اور جب قابیل نے ھابیل کو قتل کیا:از ابن آدم
سوره مائدہ (نازل شدہ ٤ ہجری) میں الله تعالیٰ مدینہ میں مقیم یہودی قبیلے بنو قریظہ سے گفتگو کے دوران آیت نمبر ٢٧ تا ٣١ میں ارشاد فرماتا ہے:
اور انہیں (بنو قریظہ کو) آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو. جب ان دونوں ( بیٹوں) نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی، اس (قابیل) نے (اپنے بھائی ہابیل سے) کہا "میں تجھے مار ڈالوں گا” اس (ہابیل) نے جواب دیا "الله تو متقیوں کی ہی نذریں قبول کرتا ہے (٢٧) اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں الله رب العالمین سے ڈرتا ہوں (٢٨) میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے، ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے” (٢٩) آخر کار اس (قابیل) کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لئے آسان کر دیا، اور وہ اسے (ہابیل کو) مار کر ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں (٣٠) پس ہم نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے یہ بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، یہ دیکھ کر وہ (قابیل) بولا "افسوس مجھ پر میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا”. اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا (٣١)
ہابیل قابیل کا یہ قصہ جس سلسلہ کلام میں آیا ہے اس سے قطع نظر ہمارے یہاں یہ بحثیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ہابیل اور قابیل کے پیشے کیا تھے اور قابیل کا ہابیل کو قتل کرنے کا محرک کیا تھا۔ تجرد پسند یا زن بیزار افراد اس کا الزام ایک عورت پر دھر دیتے ہیں اور پھر بیان کرتے ہیں کہ دنیا کا پہلا قتل عورت کی وجہ سے ہوا اور اسکے بعد تریا چلتر کی دیگر کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب روایت پرست افراد کوے کے زمین کھودنے کے قصے کو بندریا کی رجم کرنے والی روایت کے جواز پر پیش کر دیتے ہیں کہ اگر قران میں کوا زمین کھود سکتا ہے تو بندر شادی شدہ بندریا کو کیوں رجم نہیں کرسکتے۔ اور یوں آیات میں موجود مضمون کا حقیقی مقصد ان لا یعنی بحثوں میں گم ہو جاتا ہے۔
قصے میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں، ایک قتل کی بابت ہابیل اور قابیل کا مکالمہ اور بعد از قتل کوے کی آمد اور قابیل کی پشیمانی۔ اگر ہابیل اور قابیل کے اس قصہ کو بائبل سے مستعار مروجہ فہم کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہابیل اور قابیل اس وقت جنت سے نکالے گئے دنیا کے واحد انسانی جوڑے حضرت آدم اور حوا کی اولادیں تھیں۔ جب انسان نے ابھی دنیا میں قتل کا مزہ چکھا ہی نہیں تو قابیل کو کیونکر معلوم ہوا کہ ہابیل محض مر ہی نہیں سکتا بلکہ وہ اس کو قتل کرنے پر بھی دسترس رکھتا ہے۔ دوسری جانب ہابیل کو بھی یہ علم تھا کہ وہ اپنا جوابی دفاع کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تاہم وہ تقویٰ کے باعث اس اقدام سے گریز کر رہا تھا۔ گویا ہابیل اور قابیل دونوں اقدامی اور دفاعی تدبیروں سے پورے طور آشنا تھے اور موت اور قتل کا ٹھیک ٹھیک ادراک رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس چیز کا ادراک انھیں کیسے ہوا جب کہ ہمارے مروجہ فہم کے مطابق انسانی قتل کا کوئی واقعہ اس وقت تک وقوع پذیر ہوا ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ بعد از قتل قابیل شرمندہ ہوا اور اپنے جرم کو چھپانے کی کوئی ترکیب نہ نکال سکا۔ جب بالاخر ایک کوے نے آ کر اپنے ہی ہم جنس دوسرے کوے کو زمین میں گاڑا یا بلا گاڑے ہی زمین کھود کر دکھائی تو قابیل کو بھی اپنے ہم جنس (اپنے بھائی) کو دفنا کر اپنے گناہ کو چھپانے کی تدبیر سوجھی۔ یہ دونوں معاملات بہت اہم ہیں۔ الله تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ قتل کا معاملہ جو کہ ہابیل اور قابیل (انسان) کی حیوانی جبلت سے تعلق رکھتا تھا اس سے یہ دونوں بھائی بخوبی آشنا تھے۔ جب کہ قابیل ضمیر کی آواز پر شرمندہ ہونے کے بعد جرم چھپانے کی اہلیت سے ناواقف تھا۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ جرم کے بعد اپنے اندر شرمندگی محسوس کرنا اور گناہ کا احساس ہونا یہ تجربہ قابیل کے لئے نیا تھا اور یہ احساس اس کو اس روح کی بدولت ہوا جو کہ خلافت عطا کرتے وقت الله نے نوع انسانی میں پھونکی تھی۔
سوره بقرہ آیت نمبر ٣٠ میں الله تعالیٰ (نوع) آدم کو خلافت سونپنے کے متعلق اپنے اور فرشتوں کے مکالمے کے دوران فرشتوں کے انسان کی حیوانی جبلت کے متعلق اعتراض کو اس طرح فرماتا ہے:
وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اِنِّىۡ جَاعِلٌ فِى الۡاَرۡضِ خَلِيۡفَةً ؕ قَالُوۡٓا اَتَجۡعَلُ فِيۡهَا مَنۡ يُّفۡسِدُ فِيۡهَا وَيَسۡفِكُ الدِّمَآءَۚ…. (٣٠)
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں” انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ بنانے والے ہیں، جو اس میں فساد کرتا ہے اور خون بہاتا ہے…. (٣٠)
پس قرآن میں بیان کیے گئے ہابیل و قابیل کے اس قصے اور سوره بقرہ کی اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ انسان اپنے حیوانی وجود کے ساتھ اس کرہ ارضی پر خلافت ملنے سے پہلے ہی موجود تھا اور قتل و غارت میں بھی ملوث تھا۔ جب الله تعالیٰ نے اس کو خلافت عطا کرنے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کا اعتراض ان کا انسان کے مشاہدے کی بنیاد پر تھا نہ کہ کسی استنباط کی بنیاد پر۔ اور دوسری بات یہ کہ انسان میں گناہ اور ثواب کا احساس روح پھونکے جانے کے بعد آیا، اور روح پھونکے جانے کا عمل ہی درحقیقت اس کی خلافت کا اعلان تھا.