اھل کتاب اور ھمارا تصورِ دین ! از قاری حنیف ڈار
سورہ المائدہ نے بہت اھم مضامین کو فائنل شکل دی ھے ـ حلت اور حرمت کے فیصلے، اھل کتاب کے ساتھ تعلقات ،اور پھر دین کی تکمیل کا اعلان ـ سورہ آلعمران میں اللہ پاک نے اھل کتاب کو توحید کی دعوت دی کہ ’’ کہہ دیجئے کہ اے اہلَ کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ھمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ھم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کریں گے، اور یہ کہ اس کے ساتھ ھم کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور ھم ایک دوسرے کو رب نہیں بنائیں گے۔ پھر اگر وہ اس بات یعنی توحید سے منہ موڑیں تو تم اسے مسلمانو کہہ دو کہ اے اھل کتاب تم گواہ رھو کہ ھم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ـ
[ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ [آل عمران:64]
پھر بات کو مزید واضح کیا کہ ھم رسول اس لئے نہیں بھیجتے کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنا لے بلکہ اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ ان کو رب والا بنا دے ،
[ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾
کسی بشر کے لئے جائز نہیں کہ اللہ تواس کو کتاب و حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں کو کہے کہ میرے بندے بن جاؤ، مگر وہ ان سے کہے کہ رب والے بن جاؤ ، اس وجہ سے کہ یہی کچھ تمہیں کتاب میں سکھایا جاتا ھے اور یہی کچھ تم پڑھتے پڑھاتے ھو ،،
سورہ المائدہ میں اللہ پاک نے اس بات کو منتہا تک پہنچا کر دین مکمل فرما دیا ـ
اھل کتاب بعض معاملات میں اپنے یہاں سختی دیکھ کر نبئ کریم ﷺ کے پاس نرم فیصلہ لینے پہنچ جاتے ،، اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے پاس کس طرح منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں جبکہ ان کے پاس جو تورات ھے اس میں اللہ کا حکم موجود ھے پھر اس سے منہ موڑ کر آپ کی طرف چلے آتے ہیں ،، یعنی اگر ان کو دین میں نرمی اور شفقت والا فیصلہ درکار ھے تو سیدھا سیدھا اس رسول پر ایمان لاؤ جس پر وہ حکم نازل ھوا ھے، ورنہ جس کتاب پر ایمان ھے اس میں نازل شدہ حکم پر عمل کرو ،،
[ و کیف یحکمونک و عندهم التوراة فیها حکم الله ثم یتولون من بعد ذلک و ما اولئک بالمؤمنین ]
وما اولئک بالمومنین کا مطلب ھے کہ یہ لوگ آپ پہ ایمان نہیں رکھتے ، یعنی فیصلہ لینے کے لئے آپ پر ایمان لانا ضروری تھا جس کے بعد وہ آپ کی ڈومین میں آ جاتے اس کے بعد تینوں مذاھب کو کہا گیا کہ وہ اپنی اپنی طرف نازل شدہ کتابوں پر عمل کریں اور جو کسی کتاب پر ایمان رکھتے ھوئے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر ظالم اور فاسق ھو گا ،،
﴿ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآَيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ﴾ ]
اس پوری آیت کو پڑھیں ، اس میں تورات کے بارے میں یہود کو کہا گیا ھے کہ تورات ھم نے نازل کی ھے اس میں بھی ھدایت و نور ھے اسی کے ذریعے انبیاء بنی اسرائیل اور علمائے یہود فیصلے کرتے آئے ہیں لہذا تم لوگوں سے مت ڈرو مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو تھوڑے مول کے عوض مت بیچو ، اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہیں کرے گا تو ایسے لوگ کافر ہیں ،، اس کا موضوع یہود اور تورات ھے ، پھر اس سے اگلی آیات کو موضوع انجیل ھے اور اس میں عیسائیوں کے لئے بھی یہی حکم ھے کہ اگر وہ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے تو وہ ظالم ہیں [
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ـ المائدہ 45
[ وليحكم أهل الإنجيل بما أنزل الله فيه ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون 47 ـ المائدہ ]
اور چاہئے کہ انجیل والے فیصلے کریں اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے انجیل میں ـ اور جس نے فیصلہ نہ کیا اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ھے تو ایسے لوگ ھی فاسق ہیں ،،
کس قدر واضح حکم ھے اھل انجیل کو کہ وہ فیصلے انجیل کے مطابق کریں اور یہ رسول پاک ﷺ کی بعثت کے بعد ھمارے رسول ﷺ کے دھن مبارک سے بذریعہ وحی دیا جا رھا ھے ، جس طرح سپریم کورٹ کیس کسی نچلی عدالت کو ریفر کرتی ھے کہ ھائی کورٹ اس کیس کو سنے ،، اس کے باوجود یہ کانسیپٹ پتہ نہیں کہاں سے اسٹیبلش کر لیا گیا کہ سابقہ کتابیں منسوخ ھو گئیں ہیں ،، وہ کلمہ پڑھتے ہی نہ صرف مسلمان بلکہ کسی بھی یہودی عیسائی کے کلمہ پڑھتے ہی اس کے لئے منسوخ ھو جائیں گی اور وہ اس کتاب کے مطابق فیصلہ کرانے کا پابند ھو جائے گا جس پر وہ ایمان لایا ھے ، مگر جب تک وہ اھل قرآن کی بجائے اھل تورات اور اھل انجیل ھے تب تک اس پر اپنی کتاب کے احکامات پر چلنا ھی واجب ھے اور اسی کے مطابق ان کا حشر میں حساب کتاب ھو گا !
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ھے کہ آپ ان میں اس کے مطابق فیصلہ کریں ، جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ھے ـ
وَأَنِ ٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْ وَٱحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَنۢ بَعْضِ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَٱعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ لَفَٰسِقُونَ