں ھو ،جیسا تھانیدار کہ اس کا تعلق شہر کے ساتھ دیہات سے بھی ھوتا ھے، اور ایک اور صورت جو ابنِ عربی کے ھی کلام سے مفہوم ھوتی ھے وہ یہ ھے کہ اس میں عقل نہ ھو ،،لہٰذا وہ شریعت کا مکلف ھی نہ ھو ( جس مذھب پر مرضی عمل کر لے ،،یا کسی بھی مذھب پر نہ چلے،،) ،، مگر ایسے آدمی کی خاص علامت ھے کہ اھلِ باطن اس کا ادب کرتے ھیں،،تو اھلِ باطن کو دیکھا جائے،،جس کا(کافر،پاگل ) قطب کا ادب وہ کرتے ھوں عام شخص بھی اس کا احترام اور ادب کرے، ورنہ ھر کافر کا معتقد نہ بنے،کیونکہ اس طرح تو جہاد وغیرہ سب بند ھو جائے گا،،
اوتاد – یہ چار ھوتے ھیں ،،عالم کے چاروں کونوں میں رھتے ھیں،،
عمد – یہ بھی چار ھوتے ھیں،، زمین کے چاروں گوشوں میں رھتے ھیں اور سب کا نام محمد ھوتا ھے !
غوث – قطب الاقطاب کو ھی غوث کہتے ھیں، غوث ترقی کر کے فرد ھو جاتا ھے اور فرد ترقی کر کے قطبِ وحدت ھو جاتا ھے !
نجباء – یہ ستر ھوتے ھیں اور مصر میں رھتے ھیں ،، سب کا نام حسن ھوتا ھے !
نقباء -تین سو ھوتے ھیں،ملکِ مغرب میں رھتے ھیں ،، سب کا نام علی ھوتا ھے !(338،39 )
اولیاء اللہ کی دو قسمیں ھوتی ھیں،ایک اھلِ ارشاد ،، ان میں اتم و اعم قطبِ ارشاد ھوتا ھے، یہ حضرات انبیاء کے حقیقی نائب ھوتے ھیں ، لوگوں کے قلوب میں انوار و برکات ان کی وجہ سے آتے ھیں، برکات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان کے ساتھ اعتقاد کا ھونا ضروری ھے،،ان کا طرز،،طرزِ نبوت ھوتا ھے،،
دوسرے وہ اولیاء ھیں، جن کے متعلق خدمتِ اصلاحِ معاش و انتظامِ امورِ دنیویہ و دفعِ بلیات ھے کہ اپنی ھمتِ باطنی سے باذنِ الہی ان امور کی درستگی کرتے ھیں،،
بعض علماء نے کرامت کی حد مقرر کی ھے مگر محققین کے نزدیک سوائے قرآن جیسا کوئی معجزہ لانے کے ،،باقی ھر چیز ولی سے ممکن ھے ،مثلاً بٖغیر باپ بچہ پیدا کرنا،یا کسی جماد کا حیوان بن جانا ،یا ملٰئکہ سے باتیں کرنا،،
نیز جاننا چاھئے کہ ولی سے بعد از وفات بھی تصرفات و کرامات کا صدور ھوتا ھے اور یہ امر معنیً تواتر کی حد تک پہنچ گیا ھے(صٖفحہ،326،27 )
شریعت و طریقت از مجدد الملۃ و حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ