مُحمدﷺ پر لگےالزام کا تحقیقی جواب از خالد رضوان چودھری

قصُور کی معصُوم زینب کی عُمر کی مُناسبت سے ایک پاکستانی عیسائی نے آج مُجھ پر ایک ذُومعنی فِقرہ کستے ہُوئے حضرت مُحمدﷺ کی حضرت عائشہؓ سے مُبیّنہ طور پر چھے سال کی عمر میں نکاح کا حوالہ دیا۔
جتنا غُصہ مجھے اُس پر ہے اُس سے زیادہ اُن مُسلمان بُت پرستوں پر ہے جو بُخاری کی ایک شرمناک روایت کو سچا ثابت کرنے کی خاطر اپنے دلائل سے غیر مُسلموں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ میرے نبیﷺ کی شان میں گُستاخی کریں۔
بہتر ہو کہ نئی نسل حضرت مُحمدﷺ کی حضرت عائشہؓ سے شادی کے حقائق سے آگاہ ہو۔
یہ آرٹیکل اسی ضمن میں ہے۔ آرٹیکل کُچھ طویل ہے لیکن معاملہ ایسا ہے کہ میری خواہش ہے کہ نوجوان اس میں بیان کیے گئے حقائق یاد کرلیں تاکہ جب بھی اُن کے سامنے یہ معاملہ بیان ہو وہ فوراََ وضاحت کرسکیں۔
جن مُلکوں میں مُسلمان اقلیّت میں ہیں وہاں مُسلمانوں کا سامنا حضرت مُحمدﷺ کی حضرت عائشہؓ سے اُنکی کم عُمری میں نکاح اور شادی کے سوال سے ضرور ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے مُسلمان بھی بُخاری میں درج ایک روایت کی بُنیاد پر مُحمدﷺ پر لگے اس الزام کو تسلیم کر چُکے ہیں کہ مُحمدﷺ نے عائشہؓ سے چھے سال کی عُمر میں نکاح اور نو سال کی عُمر میں رخصتی کی تھی۔
عُلمأ بُخاری شریف کی اس شادی کے بارے میں ضعیف روایت کو سچا ثابت کرنے کے لیے مُحمدﷺ پر یہ الزام پُختہ کرتے ہوئے نہایت بھونڈی دلیلں دیتے ہیں.
جن میں ایک یہ بھی ہے کہ عرب میں لڑکی نو سال کی عُمر میں شادی کے قابل ہو جاتی ہے۔
بُخاری شریف کی اس ضعیف روایت نے مُحمدﷺ کی کردار کُشی کرنے والے لوگوں کو کافی مواد فراہم کیا .
اور بُخاری کے بعد کے عُلماء نے بھی اس بارے میں تحقیق کی بجائے اُس غلط روایت کو سینے سے لگائے رکھا
ورنہ بُخاری سے پہلے کا لٹریچر شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر اُنیس سال سال سے زیادہ ثابت کرتا ہے۔
اسماءُالرجال کا علم احادیث کی کتابیں لکھے جانے سے پہلے کا علم ہے
اور اسی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ کی نکاح کے وقت عُمر سترہ سال سے زیادہ
اور رُخصتی کے وقت اُنیس سال کے قریب تھی۔
بُخاری یا دیگر اماموں نے احادیث کی چھانٹی کے لیے پہلے سے موجود اسماءُالرجال کےعلم کا سہارا لیا
اور اسی علم کی بُنیاد پر کسی حدیث کو صحیح کہا کسی کو ضعیف۔
بُخاری اور دیگر مُحدثین کی بدولت ہی اسلام کا ایک حصہ ہم تک پہنچا
لیکن احادیث کی کتابوں میں بھی بہت سی خلاف واقعہ یا خلاف قُرآن احادیث اجتہادی غلطیوں کی وجہ سے شامل ہو گئیں
لہٰذا ان کُتب سے کُچھ لیتے ہوئے آنکھیں کُھلی رکھنا ضروری ہے۔ غلطی سے پاک صرف قُرآن ہے۔
میں آپکو بُخاری شریف کی کتابُ التوحید میں آج بھی موجود شریک بن عبدُاللہ سے مروی ایک حدیث بتاتا ہوں جو کہتی ہے کہ معراج کا واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے۔ آپ میں سے ہر کوئی یہ آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ بُخاری کی یہ حدیث خلاف واقعہ ہے۔
اگر یہ روایت غلط ہونے کے باوجود بُخاری میں بھی موجود ہے تو بعید نہیں کہ اسی طرح کی اور خلاف واقعہ روایات بھی بُخاری میں اجتہاد کی غلطی سے شامل ہو گئی ہوں۔
حضرت عائشہؓ کی شادی کے وقت عمر والی بُخاری کی روایت بھی معراج والی روایت کی طرح خلاف واقعہ ہے۔
اسماءُالرجال کے مُختلف ماہرین تھے
جو بُخاری اور دیگر مُحدّثین سے پہلے کے ہیں
تاریخی اعتبار سے مُحدّثین سے زیادہ مُعتبر بھی ہیں
کیونکہ انہی کی کی ہوئی تحقیق سے بُخاری اور دیگر مُحدّثین نے حدیثوں کے حوالوں کو صحیح یا غیر مُستند قرار دیا۔
اسماءُالرجال کی بہت سی کتابوں میں حضرت عائشہؓ کی شادی کے وقت عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ثابت ہوتی ہے۔
مشکوٰۃ شریف کو تمام مسالک کے مُسلمان احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں اس حوالے سے تین نکات اہم ہیں۔
پہلا یہ کہ حضرت اصمہؓ جو حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں کا انتقال تہتّر 73 ہجری یعنی ہجرت کے بہترسال بعد میں ہوا۔
دوسرا نُکتہ یہ ہے کہ اُس وقت اُنکی عُمر سو سال تھی
تیسرا نُکتہ جسے اسماءُالرجال کے تمام ماہرین نے لکھا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اصمہؓ حضرت عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں۔
اب ذرا غور کیجیے کہ اگر وہ ہجرت کے بہتّر سال بعد سو سال کی تھیں
تو ہجرت کے وقت حضرت اصمہؓ کی عمر اٹھائیس سال سے کُچھ زیادہ بنتی ہے
اور چونکہ حضرت اصمہؓ حضرت عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں
لہٰذا حضرت عائشہؓ ہجرت کے وقت اٹھارہ سال سے کُچھ بڑی تھیں۔
یہ تو سب مانتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کا نکاح ہجرت سے ایک سال پہلے اور رُخصتی ایک سے ڈیڑھ سال بعد ہوئی تھی
یعنی شادی کے وقت اُنکی عمر اُنیس سال سے کُچھ زیادہ تھی۔
بخاری کی ایک اور حدیث کی جانب جو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ام المومنین ارشاد فرماتی ہیں کہ جب مکہ یہ آیت نازل ہوئی "بل الساعتہ موعد ھم و الساعتہ ادھی وامر ” (القمر)
تو میں اس وقت لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔ یہ سورہ القمر کی آیت ہے۔ سورہ القمر شق القمر کے سلسلے میں نازل ہوئی اور یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔
مفسرین کا بیان ہے کہ سورہ القمر سن 4 نبوی میں نازل ہوئی اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ لڑکی تھیں اور کھیلتی پھرتی تھیں۔ یہ روایت ثابت کر رہی ہے کہ ام المومنین سن 4 نبوی میں اتنی عمر کی ضرور تھیں کہ لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی پھرتی تھیں۔
اور اتنا حافظہ ضرور رکھتی تھیں کہ ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس وقت ان کے ذہن میں محفوظ بھی تھی۔
اگر ہم سن 4 نبوی میں ان کی عمر چھ سال بھی تسلیم کر لیں تو یہ خود بخود ثابت ہو جائے گا کہ ام المومنین بعثت رسول سےکم از کم 2 سال قبل پیدا ہوئی تھیں۔ اور اس حساب سے ان کی عمر 17 سال بنتی ہے۔
اب میں آپ کو وہ حالات بتاتا ہوں جن میں یہ شادی ہوئی۔
کوئی بھی عقل والا انسان وہ حالات جاننے کے بعد حضرت محمدﷺ پر لگے اس الزام کو خلاف عقل قرار دے گا کہ اُنہوں نے ایک چھے سال کی بچی سے نکاح کیا ہو۔
عقل کے اندھے البتہ بُخاری کی اس روایت کو سچا ہی کہیں گے چاہے اس سے غیر مُسلم دنیا میں مُحمدﷺ کی ذات مبارک کی منفی تشہیر ہی کیوں نہ ہو۔
اس ایک جھُوٹی روایت کے علاوہ غیر مُسلم سکالرز کو محمدﷺ کی ذات کے کسی پہلو پر اعتراض کا موقع نہیں ملتا
کیونکہ مُحمدﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اُنکے شدید ترین دُشمنوں کو بھی تعریف پر مجبور کرتا ہے۔
یہ الزام بھی مُحمدﷺ پر مُسلمانوں نے خود لگایا ورنہ یہ بھی تاریخی حوالوں اور ثبوتوں کے خلاف ہے جو میں آپکے سامنے رکھنے والا ہوں۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضرت مُحمدﷺ کے لیے اکیلے پن کے علاوہ اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تربیّت بھی ایک بڑا چیلنج تھا
کیونکہ اُنکا سارا وقت دین کے لیے گُزرتا تھا۔
انھی دنوں محمدﷺ کی مُلاقات حضرت خولہؓ سے ہوئی تو اُنہوں نے آپﷺکو بچیوں کی تربیّت اور آپﷺ کا خیال رکھنے کے لیے شادی کا مشورہ دیا۔
یاد رہے کہ  اس وقت آپﷺ کی چار بیٹیاں تھیں
اور سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر بھی دس سال سے زیادہ تھی۔
عقل یہ بات کیسے مان سکتی ہے کہ آپﷺ اپنی بیٹیوں کی تربیّت کے لیے اُن سے بھی چھوٹی لڑکی کا انتخاب کرتے۔
بہرحال مُحمدﷺ نے خولہؓ سے پُوچھا کہ کیا اُن کی نظر میں کوئی رشتہ ہے تو خولہؓ نے حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہ کے مُمکنہ رشتوں کا ذکر کیا۔
آپﷺ نے اُنہیں بات چلانے کی اجازت دی۔
خولہؓ نے حضرت ابو بکرؓ سے عائشہؓ کے رشتے کی بات چلائی توحضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ وہ عائشہؓ کا رشتہ تین سال پہلے سے کہیں طے کر چُکے ہیں
البتہ حضرت ابو بکرؓ اور اہل خانہ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے وہ لوگ کئی سال سے حضرت ابو بکرؓ کے اصرار کے باوجود رُخصتی لینے سے ٹال رہے ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ وہ آخری بار اُن سے پوچھیں گے اور پھر جواب دیں گے۔
یہاں عقل والوں کے لیے ایک نُکتہ ہے کہ
اگر اُس وقت حضرت عائشہ کی عمر بُخاری شریف کے مُطابق واقعی چھے سال تھی تو کیا حضرت ابوبکرؓ تین سال کی عمر میں عائشہؓ کی منگنی کر چُکے تھے اور چار سال کی عمر میں ہی اُنکی رُخصتی پر اصرار کر رہے تھے۔
ایسا ہونا مُمکن نہیں یقینی بات ہے کہ امام بُخاری سے اجتہادی غلطی ہوئی
اور بُخاری کی بعد کے عُلماء نے اس مُعاملے میں عقل کے استعمال اور تحقیق کے بعد بُخاری کی غلطی کی تصیح کی بجائے اپنی شخصیّت پرستی کی تاریخی عادت سے اس الزام کو اورپُختہ کیا ۔
یہ رویّہ بالکل ایسا ہے کہ محمدﷺ پر الزام برداشت ہے، بُخاری کی اجتہادی غلطی میں تحقیق کرنا اور اُسے درست کرنا منظور نہیں۔
اس دوران خولہؓ نے حضرت سودہؓ سے بات کر لی
حضرت سودہؓ ایک مُسلمان بیوہ تھیں۔
اُنہوں نے فورًا ہاں کر دی
اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی وہاں بات کر چُکے تھے جہاں حضرت عائشہؓ کا پہلے رشتہ طے ہوا تھا
اور وہ لوگ اس رشتے کو نبھانا نہیں چاہتے تھے
لہٰذا حضرت ابوبکرؓ نے بھی حضرت عائشہ کے لیے آپﷺ کا رشتہ قبول کر لیا۔ چونکہ بُنیادی مقصد آپﷺ کی بیٹیوں کی پرورش تھا
لہٰذا آپﷺ نے حضرت سودہؓ سے شادی کی
کہ وہ حضرت عائشہ سے بڑی اور جہاندیدہ خاتون تھیں۔
اپنے سابقہ مرحوم خاوند اسسکرنؓ کے ساتھ اسلام کی خاطر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا شرف بھی رکھتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ سے اُس وقت نکاہ کیا گیا کیونکہ حضرت ابوبکرؓ بھی اُس وقت تک ہاں کر چُکے تھے۔
البتہ اُنکی رُخصتی ہجرت کے بعد ہوئی
جب اُنکی عمر اُنیس سال سے زیادہ تھی۔
بُخاری اور حدیث کی دیگر کتابیں لکھنے والوں نے لاکھوں حدیثوں میں سے ظنّی علم کی بُنیاد پر حضرت محمدﷺ سے متعلق صرف چند ہزار روایات کو صحیح قرار دیا۔
بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ ظنّی علم اندازے کا علم ہے۔ مُحدثین خود اپنے اس علم کو ظنّی علم کہتے ہیں۔
اللہ سورہ یونس کی چھتیسویں آیت میں کہتا ہے
’’ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر تو نہیں چلتے لیکن ظن (گُمان) پر بے شک گُمان سچ کا مُتبادل نہیں ہوتا‘‘
گو کہ احادیث لکھنے والے امام اس اندازے کے لیے اپنے سے پہلے مُحقیقین کے علم جسے اسماءُالرجال سے مدد لیتے تھے
جو مُختلف صحابہؓ اور تابئین اور تبع تابئین کی زندگیوں کا علم ہے
لیکن اہم بات یہ ہے کہ حدیث اکٹھا کرنے کا سارے کا سارا علم ہی ظنّی ہے
یعنی نیک نیّتی اور تحقیق کے بعد لگایا گیا اندازہ۔
ایک ایسا اندازہ جو قرآن کی طرح حتمی نہیں ۔
یہ ساری تحقیق بہت قابل قدر ہے
لیکن بہرحال اماموں نے لاکھوں احادیث کو غلط اور صرف چند ہزار کو صحیح قرار دیا۔
صحیح احادیث میں بھی غلطی کی گُنجائش باقی ہے
کیونکہ اُن کی بُنیاد بھی اسماءُالرجال کا ظنّی علم ہی ہے
جسے لکھنے والے اُن سے کبھی نہیں ملے تھے جن کے بارے میں یہ لکھ رہے تھے۔
جب یہ امام اس علم اور تحقیق کی بُنیاد پر لاکھوں احادیث کو مُسترد کر رہے تھے تو کسی مُسلمان نے اُنہیں مُنکرین حدیث ہونے کا طعنہ نہیں دیا۔
یہ سب خرافات مُسلمانوں میں بہت بعد میں شامل ہوئیں۔
آج بھی اگر تحقیق یہ ثابت کر رہی ہے کہ اماموں کی نیک نیّتی کے باوجود بھی بہت سی ضعیف احادیث اور روایات حدیث کی کتابوں میں شامل ہیں
توخلافِ واقعہ اور خلافِ قُرآن کو بالکل ویسے ہی مُسترد کیا جانا چاہیے جیسے اماموں نے خود ضعیف احادیث کو مُسترد کیا تھا۔
حضرت عائشہ سے مُتعلق روایت بھی بُخاری میں شامل ایک ضعیف روایت ہے جو انہیں اسماءُالرجال سے مُتصادم ہے جسکی بُنیاد پر بُخاری نے اپنا احادیث کا مجموعہ ترتیب دیا تھا۔
اس ضعیف روایت کی بُنیاد پر غیر مُسلم اور مُتعصب سکالرز نے مُحمدﷺ کی کئی صدیوں سے کردار کُشی جاری رکھی ہوئی ہے
جسکا مُسلمان مُعاشروں میں رہنے والے لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا
کہ وہاں مُسلمانوں کے سامنے کوئی عمر عائشہؓ کے مُعاملے میں نبیﷺ کی تضحیک نہیں کرتا۔
’’اور نصیحت کرتے رہیے بے شک نصیحت ایمان والوں کو نفع دتی ہے۔ (القُرآن ۵۱:۵۵) ‘‘

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.