تنقید و استنباط ! از قاری حنیف ڈار
تنقید ھمیشہ اس پر کی جاتی ھے جس کی اصلاح کا امکان ھو ،مگر جب کوئی شخص اللہ کو پیارا ھو جاتا ھے تو پھر اس کی اصلاح کے امکانات بھی ختم ھو جاتے ہیں ، اب ان پر تنقید نہیں کی جاتی ، بلکہ ان کے اعمال و افعال سے استنباط کیا جاتا ھے تا کہ سبق حاصل کیا جائے ، جو لوگ فوت شدگان کے کسی قول و فعل کا دفاع کرتے ہیں وہ اصل میں اپنی جنگ لڑ رھے ھوتے ہیں اور اکابر کو مورچے کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ دیکھو جی یہ ھمارے بزرگوں کی گستاخی کرتا ہے ،، جبکہ ھم استنباط کر رھے ھوتے ہیں کہ جناب جب نبئ کریم ﷺ کی صحبت میں رہنے والی اتنی عظیم ہستیاں صرف حکومت کی تبدیلی جیسے معمولی معاملے میں چھیاسی ھزار بندے ’’ شھید ‘‘ کر سکتے ہیں جو پاکستان میں پانچ سال میں پانچ بار ھو جاتا ھے اور جاپان میں سال میں تین بار ھو جاتا ھے مگر خون کا ایک قطرہ نہیں گرتا ـ ایسے معمولی مرحلے کے لئے اتنا کشت و خون عبرت کا مقام ہے ـ
کیا کوئی ایسا شورائی سسٹم موجود تھا کہ جو کسی شخص کے کرسی سے ہٹتے ہی فوری طور پر کسی دوسرے شخص کا انتخاب کر سکے ؟ اگر تھا تو حضرت عثمان کی شھادت کے بعد وہ ایکٹیو کیوں نہ ھوا ؟ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو مدینے آ کر اس سسٹم میں اپنی رائے دینے کی بجائے جتھہ لے کربصرے کیوں جانا پڑا ؟ ظاھر ھے مدینے میں ایسا کوئی سسٹم سرے سے موجود نہیں تھا ، یہ سوال بہت اھم ھے کہ موجودہ ترقی یافتہ شورائی سسٹم بہتر ھے یا وہ سسٹم جسے سرے سے سسٹم کہا ھی نہیں جا سکتا ،، ھر خلیفہ الگ میکنزم سے منتخب ھوا گویا پچھلے انتخابی طریقے کو رد کر دیا گیا ،، بقول حضرت عمرؓ کہ (( جس طرح ابوبکرؓ کا انتخاب ھوا ھے اگر آئندہ کوئی اس طرح سے منتخب ھونے کی کوشش کرے تو اس کی گردن اڑا دو ، ابوبکرؓ کا انتخاب ہنگامی حالات میں کرنا پڑا تھا ) ثابت ھوا کہ پہلا انتخاب ھی آئیڈیل نہیں تھا اگرچہ نتیجہ الحمد للہ آئیڈیل نکلا ،،حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نامزد کیا مگر حضرت عمرؓ نے اس کو بھی ناپسند کیا اور آئندہ امیر کے لئے نیا طریقہ اختیار کیا گیا کہ چھ ارکان کی کمیٹی میں سے کسی کو چن لیا جائے ،، حضرت عثمان منتخب ھو گئے مگر ایک سقم جو اس شورائی سسٹم میں موجود تھا اس کو دور کرنے کی کسی نے کوشش نہ کی ،کہ امیر کی مدت مقرر کر دی جائے کہ اتنے سال بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ھو گا جس میں سابقہ خلیفہ بھی حصہ لینا چاھتا ھے تو لے سکتا ھے تا کہ اس کو فریش ووٹ مل جائے اور معترضین کے منہ بند ھو جائیں ،،
۵ سال تک لڑتے رھے ایک ایک دن میں ھزاروں شھید ھوئے مگر اس طرف کسی کا دھیان نہ گیا کہ اقتدار کسی کے ابا کی جاگیر نہیں یہ عوام کا حق ھے جس کو چاھے دے ، اس سے زیادہ فکر انگیز بات یہ ھے کہ وہ نظام آج بھی ناگا ساکی اور ھیرو شیما کے ایٹمی تابکاری سے بھی زیادہ پائیدار اثرات دکھاتا ھے ، جہاں اس کا نام لیا جاتا ھے بھائی بھائی کا گلا کاٹنا شروع کر دیتا ھے ، اپنے سوا سب کو کافر کہتا ھے اور بندے مارنے میں ثوابِ دارین دیکھتا ھے ،، جس قدر انسانیت کا خون اسلام کے نام پر مذھبی شدت پسندوں میں موجودہ دہائیوں میں بہایا ھے وہ کسی سے چھپا ھوا نہیں ھے ،، احمد شاہ مسعود اور حکمتیار کی آپس کی چپقلش کالج کے زمانے سے تھی ، ان کی داڑھی بڑی ھونے کے ساتھ ساتھ وہ چپقلش بھی بڑھتی گئ اور پھر سب نے دیکھا کہ جس کابل کو روسیوں نے بچا بچا کر رکھا تھا اسی کو موہنجو دڑو ان دونوں کالج میٹ دشمنوں نے بنا دیا ِ ، اولاد ھمیشہ اپنے والدین کی غلطیوں سے سیکھتی ہے ،،
جاری ہے !