انسان , اسلام اور آئمہ عظام از قاری حنیف ڈار
انسان جب پیدا ھوتا ھے تو گھر والے چھوٹے موٹے کپڑے لیئے تیار بیٹھے ھوتے ھیں ،جن میں مؤنث مذکر کا فرق بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ نومولود چند ماہ تک دونوں جنس کی ضرورت پوری کرتا ھے،کبھی بیٹا لگتا ھے تو کبھی بیٹی،، والدہ بھی بیٹے کو پیار کرتے ھوئی بیٹی بنا کر پیار کرتی ھے اور بیٹی کو بیٹا کہہ کر دل خوش کرتی ھے،، پھر بچہ جب ذرا بڑا ھوتا ھے تو اس کے کپڑوں اور جوتوں میں فرق واضح ھونا شروع ھوتا ھے،، کپڑے ھوں یا جوتے ایک مخصوص وقت تک ھوتے ھیں پھر بچہ وہ کپڑے اور جوتے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ھے،اب وہ کپڑے اور جوتے نشانی کے طور پر تو استعمال ھو سکتے ھیں مگر بچے کا جسم اور قد کاٹھ ان کو قبول نہیں کرتا ، وہ یہ تسلیم کر کےبھی کہ وہ کپڑے اور جوتے اس کے ھیں، انہیں پہن کر چل کر نہیں دکھا سکتا کیونکہ اب وہ اس کے حال کے مطابق نہیں، پھر ایک وقت آتا ھے کہ اس کا اسٹینڈرڈ سائز مکمل ھو جاتا ھے، اب اس کے قد کا بڑھنا رک گیا ھے، اب جوتا یا کپڑا پھٹ سکتا ھے مگر اس کے سائز میں فرق نہیں آتا،، جب بھی لے گا وھی اسٹینڈرڈ سائز اور مخصوص نمبر خریدے گا ! یہی حال دین کا ھے، انسانیت جب اپنے بچپن سے چلی تو اس کی عقلی و سماجی عمر کو دیکھتے ھوئے نبی بھی بھیجے گئے اور شریعتیں بھی بنائی گئیں ،مگر نہ وہ نبی ھمیشہ کے نبی تھے نہ ان کے معجزے ھمیشہ کے معجزے تھے اور نہ وہ شریعتیں دائمی شریعتیں تھیں وہ تکمیل کی منزل کی راہ کے پڑاؤ تھے،، وہ شریعتیں عارضی تھیں، حکم دینے والے کو پتہ تھا کہ وہ ٹرانزٹ دور کی قانون سازی ھے، اس لیئے اس کی حفاظت کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا،، نہ وہ معجزے محفوظ اور نہ اس دور کی کتابیں محفوظ اور نہ شریعتیں محفوظ !! تا آنکہ وہ وقت آ گیا جب انسانیت اپنے بلوغ کو پہنچی اس کی عقل نے جو جولانیاں دکھانی تھیں وہ دکھا بیٹھی، جو سوال پیدا کرنے تھے وہ پیدا کر لیئے اور جو فتنے سوچنے تھے سوچ لیئے ! تب اللہ پاک نے وہ نبی بھیجا جس کی شریعت اور کتاب بھی محفوظ کی اور قبر اور معجزہ بھی محفوظ کر دیا ! جن کی سنت دائمی سنت قرار پائی ،جن کی کتاب انسانیت کے نام اللہ کا آخری خطاب قرار دی گئی اور جس پر لیا گیا عہد،، فائنل ٹیسٹامنٹ قرار پایا ! جو لوگ بھی جو سوال بھی کر رھے ھیں اور جو شبہ اور فتنہ اٹھانا چاہ رھے ھیں یہ باسی کڑھی کا ابال ھے ورنہ ھم جنسوں کے نکاح سے لے کر خدا کے انکار اور دھریت و الحاد تک سب کچھ کیا جا چکا اور اس کا جواب بھی دیا جا چکا،، ھر سوال کا جواب قرآن حکیم نے سوال پڑھ کر پھر اس کا جواب دیا ھے،، اور قوموں کی بربادی کی تاریخ بیان کر کے اس کا انجام بھی دکھا دیا ھے ! اب نہ تو پچھلے رسولوں کی پیروی مشروع ھے اور نہ ھی ان کی شریعت قابلِ عمل ھے ! اب قیامت تک تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے ایک ھی نبی کی سنت اور ان کی ھی شریعت قابلِ عمل ھے ! جس دین کا نام دینِ اسلام جو اپنے عروج اور جوانی کو پہنچ چکا ،، الیوم اکملت لکم دینکم دین کی تکمیل ھے و اتممت علیکم نعمتی ، رسالت کی تکمیل ھے اور رضیت لکم الاسلام دیناً۔۔، اسلام اور اس کے پیروکاروں کے لئے رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھے ! یہاں سے دوسرا مسئلہ شروع ھوتا ھے، وھی بچہ جو جب پیدا ھوا تھا تو کامل اور مکمل تھا ،جسمانی اعضاء سارے وھی تھے جو اس کے مرتے دم تک رھیں گے ،ان میں تعداد کے لحاظ سے تو کوئی اضافہ نہیں ھو گا اور اسی کو الیوم اکملت لکم دینکم کہا گیا ھے ،مگر اس جوان کو جب تک کہ وہ جیتا ھے عمر بھر ان ھی اعضاء اور دل و دماغ کے ھزاروں مسائل درپیش ھونگے جس کے لئے ڈاکٹر بھی ضروری ھونگے ،دوائیاں بھی ایجاد ھونی ھیں اور مصلح بھی کچھ صلح کا فریضہ سر انجام دیں گے ، اسی کامل اور مکمل انسان کے لئے عدالتیں پولیس اور وکیل و جج بھی درکار ھونگے ، نئے ضابطے بھی درکار ھونگے ،یہاں سے ائمہ کا کردار شروع ھوتا ھے ، محدثین کا کام شروع ھوتا ھے،، دین میں یہی کام فقہا اور مجتہد کا ھوتا ھے،سوشیو پولیٹیکل اور سوشیو کلچرل معاملات جن میں اللہ پاک نے تبدیلی کی گنجائش قیامت تک رکھ دی ھے وہ اس گنجائش کو دیکھ کر ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ھیں، خود قرآن حکیم کے بارے میں نبی پاک ﷺکا فرمان موجود ھے کہ اس کے خزانے قیامت تک خالی نہیں ھونگے اور یہ اپنے اندر غوطہ زن عاقل کو کبھی خالی ھاتھ نہیں لوٹائے گا، علماء کبھی اس سے سیر نہیں ھونگے،اسی کا اظہار ھمارے ماضی میں ھوا، امام مالک کے قدموں میں بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے امام شافعی نے ان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ھوئے ان کے بالمقابل اپنی فقہ دی اور وقت کی ضرورت کے مطابق دینی لباس کو سائز کے مطابق کیا،، اگرچہ تنگ نظروں اور اندھے مقلدوں کے ھاتھوں عین مسجد کے بیچ سنگسار کر دئیے گئے،اور کثرت سے خون بہہ جانے کی وجہ سے شہادت کا رتبہ پایا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ فقہ شافعی کے مقلدین تعداد میں فقہ مالکی پر غلبہ پا گئے، اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ نے وقت کے درزی کا کام سنبھالا اور اپنے زمانے کے مسائل کے مطابق حل پیش کیئے، وقت تبدیل ھوا ،سوشیو پولیٹیکل حالات تبدیل ھوئے تو ان کے اپنے شاگردوں نے آگے بڑھ کر اپنے امام کے احترام کے علی الرغم ان کے ٪90 مسائل کو تبدیل کر دیا۔
کسی سے مسائل میں اختلاف کا مطلب اس کی بے عزتی اور بےحرمتی ھمارے زمانے کے لوگوں کی پست خیالی ھے، جو اندھی تقلید کو ادب و احترام کا درجہ دیتے ھیں،حالانکہ یہ دین کے لیئے سخت نقصان دہ ھے، یہ اسی طرح کا مرض ھے جو دل کا والو پھنس جانے سے پیدا ھوتا ھے،تازہ خون کی فراھمی رک جاتی ھے اور کارڈیک اریسٹ ھو کر بندہ مر جاتا ھے،ذرا ذرا سی بات پہ جو لوگ کہتے ھیں کہ اگر کوئی تبدیلی لانی ھے تو جاؤ پہلے لاؤ ابوحنیفہ کے پائے کا انسان تو ان سے گزارش ھے کہ امام ابو حنیفہ اگر امام ابو یوسف اور امام محمد کو دستیاب نہیں ھوئے تو آج وہ کہاں سے تشریف لائیں گے، اور تشریف لائیں گے تو امام نہیں رھیں گے، جس طرح بقول آپ کے عیسی علیہ السلام واپس آ کر نبی نہیں رھیں گے بلکہ امتی بن جائیں گے، امام کی امامت اپنے زمانے میں ھی چمکتی ھے کیونکہ وہ اپنے زمانے کے ھی ایکسپرٹ ھوتے ھیں،یہ جو ھمارا سورج ھے یہ بس اسی نظام شمسی میں امام اور پھنے خان ھے، ذرا سا یہاں سے ھٹ کر آگے چلا جائے تو کوئی اسے ستارے کے مول بھی نہ پوچھے،یہ ڈیڑھ سال میں جتنی انرجی پیدا کرتا ھے،اس کے آگے وہ سورج بھی ھیں جو صرف ڈیڑھ منٹ میں اتنی انرجی پیدا کرتے ھیں،،جو ذرا جہاں پہ ھے وھیں آفتاب ھے ! پھر کیا خود امام ابو حنیفہ کو اپنے زمانے میں اتفاقِ رائے سے امام چنا گیا تھا؟ ان کے معارض موجود تھے اور ان پر اعتراضات آج بھی موجود ھیں اور بہت سارے معقول بھی ھیں،،امام مالک بھی اسی جرم ِ اجتہاد میں قابلِ تعزیر ٹھہرے،پورے مدینے کی رات بھر کی غلاظت اکٹھی کر کے ان کے بدن اور داڑھی سمیت چہرے پر ملی گئی اور گدھے پر سوار کر کے مدینے میں گھمایا گیا، پہلوانوں سے کھنچھوا کر ان کے شانے نکال دیئے گئے ،، امام احمد کو سرِ دربار روزے کی حالت میں روزانہ سو کوڑے مارے جاتے،ھر دس کوڑے بعد کوڑے مارنے والا بدل جاتا مگر کوڑے کھانے والا وھی ایک ھوتا ،الغرض کہ جو لوگ بھی جس زمانے میں بھی اس عظیم دینی خدمت کا بیڑا اٹھائیں گے وہ یہ بات ذھن میں رکھیں کہ ! ان ھــــی پتھـــروں پہ چـــــل کــر گـــر آ ســـکو تــــو آؤ ! میرے گھر کی راہگزر میں کوئی کہکــــــشاں نہیں ھے! اس یقین کے ساتھ کہ اللہ جس بندے سے جو اور جتنا کام لینا چاھتا ھے، اس سے پہلے کوئی اسے مار نہیں سکتا اور جو کام اللہ پاک کروا لیتا ھے اسے افراد یا وقت کبھی مار نہیں سکتا، اللہ اس کام کو پالتا ھے اور اسے لے کر چلنے والے لوگ فراھم کر دیتا ھے ! ھمارا سب سے بڑا المیہ وہ چشمے ھیں جو ھم نے اپنے اپنے مسالک اور اکابر کے نام پر چڑھا رکھے ھیں، ھم اپنے اپنے مسلک کے چشمے سے دنیا کو دیکھتے ھیں اور بد قسمتی سے وہ ھمیں ویسی ھی نظر آتی ھے ،جیسی کہ ھم دیکھنا چاھتے ھیں ،کسی کو گرین تو کسی کو لال اور کسی کو پیلی،، کتاب و سنت کا چشمہ کوئی خوش قسمت ھی چڑھاتا ھے، اپنے اکابر کو مافوق الفطرت اور خطا سے مبرا ھستیاں بنا کر پیش کیا جاتا ھے اور شخصیتوں کو کوٹ کوٹ کر دل و دماغ میں گھسایا جاتا ھے،نتیجہ یہ ھے کہ ھم یہ مطالبہ کرتے ھیں کہ اگر فقہی طور پر کوئی تبدیلی لازمی بھی ھے تو اس کے لئے ویسی ھی خطا سے معصوم اور مافوق الفطرت ھستیاں لے کر آؤ، اب ایسی افسانوی شخصیات نہ تو کبھی تھیں اور نہ اب اور نہ کبھی مستقبل میں لائی جا سکتی ھیں، جو بھی اٹھے گا اگر نو باتیں درست کرے گا تو ایک غلط بھی ضرور کرے گا اور اس غلطی کو درست کرنے والا بھی اللہ پیدا کر دے گا،،یہی سابقہ اماموں کی ھسٹری ھے اور اللہ کی سنت بھی اور یہی موجودہ اور آنے والے اماموں کے ساتھ ھو گا،، انسان کی امامت کا فیصلہ ھم عصر نہیں کرتے آنے والا وقت اور مستقبل کی نسلیں کرتی ھیں !!