قرآن_کی_جمع_آوری تحریر منظرزیدی
لفظ "کتاب” ، الکتب سے مشتق ہیں جس کے معنی لکھنا ہیں—-اسی سے ہم اردو میں بھی لفظ "کتابت” استعمال کرتے ہیں جس کے معنی کسی لکھی ہوئی عبارت کے ہوتے ہیں—–
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے پہلے سورے کا نام "فاتحۃالکتاب” ہے—یعنی کتاب کی ابتداء—–پیغمبراکرم ص سے منقول بہت سی روایات کے پیشِ نظر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خود آنحضرت ص کے زمانے میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا—
یہاں سے ایک دریچہ , اسلام کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کی جانب کھُلتا ہے کہ کیا واقعی قرآن کریم ، پیغمبراکرم ص کے زمانے میں پراگندہ تھا اور بعد میں حضرت ابوبکررض و عمررض کے زمانے میں مرتب ہوا؟
یا ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم ، پیغمبراکرم ص کے زمانے ہی میں اسی ترتیب کے ساتھ موجود تھا جو آج ہمارے یہاں موجود ہے—-اور اس وقت بھی قرآن کریم کے آغاز میں یہی سورۃ الحمد تھی—-جو آج کے قرآن میں موجود ہے—–
دو متضاد چیزیں جمع نہیں ہوسکتیں—–
۱-سورۃ الحمد کا نام ، رسول اکرم ص نے "فاتحۃ الکتاب” رکھا-
۲-اور یہ سورہ ، نزول کے اعتبار سے پہلا سورہ نہیں ہے—-
لہٰذا اگر رسول اکرم ص نے اس سورے کو کتاب کی شروعات قرار دیا تو اس کو نزول کے اعتبار سے پہلا سورہ ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہے—–تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول اکرم ص نے اس سورے کو بعد میں نازل ہونے کے باوجود ، ترتیبِ قرآن میں پہلا سورہ قرار دیا—-جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم کی تربیت ، رسول اکرم ص کی مقرر کردہ ہے——
اس کے علاوہ بھی بہت سے قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبراکرم ص کے زمانے میں ہی خود رسول اکرم ص کی نگرانی میں جمع کیا جاچکا تھا——-
اس سلسلے میں ہمارے—–
پہلے گواہ "خوارزمی” ہیں جو اہل سنت کے مشہورومعروف عالم ہیں وہ اپنی کتاب "مناقب” میں "علی بن ریاح” سے نقل کرتے ہیں کہ قرآن کریم کو حضرت علی رض اور ابیّ بن کعب رض نے پیغمبراکرم ص کے زمانے ہی میں جمع کردیا تھا-
دوسرے گواہ "حاکم نیشاپوری” یہ بھی اہل سنت کے مشہور عالم ہیں یہ اپنی کتاب "مستدرک” میں زیدبن ثابت رض سے روایت کرتے ہیں کہ-
زید کہتے ہیں کہ ہم لوگ قرآن کی مختلف آیتوں یا حصّوں کو جمع کرکے پیغمبراکرم ص کی خدمت میں لے کر جاتے تھے اور پھر آنحضرت ص جس آیت یا جس حصّے کو قرآن میں جس جس آیت یا حصّے کے ساتھ لکھنے کا کہتے ہم وہاں لکھ دیتے لیکن پھر بھی یہ قرآن لکھا ہوا قرآن متفرق تھا پھر آنحضرت ص نے حضرت علی رض سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں اور ہمیں اس کی حفاظت کے لئے تاکید فرماتے تھے—-
اس کے علاوہ طبرانی اور ابن عساکر یہ دونوں "شعبی” سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم ص کے زمانے میں انصار کے 6 افراد نے قرآن کو جمع کیا-
جبکہ قتادہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبراکرم ص کے زمانےمیں کن کن لوگوں نے قرآن کو جمع کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابیّ بن کعب،معاذ،زیدبن ثابت، اور ابوزید—–جو سبھی انصار میں سے تھے—-[صحیح بخاری جلد6]
اور مشہور شیعہ عالم ، سید مرتضیٰ کے مطابق بھی قرآن کریم ، پیغمبراکرم ص کے زمانے میں اسی صورت میں موجود تھا جو قرآن کی صورت آج ہے-
"علی بن ابرہیم” کی امام جعفر سے روایت ہے کہ رسول اکرم ص نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی تم قرآنِ کریم کو حریرکے کپڑوں ، کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر جو الگ الگ طور پرموجود ہے—-ان سب کو ایک جگہ جمع کرلو—-اس کے بعد روای کہتا ہے کہ حضرت علی اُٹھے اور قرآن کو ایک زرد کپڑے میں جمع کیا اور اس پر مہر لگائی——-
ان روایات کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات ہیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ہوجائے گی-
بہرحال شیعہ و سنّی روایات میں نقل ہونے والی روایات جن میں سورے حمد کو "فاتحۃالکتاب” کا نام دیا جانا ہمارے مؤقف کی تائید کے لئے کافی ہے-
#_سوال:
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تحقیق پر کس طرح یقین کیا جاسکتا ہے جبکہ بہت سے علماء کے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ قرآن کریم کو پیغمبراکرم ص کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا اور جمع کیا گیا—-کچھ کہتے ہیں حضرت علی رض نے جمع کیا اور کچھ دوسرے لوگوں کا نام لیتے ہیں-
اس سوال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ : حضرت علی رض کا جمع ہوا قرآن ، ہوسکتا ہے کہ خالی قرآن نہ ہو بلکہ اس میں قرآن کی تفسیر اور آیات کا شانِ نزول بھی شامل ہو—-جیسا کہ بعض علماء کا موقف بھی یہی ہے-
البتہ کچھ تاریخی شواہد و قرائن ایسے بھی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان رض نے قرائت کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا گیا—-چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نہیں تھا——-
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پیغمبراکرم ص کے زمانے میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم حضرت عمر رض اور حضرت عثمان رض کو نصیب ہوا——-تو ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی روایات ، ان اصحاب کی فضیلت سازی کا پہلو رکھتی ہیں—–کیونکہ—–ایسی صورت میں ان سوالوں کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں ہوگا-
۱-کیسے یقین کیا جائے کہ رسول اکرم ص نے اتنے اہم کام پر کوئی توجہ نہ دی ہو؟جبکہ رسول اکرم ص چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی بہت اہمیت دیا کرتے تھے-
۲-کیا قرآن اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نہیں ہے؟
۳-کیا قرآن کریم اسلامی ضابطہ حیات نہیں ہے؟
۴-کیا قرآن کریم ، اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نہیں ہے؟
۵-کیا پیغمبراکرم ص کی نگرانی میں قرآن کریم کا جمع نہ ہونا خود قرآن کریم کے مستند نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے؟
۶-آخر کیوں پیغمبر اکرم ص کو یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ اگر میں نے اپنی نگرانی میں قرآن کو جمع نہ کیا اور ترتیب نہ کیا تو قرآن کا کچھ حصّہ نابود ہوسکتا ہے یا مسلمانوں میں قرآن میں کمی بیشی کے سلسلے میں اختلاف ہوسکتا ہے؟
اس کے علاوہ رسول اکرم ص کی یہ حدیث کہ میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتابِ خدا اور دوسری میری سنّت یا عترت—–
مذکورہ حدیث شیعہ سنی دونوں میں مشہورومعروف ہے اس حدیث سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم ، رسول اکرم ص کی وفات سے پہلے ہی ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا——
اور اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ خود آنحضرت ص کی زیرِنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا—اور وہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ہیں تو اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ممکن ہے کہ ہر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندہی کرتی ہو—–