سپرٹ آف اسلام از جسٹس امیر علی مسلم سے ایک اقتباس
جسٹس امیر علی مسلم برصغیر کے ایک بہت بڑے قانون دان اور منصف گزرے ہیں۔ انگریز منصفین نے الزا م لگایا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے تو انہوں نے سپرٹ آف اسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں انہوں حضورﷺ اور عیسائیوں کے قبیلے مابین ہونے والے ایک عہدنامہ کا مفضل ذکر کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ جسٹس امیر علی لکھتے ہیں: 628ء میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کے ایک وفد نے حضرت محمد ﷺسے پناہ کی درخواست کی۔ رسالت مابﷺ نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ حقوق کا ایک عہد نامہ بھی لکھ دیا۔ جس کی عبارت کچھ یوں ہے :
یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمت گار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے ‘جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا۔”