انسان کو دولت کے پیمانوں سے ماپنے والوں کے لئے ،، تحریر قاری حنیف ڈار
غربت نہ تو کوئی عیب ھے، نہ کوئی غیر فطری چیزھے ، رات اور دن ،، گرمی اور سردی کی طرح امیری اور غریبی بھی اللہ پاک کی حکمت کے جوڑے ھیں،، اور یہ سب انسان کے فائدے کے لئے ھی ھیں،، یہ الگ بات ھے کہ انسان کسی حال میں بھی خوش نہیں رھتا،، آج کل غربت پر بہت دردناک پوسٹیں چل رھی،، ملحدین کے پیج پر جاؤ تو ما شاء اللہ ان لوگوں نے تو باقاعدہ اللہ پر مقدمہ چلایا ھوا ھے کہ وہ اگر کچھ کر سکتا ھے تو اپنی شکتیوں کو بروئے کار لاتے ھوئے غربت ختم کر کے دکھائے،،ورنہ بھوک سے خود کشیاں کرنے والوں کا خون تو کم از کم اپنے سر لے،،مسلمانوں سے سوال ھو رھا ھے کہ ایسا بے درد خدا جو لوگوں کو بھوک سے مارے جا رھا ھے،، بھلا رحیم اور کریم خدا کیسے ھو سکتا ھے،، وغیرہ وغیرہ،، میں یہ سب کچھ دیکھتا رھتا ھوں ، اپنے دوست جناب حنیف سمانا صاحب کی پوسٹ پر کسان پارٹی کے راہنما کے کمنٹس کے بعد سوچا چار حرف گھسیٹ ھی لئے جائیں،، پھر پتہ نہیں حنیف ڈار یا حنیف سمانا میں سے کون ھو گا اور کون نہیں،،،،
اللہ پاک نے غربت کو اپنے سر لیا ھے،اس کو اون کیا ھے کہ یہ سب میرا ھی کمال ھے،، اگر میں سارے لوگوں کو امیر بنا دوں تو زمین میں کوئی کسی کے کام نہ آئے اور معاشرے کے سارے کام ٹھپ ھو جائیں،، یہ غربت ھے جسکی وجہ سے تمہیں کپڑے سینے کو درزی، جوتے کے لئے موچی،مکان بنانے کو مستری مزدور، تندور پر روٹی پکانے والے دستیاب ھیں،، مجبوری نے ان کو تمہارے قابو میں دیا ھوا ھے،، سورہ شوری کی آیت نمبر 27 میں اللہ پاک نے فرمایا ھے،،اگر اللہ اپنے سارے بندوں کا رزق کھول دے تو وہ زمین میں سرکش بن جائیں،، بغاوت کر دیں،، مگر اللہ ایک خاص اندازے کے ساتھ رزق تقسیم کرتا ھے،،وہ اپنے بندوں کی فطرت سے بخوبی واقف ھے ! پھر اگلی ھی سورت الزخرف کی ایت 32 میں ارشاد فرمایا ھے،،ھم نے دنیا کی زندگی میں معیشت تقسیم کی ھے اور کچھ لوگوں کو کچھ پر معاشی لحاظ سے فوقیت دی ھے تا کہ تم ایک دوسرے کو قابو میں رکھ کے اپنے کام چلاؤ،،، یعنی اگر سب لوگ ایک ھی جیسے مالی درجے کے ھوں گے تو کون کسی کی خاطر کسی کے تابع ھو کر کام کرے گا؟ اور دنیا مین ” میں بھی رانی تو بھی رانی کون بھرے گا پانی؟ ” والا معاملہ ھو جائے گا،،
عملی طور پر دیکھ لیں ھمارے معاشرے مین جب کبھی کوئی ناراضگی ھوتی تھی تو فصلوں کی کٹائی،گاھی اور ساون میں مکان لیپنے کے موسم میں جھٹ پٹ صلح صفائیاں ھو جاتیں تھیں کیونکہ یہ کام کرنے کو چار ھاتھ سب کو مطلوب ھوتے تھے اور دونوں فریق صلح کے لئے اپنے اپنے مطلب کی خاطر تیار بیٹھے ھوتے تھے،، آج مکان پکے بن جانے اور کٹائی ، گاھی کے لئے تھریشر اور ریپر مشینوں کے آ جانے کے بعد لوگ ناراض کے ناراض مر جاتے ھیں،،زور لگا لو راضی نہیں ھوتے کیونکہ مجبوریاں ختم ھو گئی ھیں،، تصویر کا دوسرا رخ سورہ الفجر میں اللہ پاک نے دکھایا ھے کہ” جب ھم کسی بندے کا امتحان لیتے ھیں تو اس کو بے تحاشہ رزق دیتے ھیں اور وہ کہتا ھے کہ رب نے مجھے بڑی عزت دی ھے،، اور جب دوسری طرح امتحان مطلوب ھوتا ھے تو ھم اس کا رزق بہت ناپ تول کر دینا شروع کر دیتے ھیں تو وہ کہتا ھے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا،،،،پھر ان دونوں باتوں کا رد فرما دیا کہ ھر گز نہیں،،امارت عزت نہیں اک امتحان ھے کہ تم یتیموں کا خیال رکھتے ھو یا نہیں،،اور غریبی کوئی ذلت نہیں امتحان ھے،،کہ تم خواھشوں کی بھرمار میں اللہ کی حدوں کا خیال رکھتے ھو یا نہیں،،
عزت اور ذلت کے فیصلے قیامت کے دن ھوں گے،، آج میڈیا نے دولت کو ایک ذات بنا دیا ھے،،جو بہت بلند ذات ھے،،اور غربت کو بھی ایک کاسٹ یا ذات بنا دیا ھے کہ غریب کم ذات ھے،، یہ تصور غلط ھے ،اسلام اس کی بیخ کنی کرتا ھے،، غریب ھمیشہ سے تھے ،مگر غربت کا ذلت سمجھنے کا مغالطہ میڈیا نے بڑھایا ھے،جسکی وجہ سے ھر کوئی فرسٹریشن کا شکار ھو کر خود کشی کی طرف لپکتا ھے ! نبی کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص مسجد کے سامنے سے گزرا تو آپ نے اصحابؓ سے پوچھا،اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ھے،، صحابہؓ نے اپنی معاشرتی سوچ کا اظہار کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ پیسے والا بندہ ھے،، کسی کی ضمانت دے تو قبول کی جائے،، کسی کا دروازہ کھٹکھٹائے تو فوراً کھولا جائے اور رشتہ مانگے تو انکار نہ کیا جائے !!
اللہ کےنبیﷺ خاموش ھو گئے،،کچھ دیر بعد ایک اور صاحب گزرے،،حضور نبی کریمﷺ نے پوچھا اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ھے؟ اس پر سارے صحابہ بیک زبان بولے کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ بس ایویں ھی ھے،، ضمانت دے تو قبول نہ کی جائے،،دروازہ بجائے تو کھولا نہ جائے اور رشتہ بھیجے تو رد کر دیا جائے،، بس یہ سننا تھا کہ اللہ کے رازدارﷺ نے فرمایا،،اب میری سنو،، وہ جو پہلا بندہ گزرا تھا اور تم نے اس کی تعریف میں یہ ،یہ بولا تھا،، اگر یہ ساری زمین ویسے آدمیوں سے بھر جائے تب بھی اللہ کی قسم اللہ کو یہ بعد والا ان سب سے پیارا ھے،،اگر یہ قسم کھا لے تو اللہ جھٹ اس کی قسم پوری کر دے !!
پھر نبی کریمﷺ نے خود دعا مانگی ھے۔۔، اے اللہ مجھے غریبوں میں زندہ رکھ، غریبوں میں موت دے اور حشر میں غریبوں کے ساتھ اٹھا،، آپ ﷺ نے فرمایا عائشہ مجھے اللہ نے فرمایا ھے کہ محمد ﷺ احد کو سونے کا بنا دوں،،تو خرچ کرے تو کم بھی نہ ھو،،مگر میں نے ائے عائشہؓ یہ دعا کی ھے کہ ائے مجھے ایک دن دے تا کہ میں تیرا شکر ادا کروں اور ایک دن بھوکا رکھ کہ میں تجھ سے سوال کروں،، آپ ھر سال اپنی امت کے غریبوں کی طرف سے کالے رنگ کا مینڈھا قربانی دیا کرتے تھے اور فرماتے” اے اللہ یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ھے جو قیامت تک آئیں گے اور قربانی کی استطاعت نہ رکھیں گے،، گویا امیر کی قربانی تو خدا جانے قبول ھوتی ھو گی یا ریاکاری کی دفعہ لگے گی،،مگر غریب کی ایڈوانس میں منظور شدہ پوسٹیڈ چیک کی طرح قبول شدہ ھے،،
غریب کے لئے اللہ قرض مانگتا ھے ،، اور غریب کی مدد کو اپنے اوپر قرض قرار دیتا ھے،، نبی کریمﷺ نے فرمایا ھے،،میں نے جنت میں جھانکا تو اسے پریشان حال غریبوں سے بھرے پایا، اور جہنم میں جھانکا تو اسے متکبر اور پیٹ بھرے لوگون سے بھرے پایا،، مسئلہ امارت اور غربت نہیں،، مسئلہ سوچ کا ھے،،ھماری سوچ گھٹیا ھو گئی ھے،،سگا بھائی غریب ھو گا تو ھمارا رویہ اس کے ساتھ بےرخی کا ھو گا،، رشتہ لینے دینے میں ھم سگے رشتوں کو دولت میں تولتے ھیں،، جس کی وجہ سے لوگ غربت کو عیب سمجھتے ھیں ،، ورنہ جسطرح ایک ماں باپ کے بچے شکلوں مین خوبصورت اور بدصورت ھو کر بھی بہن بھائی ھی ھوتے ھیں،،اسی طرح امیر اور غریب ھو کر بھی رویوں اور میل جول میں فرق نہیں کرنا چاھئے،،
جن معاشروں سے غربت ختم کر دی گئی،،کیا وہ معاشرے جنت بن گئے ھیں؟ متحدہ عرب امارات میں دیکھ لیں،،کوئی لوکل غریب نہیں ھے،،سر کے اوپر سے بھی دولت برس رھی ھے اور پاؤں کے نیچے سے بھی،، پھر ان کو غریب امپورٹ کرنے پڑے،کیوںکہ غریب معاشرے کی جینویئن ضرورت ھے،،اس کے بغیر کوئی ملک یا معاشرہ نہیں چل سکتا،، اب کوئی فلپین سے امپورٹ کیا گیا،،کوئی بنگلہ دیش سے،، کوئی سری لنکا اور کوئی پاکستان سے،،، آج امارات مین دولت ھے مگر کوئی کلچر نہیں ھے،، بچوں کو سریلنکی زبان زیادہ آتی ھے اور عربی کم۔۔،، ان کے کلچر کا بیڑہ غرق ھو گیا ھے،، اگر ان کے اپنے غریب ھوتے تو یہ کچھ نہ ھوتا،، باقی قباحتیں اپنی جگہ پر ھیں،،
مگر لوگوں کے روئیے کا شکوہ تو ساغر صدیقی بھی کر گیا ھے کہ،
میری غربت نے اڑایا ھے میرے فن کا مذاق ،،،،
اور تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ھیں ،،
یہ سوشلسٹ لوگ نبیﷺ کی تبلیغ اور اسلامی انقلاب کو بھوکوں کی بغاوت ثابت کرنا چاھتے ھیں،، حالانکہ نبیﷺ رائل فیملی سے تعلق رکھتے تھے ،، اعلانِ نبوت سے پہلے آسودہ حال تھے،،تبلیغ کے دوران سب کچھ لگا دیا،، حاکم بن کے بھی مالی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا،،2، 2 ماہ گھر چولہا نہیں جلتا تھا،،اور کئی دن فاقہ ھوتا تھا،، بھوک سے روزہ رکھ لیتے تھے،،اور ھدیہ آنے پر بعض دفعہ خود بھی روزہ افطار کر دیا اور ازواج کو بھی افطار کرا دیا،، اپنی آل پر زکوۃ تک حرام کر دی،، ابو ھریرہؓ جو صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے،جبکہ مسلمانوں کے حالات اچھے ھو چکے تھے،، پھر بھی بھوک سے بے ھوش ھو جاتے تھے، عثمانؓ اور عبدالرحمان بن عوفؓ جیسے 600 اونٹ اور 600 غلام بیک وقت دینے والے بھی اسی معاشرے میں تھے،،30 ہزار غلام عبدالرحمان بن عوف نے آزاد کیا ھے،،
یہ دونوں طبقات ھمیشہ موجود رھے،، پسینہ خشک ھونے سے پہلے مزدور کی مزدوری ادا کرو،، آج اس نبوی حکم پر یورپ عمل کر رھا ھے،، گھنٹوں کے حساب سے مزدوری دیتا ھے،،اور ترقی کر رھا ھے، دوسری طرف مسلم ممالک میں غریب کا حق شیرِ مادر سمجھ کر ھضم کر لیا جاتا ھے،،پھر سوشلسٹوں نے روس اور مشرقی یورپ میں مزدور انقلاب برپا کر کے دیکھ جو لیا ھے کہ کیا ھوا ھے؟دنیا کے زرخیز ترین علاقے اس کے پاس تھے اور جفا کش ترین لوگوں پر مشتمل یہ اتنا بڑا علاقہ تھا کہ 9 اسٹینڈرڈ ٹائمز تھے اس سوویت یونین کے اندر،، پھر انجام کیا ھوا؟ اور آج چائنا میں مزدور پر ظلم و ستم کا کیا حال ھے ؟آج بھی لاکھوں لوگ چائنا کہ کنسنٹریشن کیمپوں میں پڑے ھیں،جن کو اصلاحی کیمپ کہا جاتا ھے،جہاں کے لوگوں کو فیکٹریوں میں فری کام کرایا جاتا ھے،،
یہ ناکام سوشلسٹ کہہ رھے ھین،، اسلام سرمایہ دارانہ نظام کو سپورٹ کرتا ھے،، اسلام صرف اسلامی نظام کو سپورٹ کرتا ھے جس میں امیر کو مال لگانے کو کہا گیا ھے،، زکوۃ کی ایماندارانہ ادائیگی پر زور ھے مزدور کے حقوق کا پاس ھے،، اور اسے حکم دیا گیا ھے کہ اللہ سے ڈر کر حلال روزی کی فکر کرو ،،تمہارا رب تمہارا نگران کافی ھے،،کسی فورمین یا سپر وائزر کی کوئی ضرورت نہیں،، اسلام نہ تو سرمایہ دار کا دشمن ھے نہ مزدور کا دشمن ھے،، وہ دونوں کے مفادات کا نگہبان ھے ،،سرمایہ دار نہیں ھو گا تو مزدور کے گھر کا چولہا بھی بجھا رھے گا،، سوشلسٹ سوچ جدلی سوچ ھے،،یہ مالک کو مزدور سے ،شوھر کو بیوی سے ،غریب کو امیر سے لڑاتی ھے ،، ھم پاکستان میں یہ تجربہ بھٹو دور میں کر کے دیکھ چکے ھیں،، ،،جبکہ اسلام تعاون کی فضا دیتا ھے،،اور دونوں سوچوں میں مشرق اور مغرب کا فرق ھے !