تلاوت قرآن اور نماز جنازہ کے لیے وضو از قاری حنیف ڈار
وضو نماز کے لئے فرض کیا گیا ھے ، اس کو قرآن پڑھنے والے پر لاگو کرنے کا مطلب ھے کہ ناں ہی پڑھو ۔
خود یہ لوگ استثناء لے لیتے ہیں کہ حافظ جی اور ان کے شاگرد بغیر وضو بھی پڑھ پڑھا سکتے ہیں ، لہذا ان بے دردوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ آج کل ھر بندے کو گیس ٹربل ھے ، لوگ نماز میں بھی بمشکل وضو توڑ چڑھاتے ہیں ـ مگر یہ بھی مذھبی بیوروکریسی ھے جس کا کام ھی عوام کو تنگ کرنا ہے ـ اللہ پاک صاف صاف فرما رھا ھے کہ اے ایمان والو جب تم نماز کے لئے کھڑے ھو تو منہ دھو لیا کرو اور ہاتھ کہنیوں تک ، سر کا مسح کرو اور پاؤں ٹخنوں تک ـ[ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (المائدہ ـ 6)
جنازے میں وضو مستحب ھے ،جنازہ اصل میں دعائے جنازہ ھے ، اگر کوئی آدمی جنازے کے پاس سے گزر رھا ھے اور اس کا وضو نہیں ھے تو وہ موٹر سائیکل پر سینے کے بل لیٹ کر مونگ پھلی کھانے کی بجائے جھٹ سے جا کر جنازے میں شریک ھو جائے ـ قرآن کے لئے وضو کرنے کی دلیل جس آیت سے دی جاتی ھے وہ آیت قرآن کے لئے نہیں بلکہ اس کتاب کے لئے ھے جس میں قرآن لکھا ھوا ھے اور مطھرون سے مراد وضو کیئے ھوئے نہیں بلکہ فرشتے مراد ہیں ، اور سمجھایا یہ جا رھا ھے کہ جس کتاب سے نقل کر کے اس قرآن کو نازل کیا گیا ھے وھاں تک شیاطین کی رسائی نہیں وھاں تک بس فرشتے ہی رسائی رکھتے ہیں ـ [ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (77) فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ (78) لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (79)اتنی قسمیں کھانے کے بعد اللہ فرما رھے ہیں کہ یہ قرآن کریم ھے جو ایک چھپی ھوئی کتاب میں درج ہے ، اس کتاب کو نہیں چھو سکتے مگر پاکیزہ ،، یہی ام اکتاب ھے ، یہی لوحِ محفوظ ھے اور یہی کتاب مکنون ہے !
مدینے میں دریا نہیں بہتے تھے کہ لوگ ھر وقت وضو اور غسل ھی کرتے رھتے سب کو معلوم ھے کہ پہلے پہل تو مدینے میں پینے کا پانی بھی فروخت ھوتا تھا اور یہود سے خرید کر پینا پڑتا تھا ،، امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اپنے زمانہ امارت میں ایک دفعہ پیشاب کیا ، اور واپس آ کر بغیر وضو کیئے قرآن کو پڑھنا شروع کیا تو ایک بندے نے کہا کہ آپ نے وضو کیئے بغیر قرآن پڑھنا شروع کر دیا ہے ؟ اس پر حضرت عمر فاروقؓ نے پلٹ کر سوال کیا کہ ’’ و من یفتیک ھذا ؟ أمسیلمۃ کذاب ؟؟ تمہیں یہ فتوی دیا کس نے ھے کہ بغیر وضو قرآن کو نہیں پڑھنا چاہئے ؟ یہ فتوی مسیلمہ کذاب سے تو سن کر نہیں آ گئے ؟ واضح رھے وہ بندہ پہلے مسیلمہ پر ایمان لا کر تائب ھوا تھا ،
قرآن غیر مسلموں کے لئے دعوت ہے ، یہ ان کی امانت ھے ھمارے والد کی جاگیر نہیں ، وہ پڑھیں گے ،اپنے سوالوں کے جواب پائیں گے پھر ھی مسلمان ھونگے ناں ؟ مریض سے دوا کو دور رکھنا کہ تم پہلے صحتمند ھو جاؤ پھر تمہیں یہ دوا دیں گے ـ، پہلے مسلمان ھو جاؤ پھر قرآن کو چھونے دیں گے کہاں کی لاجک ہے ؟ اللہ کے رسول ﷺ نے قیصر کو قرآن لکھ کر بھیجا تھا ساتھ میں ترکیب استعمال میں یہ نہیں لکھا تھا کہ پہلے وضو کر کے اس کو پڑھنا ،، یہ تو ایسی ھی صورتحال ہے کہ ڈاکٹر نے خاکروب کا علاج اس لئے نہیں کیا کہ وہ گندہ ھے اور وہ بیچارہ مر گیا ، مسلمانوں کو تو قرآن چوک میں کھڑے ھو کر اس کی نیشنلٹی پوچھ کر اس کی مادری زبان میں مترجم قرآن پکڑانا چاہیے تا کہ حق دعوت ادا ھو ـ