امام مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، اور دجال تحریر محمد اکبر

امام مہدی، نزول عیسیٰ علیہ السلام، اور دجال
تحریر: محمد اکبر

Download PDF from Archive
Download PDF from Scribd

 

سوال:   سننے ہیں کہ آخری دور میں امام مہدی آئے گا، اس کی تشریح کریں ۔

جواب:   اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور اکر م حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قرآن کے ذریعے جہاں اور بہت سے دعائیں سکھلائیں وہاں یہ دعا بھی سکھلائی اور تمام لوگوں کو سکھلائی کہ

 ’’ اور کر ہم کو پرہیز گاروں کا امام ‘‘(سورۃ الفرقان  /  74:25)

حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بھی سورۃ البقرہ کی آیت 124میں امام بتلایا گیا،

 ’’ میں کرنے والا ہوں تجھ کو واسطے لوگوں کے امام ‘‘(سورۃ البقرہ  /  2 :124)

 نبی، نبی بھی ہوتا ہے، رسول بھی اورامام بھی ۔ سب سے بڑے امام ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں ۔ امام کا لفظ تو مسجد میں نماز کی امامت کرانے والے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ امام ، مہدی، ہادی اور ہدایت دینے والا سب سے بڑی اور اچھی ہدایت اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت لے کر دنیا والوں تک اللہ تعالیٰ کی ہدایت پہنچانا ۔ ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر قیامت تک لوگوں کے لیے کتاب قرآن پاک کی صورت میں پہنچا دی ۔ لہٰذا ہمارے خاتم النبین حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب سے بڑے امام مہدی ہوئے ۔

ایک سوال یہ کہ کیا اللہ تعالیٰ سے وحی کے ذریعے ہدایت پا کر قیامت تک لوگوں کوہدایت دینے والا بڑا امام یا امام مہدی ہو سکتا ہے یا وہ شخص کہ جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت نہ لے اور اپنی طرف سے ہدایت دینے والا ۔ جواب یہی بن پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر ہدایت دینے والا امام مہدی ہو گا ۔لہٰذاہمارے حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی امام مہدی ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ امام مہدی آئے گا کی بنیاد کہاں سے چلی ۔امام مہدی کی بنیاد توریت و انجیل سے چلی کہ جن میں ہمارے خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کی بشارت دی گئی تھی کہ ایک آنے والا آئے گا یعنی نبی اور نبی سے بڑا اور بھلا کون امام ہو سکتا ہے لہٰذا نبی کو ہی امام مہدی کہا گیا ۔ نبی اس لیے نہیں کہا گیا کہ خاتم النبین کے ہوتے ہوئے کسی اور کو نبی نہیں کہا جاسکتا تھا اور جب آنے والانبی نہیں تو اُس کی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ اب آنے والے امام مہدی کا کوئی وجود نہیں ہے ۔

اب آئیے یہود و نصاریٰ کی طرف کہ وہ جس آنے والے کا انتظار کر رہے تھے اس کے بارے میں قرآن پاک میں کیا لکھا ہے ۔

’’ اور البتہ تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پچھاڑی لائے ہم پیچھے اس کے پیغمبر اوردئیے ہم نے عیسیٰ بیٹے مریم کے کو معجزے ظاہر اور قوت دی ہم نے اُس کو ساتھ روح پاک کے کیا پس جب آیا تمہارے پاس پیغمبر ( کہ جسے امام مہدی کہا جاسکتا ہے )ساتھ اس چیز کے کہ نہیں چاہتے جی تمہارے تکبر کیا تم نے پس ایک فرقے کوجھٹلایا تم نے اور ایک فرقے کو مار ڈالتے ہو٭اور کہا اُنہوں نے دل ہمارے غلاف میں ہیں بلکہ لعنت کی اللہ نے بسبب کفر اُنکے کے پس تھوڑے سے ایمان لاتے ہیں٭اور جب آئی اُن کے پاس کتاب نزدیک اللہ کے سے سچا کرنے والی واسطے اس چیزکہ ساتھ اُنکے ہے اور تھے پہلے اس سے فتح مانگتے اُوپر اُن لوگوں کے کہ کافر ہوئے پس جب آیا اُنکے پاس جو کچھ پہنچانا تھا کافر ہوئے ساتھ اُس کے ‘‘(سورۃ البقرہ  /  87:2تا 89)

ان آیات کے شروع میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا یعنی یہود اور نصار یٰ کو متوجہ کیا جارہا ہے ۔پھر فرمایا ’’ جب آیا تمہارے پاس پیغمبر ‘‘ کہ جس کا ذکر توریت اور انجیل میں ہے اور تم اُس کا انتظار کر رہے تھے پھر تم نے تکبر کیا اور اُس پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ وہ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ثبوت کے طورپر ساتھ لایا کہ وہ تمہاری کتابوں کو سچا کہتا ہے حالانکہ تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے تھے کہ وہ آئے جس کی بشارت دی گئی ہے تو پھر تمہیں کفار پر فتح ہو ۔ مطلب یہ کہ وہ آنے والا آئے تو پھر جہاد کے ذریعے سے کفار پر فتح پائیں گے اور جب وہ آنے والا آگیا تو تم نے پہچان بھی لیا اور پھر تم کافر ہو گئے۔ توجہ اس طرف کہ وہ آنے والا آئے تو پھر کفار پر فتح پائیں گے ۔اُس کے آنے سے پہلے کفار پر فتح ناممکن نظر آتی تھی یعنی اُس آنے والے سے پہلے وہ لوگ جہاد جنگ نہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ آئے اور پھر جنگ جہاد کا کام شروع کیا جائے ۔

جو شخص توریت کو سچا کہے وہ ایسا ہے کہ جیسے توریت ماننے والوں کا ساتھی۔ جو شخص انجیل مقدس کو سچا کہے وہ ایسا ہے کہ جیسے انجیل مقدس ماننے والوں کا ساتھی خیر خواہ۔ آپ جناب حضر ت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کتابوں کو سچی کتاب کہا پھر بھی اکثر یہودو نصاریٰ نے آپ کو تسلیم نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ آ ج تک اسی انتظار میں ہیں کہ وہ آنے والا آئے گا ۔

یہود کہتے ہیں جب وہ آنے والا آئے گا تو ساری دنیا پر یہودیت کا راج ہو گا۔ عیسائی کہتے ہیں کہ جب وہ آنے والا آئے گا تو عیسائیت کا راج ساری دنیا پر ہو جائے گا ۔یہود کے پروپیگنڈے کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوا اور بعض لوگوں نے یقین کر لیا کہ وہ آنے والا آئے گا لیکن جب وہ آنے والا آئے گا تو سار ی دنیا پر مسلمانوں کا راج ہو جائے گا ۔ پھر مسلمانوں میں دو فقہ کے لوگ ہیں کہ شیعہ گروہ کہنے لگا کہ وہ آنے والا ہمارے گروہ کا آدمی ہے کہ جو غاروں میں چھپ گیا تھا بارہواں امام۔ جب وہ آئے گا تو ساری دنیا پر شیعہ گروہ کا راج ہو گا لیکن سنی لوگ کہنے لگے جب وہ آنے والا آئے گا تو تمام دنیا پر سنی گروہ کا راج ہو گا کیونکہ وہ آنے والا سنی ہو گا۔ ساری دنیا پر راج کا مطلب یہ کہ وہ شخص ذاتی طور پر جنگیں کرے گا اورفتح پائے گا۔ آپ حضرات تاریخ دیکھ لیں کہ آپ جناب محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت کے بعد تمام زندگی جنگوں میں بھی گذاری اور خودبنفس نفیس جنگوں میں حصہ لیا اور فتح پاتے رہے اور علاقے بڑھتے رہے ۔ یہود نصاری کا جو نظریہ تھا کہ وہ کفار پر فتح پائے گا  پورا ہوا نظر آتا ہے ۔ یہ آنے والا آئے گا کا نظریہ یہود ونصاریٰ کی تقلید میں مسلمانوں کے پاس آیا ۔

 توجہ:   مسلمان گوشت کے حرام و حلال کے بارے میں بھی آج تک یہود کی تقلید کر رہے ہیں اور قرآن کے مطابق عمل نہیں کرتے ۔

پچھلے دنوں اخبار میں ایک ہندو پروفیسر کی کتا ب سے متعلق ایک تحریر پڑھی کہ دل خوش ہو گیا ۔ ہندو مذہب میں بھی ایک آنے والے کا انتظار ہے اور اُس آنے والے کو اُن کی کتاب غالباً وید میں کلنکی اوتار لکھا گیا ہے اور اُن کی کتاب میں کلنکی اوتا ر کے بارے میں کچھ نشانیاں بھی لکھی ہیں ۔ اُن پروفیسر صاحب نے لکھا ہے کہ جس کلنکی اوتار کا انتظار ہندو مذہب کے لوگ کر رہے ہیں وہ آج سے چودہ سو سال پہلے عرب میں ظاہر ہو چکا ہے اور اس کا نام محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ، ثبوت یہ پیش کیے ہیں؛

1۔   کہ ان کی کتاب میں اُس کلنکی اوتار کی ماں کا نام شنانتی (امن ) اور باپ کا نام شاید دشنو بھگت (اللہ کا غلام) ہو گا تو دیکھ لیں کہ آپ جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی والدہ کا نام آمنہ (ترجمہ شانتی ) ہے اور باپ کا نام عبداللہ ہے ۔

2۔   یہ کہ وہ ایک جزیرہ میں نمودار ہو گا تو عرب کوجزیرہ نما عرب بھی کہا جاتا ہے۔

3۔   فرشتہ غار میں اُسے تعلیم دے گا تو آپ جنا ب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہلی وحی غار حرا میں ہوئی ۔

4۔   ان کی کتا ب میں ایک اور نشانی یہ لکھی ہے کہ وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کر آسمانوں کی سیر کرے گا تو آپ جناب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معراج پر جانا آسمانوں کی سیر کرنا ہو ا۔

 یہ تمام نشانیاں حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پوری اترتی ہیں لہٰذا ہندو مذہب کے مطابق جن کلنکی اوتار کا انتظا ر کیا جارہا ہے وہ آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صورت میں آچکے ہیں ۔ دیگر مذاہب میں بھی آنے والے کا انتظار ملتا ہے ۔

یہ آنے والا امام مہدی کا تصور شاید سازش کے تحت مسلمانوں کو اسی لیے دیا گیا کہ مسلمان جہاد سے رُکے رہیں اور آنے والے کے انتظار میں بیٹھے رہیں ۔

ایک چھوٹا سانقطہ سمجھ لیں کہ اگر آنے والے امام مہدی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آئے گی یعنی وحی آئے گی تو ختم نبوت جھوٹی ہونے لگتی ہے اور ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ آنے والے امام مہدی کے آنے کا تصور صرف اور صرف ضعیف الا عتقادی کا نتیجہ ہے ۔

سوال:   کہتے ہیں کہ امام مہدی الگ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام الگ طور پر آئیں گے ۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے ؟

جواب:   جیسا کہ پہلے لکھ دیا گیا کہ عیسائی ایک آنے والے کی انتظار میں ہیں، اُن کے خیال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔  لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ آئیں گے، ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا اور بات ختم ۔ اگر ایسا ہوگا تو ظاہر ہے کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہیں لہٰذا خاتم النبین قرآنی فیصلے کے خلاف بات ہوئی اورحدیث لا نبی بعدی کہ میرے کوئی نبی نہیں آئے گا چاہے نیا پیدا ہونے والا خواہ جو پہلے نبی رہ چکے ہیں اُن میں سے کوئی نبی نہیں آئے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہیں۔

ایک اور بات قرآن پاک کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا، یہ بات قیامت تک لوگ پڑھتے رہیں گے اگر درمیان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آتے ہیں اور فوت ہو جاتے ہیں تو بعد کے وہ لوگ جو قرآن پڑھیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا کا ذکر پڑھیں گے اور کہیں گے کہ اٹھا لیا گیا کے بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آکر چلے گئے اُس کا ذکر کیوں نہ کیا گیا (نعوذ باللہ )حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے قریب کے لوگ بھی جب قرآن پاک پڑھیں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھا لیے گئے تو وہ بھی ہماری طرح ہی محسوس کریں گے کہ بس اٹھا لیے گئے ۔

سب سے بڑا امام نبیوں میں ہی ہو سکتا ہے کہ ہر نبی امام ہو تا ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرآن پاک میں امام کہا گیا۔

’’ کہا تحقیق میں کرنے والا ہوں تجھ کو واسطے لوگوں کے امام ‘‘(سورۃ البقرہ  /  2 :124)

سوال :   قرآن پاک کی آیت ہے کہ

 ’’اور نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ اس کے (یعنی زندہ اٹھالیے گئے۔ سورۃ النساء  /  158:4 ) پہلے موت اس کی کے اوردن قیامت کے ہو گا اُوپر ان کے گواہ‘‘(سورۃ النساء  /  159:4)

اس آیت مبارکہ کی رو سے علماء کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور جب دجال آئے گا تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آکر دجا ل کا مقابلہ کریں گے اور ان کو شکست دیں گے لہٰذا وہی امام مہدی ہونگے اور اور پھر وفات پائیں گے وغیرہ ۔

جواب:   اصل میں یہ وقوعہ آخرت میں ہوگا کہ جب تمام اہل کتاب ( یہود، نصاری اور مسلمان) زندہ ہو چکے ہونگے تو سب کے سامنے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کے مرحلہ سے گذاریں گے اور پھر زندہ کریں گے اور ساتھ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی گواہی دیں گے کہ مجھے زندہ اٹھا لیا گیاتھا۔ اگر یہ وقوعہ دنیا میں ہونا ہے توپھر جو لوگ فوت ہو چکے ہوں گے ان کو کیا یقین آئے گا جبکہ آیت بتلا رہی ہے کہ تمام اہل کتاب یقین کریں گے ۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آکر کفار اور دجال کا مقابلہ کریں گے تو عرض یہ ہے جو معجزات اللہ تعالیٰ نے اُنہیں پہلے دئیے تھے وہی اُن کے پاس موجود ہونگے ۔ اُن معجزات کے ہوتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چند یہود کا مقابلہ نہ کر سکے کہ اللہ تعالیٰ کو زندہ اٹھانا پڑا۔ مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اب ہر ایمان والے کو جہاد کا حکم دے دیا ہے ۔ لہٰذاکوئی بھی اس آسرے پر ہاتھ پیر توڑکرنہ بیٹھ جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو کفار کا مقابلہ کریں گے ۔ آج کے جدید دور میں کوئی بھی جدید ہتھیاروں راکٹ لانچر بم وغیرہ سے لیس فوجی دجال کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اُسے ختم کرسکتا ہے اور کر دے گا۔ ویسے بھی دجال کے پاس ٹرانسپورٹ نہیں ہے وہ گدھے پر سفر کرے گا۔ جب ٹینک کو تباہ کیا جا سکتا ہے تو اُس کے گدھے کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے اور دجال کے متعلق تو یہ بھی مشہور ہے کہ اُس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہے ۔

دیکھنے میں تو یہ آرہا کہ آج تک جن لوگوں نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے لوگ اُس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور قتل بھی کر ڈالتے ہیں اوروہ دعویٰ کرنے والے جھوٹے نکلے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی جو شخص امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا لوگ اُس کے خلاف ہو جائیں گے ۔

ٍٍپڑھنے میں آیا کہ فرقہ شیعہ کے مطابق امام مہدی کا نام محمد اور باپ کا نام حسن ہو گا اور فرقہ سنی کے مطابق امام مہدی کا نام محمد اور باپ کا نام عبداللہ ہو گا ۔اے اللہ کے بندو! محمد بن عبداللہ وہی ہیں جو خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روپ میں آج سے چودہ سو سال پہلے آچکے ہیں ۔ ابلیس کو قرآن میں شیطان اور انجیل میں سانپ لکھ دیا گیا ہے ۔ اسی طرح دجال جہالت کے دور کی اصطلا ح معلوم ہوتی ہے کہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین کے دور میں عروج پر تھی ۔ دجال کا کانا (ایک آنکھ کا )ہونا یہ کہ وہ حقیقت کو صحیح طریقہ سے نہ دیکھ سکے، نہ سمجھ سکے اور دجا ل کاگدھے پر ہونا یہ کہ وہ کفار آسودہ (خوشحال )حالت میں ہونگے ۔

********

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.