مسئلہِ امامت ! از قاری حنیف ڈار
اللہ پاک کا فرمان ھے کہ اللہ پاک کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ،یعنی جس بات کی وہ استطاعت نہیں رکھتا اللہ پاک اس کو اس بات کا مکلف بھی نہیں ٹھہراتا ـ جب نبی اور رسول کو جاننا کسی انسان کی وسعت نہیں جب تک کہ وہ نبی یا رسول خود ان تک اپنی نبوت اور رسالت کا دعوی نہ پہنچا دے ،،تو پھر کسی امام کو پہچاننا کس طرح کسی انسان کی وسعت میں ھے ؟ اگر امام کو پہچانے بغیر مرنا جاھلیت کی موت مرنا ھے تو پھر اس امام کا باھر نکل کر دعوئ امامت کرنا بھی اس پر فرض ھے تا کہ لوگ اس کو پہچان سکیں ، جب وہ امام ھی صدیوں سے دڑ مار کے کسی غار میں چھپا بیٹھا ھے تو پھر لوگ جاھلیت کے موت کیسے مر رھے ہیں ؟ اس بارے میں شیخ الجبل کا مسئلہ فقہی کتابوں میں بطور نظیر موجود ھے کہ ایک بوڑھا کسی پہاڑ کی چوٹی پر رھتا ھے ،وہیں کوئی پانی کا چشمہ موجود ھے اس کے پاس کوئی بکری وغیرہ بھی موجود ھے جس کا دودھ پی لیتا ھے کوئی پھلدار درخت ہیں جو اس کے پیٹ بھرنے کا سبب بن جاتے ہیں الغرض اس کو پہار سے اتر کر بستی میں آنے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی ،، اس دوران بستی میں کسی شخص نے دعوئ نبوت کیا جس کی خبر اس بوڑھے تک نہ پہنچی اور وہ مر گیا ، اس صورت میں کہا گیا کہ وہ بوڑھا معذور شمار ھو گا ، اس نبی پر ایمان لانے کا مکلف نہیں تھا جس کی خبر اس تک نہ پہنچی ، نہ ھی اس نبی کی شریعت کا وہ پابند ھو گا جس کی خبر اس تک نہ پہنچی ! بس اسی کو اس نامعلوم امام پر قیاس کر لیجئے جس کی عدم موجودگی پر پبلک کوجاھلیت کی موت مرنے کی وعید سنائی جا رھی ھے ، ویسے وہ روایت جو اس موضوع پر بیان کی جاتی ھے وہ رسول اللہ ﷺ پر بہتان کے سوا کچھ نہیں ، نہ روایتاً ثابت ھے اور نہ ھی درایتاً درست ھے ،،
[( من مات ولم يعرف إمام زمانه مات ميتة جاهلية )
اس کی بجائے اصل حدیث کچھ اور ھے واقعہ حرہ کے دوران جب یزید کا لشکر اھل مدینہ پر چڑھ آیا تو عبداللہ بن عمرؓ باغیوں کے سردار کے پاس آئے اور اس کو رسول اللہ ﷺ کا قول مبارک سنایا ـ
[روى مسلم في صحيحه عن نافع قال : جاء عبد الله بن عمر إلى عبد الله بن مطيع حين كان من أمر الحرة ما كان زمن يزيد ابن معاوية ، فقال : اطرحوا لأبي عبد الرحمن وسادة ، فقال إني لم آتك لأجلس ، أتيتك لأحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوله ، سمعته يقول : ( من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ، ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية )
امام مسلم نافع سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓ عبداللہ بن مطیع بن اسود کے پاس تشریف لائے تو عبداللہ بن مطیع نے ایک بندے سے کہا کہ ان کو تکیہ پیش کرو ، جس پر ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں تمہارے پاس بیٹھنے نہیں آیا البتہ رسول اللہ ﷺ کا قول پہنچانے آیا ھوں جو میں نے آپ ﷺ سے سنا تھا کہ جس شخص نے حاکم کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ھو گی ، اور جو اس حال میں مر گیا کہ اس کے گلے میں کسی کی بیعت کا عہد نہ ھوا وہ جاھلیت کی موت مرا ـ
اب لوگوں نے اس کو پراسرار اماموں اور پیروں کے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا جبکہ یہ معلوم و معروف حکمرانوں کے بارے میں ھے جو لوگوں سے اپنی اطاعت کی بیعت لیتے ہیں ، یہ ووٹ اصلاً اسی بیعت کی جدید ترین صورت ہے ، جس میں مختلف دعویدار ھمارے سامنے آتے ہیں اور ھم ان میں سے کسی کو ووٹ دے کر اس کی بیعت کر لیتے ہیں ،
بارہ امام اور بارہ نقیب !
بنی اسرائیل چونکہ یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کی نسل میں سے تھے لہذا بارہ قبیلوں میں بٹ گئے تھے جن میں آپس میں اتنی چپقلش تھی کہ وہ حالتِ در بدری میں بھی کسی دوسرے قبیلے کے گھاٹ سے پانی پینے پر تیار نہ تھے جس کی وجہ سے ان میں سے ھر قبیلے کے لئے الگ چشمہ پھاڑا گیا [فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عیناً ،،] جب موسی علیہ السلام نے پتھر پر عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ،ھر قبیلے کو اس کا چشمہ بتا دیا گیا ، اب موسی علیہ السلام نے ان میں سے ھرقبیلے کا اپنا ایک بڑا یا کھڑپینچ چنا جو ان تک موسی علیہ السلام کے احکامات پہنچاتا اور اس بات کی نگرانی رکھتا کہ کوئی ان کی خلاف ورزی نہ کرے ، یہی وہ بارہ امام تھے جن کے بارے میں سورہ الم السجدہ میں بتایا گیا کہ [ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (24) ] اس سے مراد ھر قبیلے میں سے لیڈر ٹھہرانا ھے ،، قرآن حکیم میں امام بمعنی لیڈر ھی استعمال ھوا ھے ،، اگر امام کا نام آ جانے سے مروجہ امامیہ کے امام ہیں تو دوسری قسم کے امام بھی تو اللہ نے ھی بنائے ہیں جو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں ،، ان کی نسبت بھی اللہ پاک نے اپنی طرف فرمائی ھے ـ
[ و جعلناهم ائمة یدعون الی النار و یوم القیامة لا ینصرون 42 – القصص ]
اور ھم نے ان کو امام بنایا جو ان کو آگ کی طرف دعوت دیتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہ کی جائے گی
اسی طرح سورہ توبہ میں کفر کے اماموں کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ اگر مشرکین مکہ اپنے عہد کی پابندی نہ کریں تو کفر کے اماموں کو قتل کر دو ،، یہاں بھی امام بطور لیڈر ہی استعمال ھوا ھے ـ
[وان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ] توبہ
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جو امام بنانے کی بات کی گئ ھے تو وہ بھی انسانیت کا لیڈر یا راہنما بنانے کی بات کی گئ ھے جس کی عملی صورت یہ ھے کہ تینوں مذاھب ،یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ان کی ھستی پر متفق ہیں اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کر کے فخر محسوس کرتے ہیں ـ
انبیاء امام مقرر نہیں کیا کرتے تھے بلکہ باشاہ مقرر کیا کرتے تھے جو انبیاء کی طرف سے جنگ کیا کرتے تھے ، جب بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام کے بعد ایک نبی سے مطالبہ کیا کہ ھمارا کوئی بادشاہ مقرر کریں تا کہ ھم اللہ کی راہ میں قتال کریں ،، اس نبی نے کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ھو کہ بادشاہ مقرر ھونے ساتھ ھی تم پر قتال فرض ھو جائے اور پھر تم قتال سے مکر جاؤ؟ ثابت ھوا کہ قتال حکومت کے ساتھ ھی مخصوص ھے اسی وجہ سے مکے میں ۱۳ سال صحابہؓ کے مطالبے کے باوجود قتال فرض نہ ھوا مگر جب رسول اللہ مدینے کی طرف بطور بادشاہ تشریف لے گئے تو رستے میں ھی قتال کی آیات نازل ھو گئیں ، ان کے انہی مطالبات کی طرف سورہ آل عمران میں احد کے پس منظر میں فرمایا گیا کہ اس وقت تو تم موت سے ٹکرانے کی تمنا کیا کرتے تھے ،چنانچہ اس معرکے میں تم نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ،،
[ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (البقرہ ـ 246) ]