قرآن، فدک، افک اور زہری از ابن آدم
سوره احزاب ذوالقعدہ ٥ ہجری میں نازل ہوئی جس میں غزوہ خندق کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات بھی زیر بحث آئے ہیں جن میں نبی اکرم ؐ کی ازدواجی زندگی بھی شامل ہے. سوره احزاب کی آیت ٥٠ میں نبی اکرم کے لئے بعض مخصوص کلیوں کے تحت مستقبل میں نکاح کی تحدید کردی گئی ہے۔ نبی پاکؐ کو بتایا گیا ہے کہ آئندہ آپؐ کس کلیہ کے تحت ہی نکاح کر سکیں گے۔ ان کلیوں کی وضاحت کے بعد آیت ۵۰ میں ارشاد ہوتا ہے:
”یہ احکامات خالصتاً آپ کے لئے ہیں، دوسرے مومنین کے لئے نہیں ہیں. ہم کو معلوم ہے عام مسلمانوں کے لئے ہم نے بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں کیا حدود عائد کی ہیں…. (۵۰)”
دراصل اس آیت میں سوره نساء کی (ذوالقعدہ ٣ ہجری) میں نازل ہونے والی سورت کی آیت ٣ کا حوالہ دیا گیا ہے؛ جس میں عام مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ
“ … جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں دو دو خواہ تین تین خواہ چار چار سے نکاح کر لو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے پھر ایک ہی بیوی کرو یا پھر جو تمھاری لونڈیاں ہوں… (٣)”
سوره احزات کی آیت (۵۰) نے بعد میں آنے والی امت کے لیے دلیل قطعی سے واضح کر دیا ہے کہ سوره نساء کی آیت (۳) نبی کریم کے استثنیٰ کے ساتھ باقی مسلمانوں کے لئے نازل ہوئی ہے. جبکہ دور نبوی کے مسلمانوں کو تو یہ معلوم ہی تھا کہ اس آیت کے مخاطبین میں نبی کریم ؐ شامل نہیں ہیں، کیونکہ جب ۵ہجری میں نبی کریم ؐنے چار ازواج کی موجودگی میں پانچواں نکاح حضرت زینب ؓ سے کیا تھا، تو منافقین مدینہ نے یہ طوفان نہیں اٹھایا تھا کہ وہ پانچویں بیوی ہیں، بلکہ یہ شور مچایا تھا کہ وہ پہلے بہو رہ چکی ہیں کیونکہ وہ حضرت زیدؓ بن حارثہ(متبنی) کی مطلقہ تھیں۔ اس پانچویں نکاح کا ذکر سورہ احزاب کی آیت ۳۷ میں ہے، جو کہ آیت ۵۰ سے مقدم ہے ۔
سوره نساء کی وہ تقریر جس کا آیت ٣ حصہ ہے اور جس کے لیے سورہ احزاب میں خود الله نے واضح کر دیا ہے کہ اسکا اطلاق نبی کریم ؐ کی ذات پر نہیں ہے، اس میں کل اٹھارہ (١٨) آیات ہیں. یہ تقریرسورہ نساء کی آیت نمبر ایک (١) سے ہی شروع ہوتی ہے جس میں خطاب يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ کے صیغے سے شروع ہوا ہے اور اسی تقریر کا اختتام آیت ١٨ پر ہوتا ہے. جب کہ آیت (١٩) سے يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا کے ساتھ ایک دوسری تقریر کا آغاز ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم میں (۲۰) مقامات پر يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ کے صیغے سے خطاب ہوا ہے اس میں ١٩ مقامات پر آیات کے الفاظ اور سیاق و سباق خود واضح کر دیتے ہیں کہ ان خطبات کےمخاطب اصلی میں نبی کریمؐ کی ذات شامل نہیں ہے۔ ان میں سے کسی تقریر میں مشرکین سے بنیادی خطاب ہے، کہیں اہل کتاب کے کسی گروہ کا ذکر ہے جبکہ سوره حجرات میں فتح مکہ کے بعد تیزی سے پھیلتی ہوئےنو مسلم معاشرے کو بنیادی اخلاقی تعلیمات سے روشناس کیا گیا ہے۔ تاہم سوره نساء کی پہلی آیت میں وارد يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ پورے قرآن میں اس لحاظ سے منفرد ہے، کیونکہ اس میں اسلامی شریعت کے احکامات زیر بحث آئے ہیں جن کا اطلاق نہ تو غیر مسلم افراد پر ہوتا ہےنہ ہی یہ نو مسلموں کی اخلاقی تربیت سے متعلق ہے۔ اور اس تقریر میں پوری امت محمدیہؐ مخاطب ہے۔ لہٰذا بعد کی مسلمان نسل یہ گمان کر سکتی تھی کہ ممکن ہے نبی پاکؐ کی ذات بھی ان احکامات کا حصہ ہوں، تواللہ تعالیٰ نے سوره احزاب کی آیت ٥٠ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ نبی پاکؐ اس تقریر کا مخاطب نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے علاوہ پوری امت ہے۔ اس تقریر میں اسلامی شریعت سے متعلق (۳) بنیادی مباحث ہیں۔
١. کوئی مسلمان مرد زیادہ سے زیادہ کتنی شادیاں کر سکتا ہے۔
٢. مسلمان کی جائیداد اس کے ورثا میں کیسے تقسیم ہو گی۔
٣. مسلمان کی عورتیں اگر فحاشی کی مرتکب ہوں تو سزا کے اطلاق کے لئے کتنے گواہوں کی ضرورت ہو گی ۔
جہاں تک پہلی بحث کا سوال ہے تو اسکے متعلق تو ساری امت کا اتفاق ہے کہ نبی کریم کی ایک وقت میں چار (۴) سے زائد بیویاں رہی ہیں اور وصال نبی کے وقت اس کی تعداد (۹) تھی۔تاہم دوسرے ٢ پہلو بالعموم اس امت کی نظر سے اوجھل ہو گئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ "امام زہری” کی روایات ہیں۔
زہری، فدک اور وراثت نبویؐ
وراثت کی تقسیم کے بنیادی قوانین امت مسلمہ کے لیے سورہ نساء کی اسی تقریر میں وارد ہوئے ہیں، اور یہ بات ازروئے قرآن ثابت ہے کہ اس تقریر کا مخاطب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں ہے۔ یعنی نبی پاک کے لیے وراثت کی تقسیم کے احکامات کا اطلاق ہوتا ہی نہیں تھا۔
لیکن دوسری جانب امام زہری کا دعوی ہے کہ وفات نبویؐ کے بعد حضرت فاطمہ الزہراءؓخلیفہ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئیں اور باغ فدک کو بطور میراث حاصل کرنے کا دعوی کردیا، جسکو حضرت ابوبکرؓ نے اس دلیل پر مسترد کیا کہ انہوں نے نبی کریمؐ سے سنا ہے کہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور ان کا تمام مال صدقہ ہوتا ہے۔ اس جواب پر سیدہؓ غضب ناک ہوگئیں اور پھر مرتے دم تک حضرت ابو بکرؓ سے کلام نہ کیا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ اگر نبی پاکؐ کی وراثت جاری ہوتی بھی تو کیا فدک اسکا حصہ بن بھی سکتا تھا یا نہیں کیونکہ باغ فدک مال فے میں سے تھا جس کے احکامات سوره حشر کی آیت نمبر ۷میں بتا دیے گئے ہیں اور یہ نبی کریم ؐ کی ذاتی جائیداد نہیں تھی بلکہ آپ کو سورہ حشر میں دیے گئے ضابطہ کے مطابق خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیدہ فاطمہؓ مال فے کو مال وراثت سمجھ کر مطالبہ کرنے آجاتیں۔ لیکن زہری کے بیان کے مطابق بالفرض اگر آبھی گئی تھیں، جسکا کوئی سوال نہیں ہے، تو پھر بھی حضرت ابوبکرؓ کوسورہ حشر کی روشنی میں انکار کردینا چاہیے تھا کہ یہ تو مال فے ہے، آپ کا مطالبہ ازروئے قران درست نہیں ہے۔ باقی سورہ نساء کی روشنی میں تو ویسے ہی انکار بنتا تھا، کہ نبی کریمؐ وراثت کی اس تقسیم کے کلیہ کا حصہ ہیں ہی نہیں، جس کے مطابق آپؓ وراثت کی طلبگار ہوئی ہیں۔ آخرزہری کی اس بات کو ماننے کی کیا وجہ رہ جاتی ہے کہ جس مبینہ مطالبہ کا انکار قرآن کی دو دو سورتیں کر رہی ہیں وہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک روایت سناکر کیا۔ اور اگر بالفرض روایت ہی کی بنیاد پر انکار کیا تھا، تو بھی حضرت فاطمہؓ کا غضب ناک ہونے کی کیا دلیل رہ جاتی ہے۔
کیا حضرت فاطمہؓ فرمان نبوی کو ماننے میں تردد محسوس کر رہی تھیں؟ نعوذ باللہ ۔
دراصل زہری کا باپ اول دن سے اسلامی ریاست کے خلاف فوجی کاروائیوں میں ملوث رہا تھا، زہری نےروپ بدل کر وہی کام کیا اور علمی میدان پکڑ کر اسلامی ریاست کی جڑیں کاٹنی شروع کیں۔ اسلام میں تفرقہ ڈالنے کے لیے حضرت فاطمہؓ اور حضرت ابوبکرؓکے درمیان ایک فرضی معاملہ گھڑ کر سنادیا ، جس کا انکار قرآن کی ایک نہیں بلکہ دو سورتیں کر رہی تھیں، لہذا اس مکالمہ کا استدلال قرآن پر نہیں بلکہ حضرت ابوبکر ؓسے ایک روایت کو منسوب کرکے بیان کیا۔ ظاہر ہےمکالمہ کااستدلال کو قران سے اٹھا کر روایت پر رکھ دینے کا یہ نقصان ہوا کہ عراق کے فتنہ پردازوں کو اسلام میں رخنہ ڈالنے کے لیے ایک مزید میدان مل گیا۔
زہری کی اس افسانہ سازی کا یہ بھی نتیجہ نکلا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فدک کے معاملات بنو فاطمہؓ کے حوالے کردیے، کیونکہ زہری حضرت عمر بن عبدالعزیزکے اساتزہ میں سے رہا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے اس فیصلے نے عراق کی پروپگنڈا لابی کو ایک نئی جلا بخشی، نتیجتاً بنو امیہ کی خلافت مزید کمزور ہوئی، حالانکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنے اس فتنہ پرداز استاد کی کہانی پر ایمان لانے کی بجائے یہ غور کرنا چاہیے تھا، کہ نبی کریمؓ کی اگر وراثت ہوتی بھی، تو حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ اپنے اپنے دور خلافت میں اسکو واگزار کروالیتے۔
جو کام تمام جماعت صحابہ نے نہ کیا، حضرت فاطمہ کے وارثان نے نہ کیا، وہ صرف زہری کی بیان کردہ ایک کہانی پر کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خلافت مزید کمزور ہوئی، اور عراقیوں کو جماعت صحابہ پر تنقید کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا۔ اور امت کو اجتماعی طور جو سب سے برا نقصان پہنچا، وہ یہ ہے کہ قرآن سے استدلال لینے کی ریت بتدریج دم توڑتی گئی، اور عباسی خلافت کےعروج پر روایتوں کو قرآن پر فوقیت مل گئی، اور ہر طبقے کے پاس اپنی اپنی پسند کی روایات اور انکی تاویلات ہاتھ آگئیں، جنکی بنیاد پر کسی قضیہ کا حل شاید قیامت تک بھی نہ مل سکے، لہذا پورا معاشرہ سٹینڈ سٹل اور ھالٹ پوزیشن میں آگیا ہے، اور اس سب کا سب سے بڑا ذمہ دار امام زہری ہے
زہری اور واقعہ افک
سوره نور (نازل شدہ ٦ ہجری) کی بعض آیات مدینہ منورہ میں اس زمانے کے مبینہ جنسی سکینڈل کی افواہوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ زہری کے بیان کے مطابق اس جنسی سکینڈل میں الزام ام المومنین حضرت عائشؓہ اور ایک بدری صحابی صفوانؓ بن مطعل پر ایک غزوے (بنی مصطلق) سے واپسی پر رئیس المنافقین عبدللہ بن ابی نے لگایا تھا. زہری کے علاوہ یہ مبینہ قصہ کسی بھی مضبوط سند سے مذکور نہیں ہے۔ دوسری مضبوط ترین مانی جانے والی سند مسروق تابعی کا حضرت عائشہؓ کی والدہ حضرت ام رومؓان سے اس واقعہ کو سننا بتایا جاتا ہے۔ حضرت ام رومانؓ کا رسولؐ الله کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور رسولؐ الله نے خود ان کو لحد میں اتارا تھا۔ لہٰذا ایک تابعی کا اس واقعہ کا انؓ سے سننا انکی وفات کے بعد ہی ہو سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے ناممکن ہے۔ بات واضح ہے یہ سند ہر گز درست نہیں ہے بلکہ بعد کے کسی دور میں زہری کے بیان کے ثبوت کے لئے وضع کی گئی ہے۔
دوسری جانب زہری کی اپنی سند کا یہ حال ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے اس قصہ کے بعض حصے کسی ایک تابعی سے سنے ہیں اور بعض حصے کسی دوسرے تابعی سے، یوں چار مختلف تابعیوں سے مختلف اجزاء سننے کا دعوی کرکے انکو ایک مربوط قصہ میں بیان کرنے (گھڑنے) کا سہرا اپنے سرلیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس نے یہ قصہ چار تابعیوں سے ہی سننے کا دعوی کیوں کیا۔ وہ اس لئے کیا تاکہ اپنے سننے والوں کو مطمئن کرسکے کہ میرے پاس اس قصہ سے متعلق چار گواہیاں ہیں. کیونکہ بدکاری کا الزام دھرنے کے لئے شریعت کے مطابق کم از کم چار گواہان کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ آپ خود جھوٹے قرار پاتے ہیں. اب جب زہری نے اس قصہ کو پہلی دفعہ لوگوں کو سنایا ہو گا تو لازماً لوگوں کی طرف سے بھی یہ سوال اٹھے ہوں گے کہ آپ تک یہ خبر کتنے ذرائع سے پہنچی ہے، لہٰذا زہری نے بھی چار تابعیوں کا سہارا لیا۔
اگرچہ اس کہانی کے کئی اجزا تاریخی اور عقلی دونوں حوالوں سے بھی غلط قرار پاتے ہیں لیکن کیونکہ ہمارا موضوع اس قصہ کا قرآن سے متصادم ہونا واضح کرنا ہے لہٰذا ہم اس کہانی کے تاریخی اور عقلی سقوم سے صرف نظر کررہے ہیں، تاہم ایک پہلو کا بیان کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ زہری کے مطابق جب حضرت عائشہؓ پر بدکاری (نعوز باللہ) کا الزام لگا تو حضرت علیؓ نے رسولؐ الله کو حضرت عائشہؓ کو چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ اور اس چیز کا قلق حضرت عائشہؓ کو ہمیشہ رہا۔ زہری نے اپنی اور بھی کئی خود ساختہ روایتوں میں بہت واضح تاثر دیا ہے کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان دور نبویؐ سے ہی ایک سرد جنگ والا ماحول تھا، اور حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان یہ سرد جنگ بالاخر جنگ جمل پر منتج ہوئی یعنی زہری کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنی اس دلی عداوت کی وجہ سے بصرہ کی جانب ضعیف العمری میں نکل پڑی تھیں نہ کہ اصلاح امت اور فتنہ کے سدباب کے لئے۔
مدینہ منورہ میں جب بعض مسلمانوں پر جنسی بے راہروی کا الزام لگایا گیا تو جواباً سوره نور کی آیت نمبر ٢٦ میں ارشاد ہوتا ہے:
… اُولٰٓٮِٕكَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا يَقُوۡلُوۡنَؕ …﴿٢٦﴾
(ترجمہ) …وہ پاکیزہ لوگ بری ہیں ان خبیث افعال سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں…﴿٢٦﴾
یہاں پر اس بات کا خیال رہے کہ اُولٰٓٮِٕكَ اور مُبَرَّءُوۡنَ دونوں جمع کے صیغے کم از کم تین یا اس سے زائد افراد کے لئےآسکتے ہیں۔ جب کہ زہری کے گھڑے ہوئے قصے کے مطابق تو یہ معاملہ تو صرف دو افراد حضرت عائشہؓ اور حضرت صفوانؓ کے متعلق تھا۔
دوسری بات کہ اس سوره میں اس الزام کی تردید میں جو آیت نازل ہوئی وہ آیت نمبر ١٣ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ:
"وہ لوگ (اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ﴿۱۳﴾”
یہاں پر دراصل سوره نساء کی آیت نمبر ١٥ کا حوالہ دیا گیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ اگر تمھاری عورتیں بدکاری کی مرتکب ہوں تو فرد جرم کے عائد کرنے کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ اور اب کیونکہ سوره نور میں بتا دیا گیا ہے کہ افواہ پھیلانے والے افراد کیونکہ سوره نساء میں بتائے گئے اصول کے مطابق چار گواہ لانے سے قاصر رہے ہیں لہٰذا الله انہی کو جھوٹوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
سوره نساء کی یہ آیت ١٥ میں ارشاد ہوتا ہے:
تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو،…﴿۱۵﴾
سوره نساء کی یہ آیت سورت کی اسی تقریر کا حصہ ہے جس میں نبی پاکؐ کو چھوڑ کر باقی تمام مسلمانوں سے خطاب کیا گیا ہے. یعنی کہ يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ کے صیغے کے ساتھ، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمہاری عورتوں سے مراد مسلمانوں کی عورتیں ہونا مطلوب ہے نہ کہ نبی پاکؐ کی عورتیں یعنی امہات المومنین کا ہونا۔ بات واضح ہوگئی کہ یہ الزام جن بھی افراد پر لگا تھا، وہ تعداد میں کم ازکم تین تھے، اور ان میں سے جو عورتیں تھیں وہ نبی پاکؐ کی عورتیں ہرگز نہیں تھیں خواہ حضرت عائشہؓ ہوں یا حضرت ماریہؓ۔ اگر قرآن پاک سے رجوع کیا جاتا تو زہری کا یہ جھوٹ ہماری تفسیروں اور روایتوں کی زینت نہ بنتا اور قرآن پاک کی رو سے نبی پاکؐ کے حقیقی اہل بیت (حضرت عائشہؐ) کی اس طور ہجو ملیح اور تضحیک نہ کی جاتی۔ سوچنے کی بات ہے کہ منافقین مدینہ نے تو نبی پاکؐ کے اہل بیت پر الزام لگانے کی جسارت نہ کی صرف امت کی مسلمان عورتوں پر الزام لگایا اور الله تعالیٰ نے سوره نور نازل کر کے ان لوگوں کے الزامات کی تردید کردی اور اس وقت کا مسلم معاشرہ بھی اتنا اعلیٰ کردار کا حامل تھا کہ بے حیائی پھیلانے والے ان واقعات کی اگلی نسلوں تک تشہیر بھی نہ کی کہ الزام لگانے والوں نے درحقیقت کن لوگوں پر اور کس نوعیت کا الزام لگایا تھا. لیکن زہری کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ کس بے شرمی کے ساتھ ایک ایسا واقعہ جس کا ذکر مسلمان کنایتاً بھی نہیں کرتے تھے اس کو حضرت عائشہؓ پر متصف کر دیا اور مزید یہ کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ میں فرضی رقابتوں کی کہانیاں بھی وضع کر دیں۔
زہری پر انگلیاں زہری کی زندگی سے ہی اٹھائی جاتی رہی ہیں لیکن چٹخارے دار کہانیوں اور افسانوں کی شوقین اس امت نے ان تمام تنبیہات کو نظر انداز کرتے ہوئے امام المحدثین کا ہما زہری کے سر پر ہی سجا دیا ہے۔ یہ سوال اپنے ان آئمہ کرام سے پوچھا جانا بجا طور پر بنتا ہے کہ قرآن سے متصادم ان روایتوں کو قبول کرلینے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی گئی جب کہ قرآن میں الله بار بار اس کتاب کو فرقان یعنی سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والی کتاب کہہ رہا ہے-
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے