نبی کریم ﷺ کا قرآن کو بھول جانا
قرآن کہتا ہے کہ نزول کے وقت قرآن کو یاد رکھنے کے لیے آپ اسے دھرانے کی زحمت نہ کیا کریں. قرآن کو جمع کرنا، اس کی آپ سے تلاوت کروانا ہماری ذمہ داری ہے. جب ہم پڑھ رہے ہوں تو آپ ہماری تلاوت پر توجہ رکھیں، پھر قرآن کی تعلیم و بیان بھی ہماری ذمہ داری ہے. (القیامہ)
ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ کچھ بھی نہیں بھولیں گے مگر جو اللہ بھلانا چاہے (الاعلی)
یہ کہنا کہ آپ خدا نخواستہ کچھ آیات بھول گئے تھے جو کسی دوسرے فرد کی تلاوت سے آپ کو یاد آئیں تو ایسی روایت نرم سے نرم تعبیر میں "وہم راوی” ہے.
اگر آپ کے ساتھ ایسا ہونے کا امکان ہو تو قرآن کی حفاظت اور مکمل ہونے سے ہی اعتماد اٹھ جاتا ہے،اور خیال ہوتا ہے کہ شاید کوئی اور آیات بھی ایسی ہوئ ہوں جو آپ بھول گئے اور کسی نے یاد بھی نہیں کروائیں.
رہی بات
ما ننسخ من آیۃ أو ننسھا کی تو اس کا سیاق یہ ہے کہ پچھلی آیات میں قرآن نے یہ دعوی کیا کہ قرآن پہلی الہامی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہے اور اس کا مھیمن ہے جس پر یہ اعتراض ہو سکتا تھا کہ پھر قرآن نے تورات کے بعض احکام تبدیل کیوں کر دئیے تو اس کا جواب ہے کہ
قرآن میں اس سے بہتر یا اس کے مماثل احکام آ گئے ہیں. (طفیل ہاشمی)