دارالامتحان از قاری حنیف ڈار
دنیا کے خالق نے اس کو امتحان کی جگہ بنایا ھے اور بتایا بھی ھے ،یہاں جو کچھ ھے وہ اس امتحان کا حصہ ھے اور جو نہیں ھے وہ بھی امتحان ھے ،،، ایک کی امیری اس کا اور غریب کا امتحان ھے تو دوسری کی غریبی اس کا بھی اور امیر کا بھی امتحان ھے ،، امیر غریب وہ بناتا ھے بندے بس ارادہ کر کے رہ جاتے ھیں ، امیر کی امارت پہ للچانے والے صرف آج نہیں بلکہ اس وقت بھی تھے جب قارون تھا ،، وہ جب دکھاوے کے لئے اپنے سارے سامانِ دنیا کو لے کر نکلتا تھا تو بڑے بڑوں کے منہ سے حسرت بھری آوازیں نکلتی تھیں ” يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (القصص-79) ھائے کاش ھمیں بھی وہ مل جائے جو قارون کو دیا گیا ، بے شک وہ بڑے نصیبے والا ھے ،،،،،،،،،،،سمجھانے والے سمجھا سمجھا کر رہ گئے کہ "وَ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الصَّابِرُونَ ( القصص- 80 )
مت ماری گئ ھے تم لوگوں کی کہ سمجھتے نہیں ھو کہ اللہ کی عطائیں بہترین بدلہ ھیں اس شخص کے لئے جس نے ایمان کے ساتھ اچھے عمل کیئے ،، مگر یہ اجر تو انہیں کو ملتا ھے جو صبر کرتے ھیں ،
پھر جب وہ دولت کا حق ادا نہ کر سکا اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا تو وھی اگلے دن کہنے لگ گئے کہ ” وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَوْلا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَيْكَأَنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ ( القصص -82)
گویا یہ تو وھی بات ھوئی کہ اللہ جس کا رزق چاھتا ھے کھول دیتا ھے اور جس کا چاھتا ھے ناپ تول کر دیتا ھے ، اگر اللہ نے ھمیں غریب بنا کر احسان نہ کیا ھوتا تو آج ھم بھی اسی طرح دھنسا دیئے جاتے ، واقعی یہ بات سچی ھے کہ اللہ ناشکروں کو کامیاب نہیں ھونے دیتا ،،،،،،،،
جس کی سیٹ او کے ھو مگر پیسے لے کر کسی دوسرے کو الاٹ کر دی جائے تو وہ روتا پیٹتا اور فریاد کرتا ھے ، اور جس نے چار پیسے رشوت دے کر بورڈنگ کرا لی ھے وہ مسکراتا اور گنگناتا ھے ،مگر جب وہ جہاز حادثے کا شکار ھو جاتا ھے تو آنسو دونوں طرف ھوتے ھیں ، بچ جانے والے کے گھر والے اسے گلے لگا کر خوشی سے رو رھے ھوتے ھیں اور اللہ کا شکر ادا کر رھے ھوتے ھیں کہ کسی نے رشوت دے کر ان کے حصے کی موت خرید لی اور ان کے بچے کو بچا لیا ،، دوسری جانب مر جانے والے کے گھر والے بھی رو رھے ھوتے ھیں اور جسے کل چالاکی اور ھوشیاری سمجھ رھے تھے اس کو بیوقوفی سمجھ کر دہاڑیں مار رھے ھوتے ھیں ،،
جس کے اولاد نہیں ، وہ حرام حلال کی تمیز کیئے بغیر ھر قیمت پر اولاد لینا چاھتے ھیں اور جن کے یہاں اولاد ھے مگر اس نے تتے توے پہ کھڑا کیا ھوا ھے ، وہ اس لمحے کو رو رھے ھیں جب وہ پیدا ھوا تھا ، جن کی معذور ھے وہ اپنے غمزدہ ھیں کہ ان کو ادھوری اولاد دے دی ھے اور گھر کو اسپتال بنا دیا ھے ،، ھر طرف امتحان ھی امتحان ھیں ،، اور گلے ھی گِلے ھیں ،، کوئی اس طرف نہیں سوچتا کہ نہ یہ زندگی آخری زندگی ھے اور نہ یہ اسٹیٹس آخری اسٹیٹس ھے ،، ھمیں پھر اٹھنا ھے اور پھر ان امتحانات کا ریزلٹ آؤٹ ھونا ھے ،، وہ ریزلٹ اھمیت رکھتا ھے کہ ” اصلی اور حقیقی ” نہ ختم ھونے والی زندگی کا دارو مدار اس دن کے نتیجے پر ھے ،،،