سوره فتح اور نبی کریمﷺ کے اگلے پچھلے گناہ؟ از ابن آدم
سوره فتح ذوالقعدہ ٦ ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی. یہ صلح رسول الله اور مشرکین مکہ کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر انجام پائی. بعثت نبویؐ کے بعد، نبی کریمﷺ کو مکہ مکرمہ میں ١٣ سال تک شدید مخالفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا. مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہو جانے کے بعد ہجرت مدینہ کا حکم آیا اور مکہ کے ان مسلمانوں کو جو کہ ہجرت کر جائیں، کو سوره حج میں ہجرت کی شرط کے ساتھ جہاد کی اجازت بھی دے دی گئی۔ ہجرت مدینہ کے بعد دو ہجری میں سوره بقرہ نازل ہوئی جس کی آیت ٢٤٤ میں مہاجرین کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے لئے جہاد کا عمومی حکم آ گیا. رمضان دو ہجری میں مکہ مکرمہ سے مشرکین کا ١ ہزار افراد پر مشتمل ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے نکلا، جسکو ہم غزوہ بدر کے نام سے جانتے ہیں۔ کیونکہ پوری مسلم جماعت کی یہ پہلی باقاعدہ جنگ ہونے جا رہی تھی، لہٰذا دوران جنگ کیا حکمت عملی اپنانی ہے، اس کے احکامات سوره محمدؐ میں نازل ہوئے. آیت نمبر ٤ میں ارشاد ہوا:
"پس جب اِن کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد (تمہیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو، تا آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے یہ ہے تمہارے کرنے کا کام …(٤)”
مسلمان جو کہ مشرکین مکہ سے تعداد میں ایک تہائی بھی نہ تھے، پوری جانفشانی سے لڑے اور جن لوگوں سے وہ جنگ کر رہے تھے ان میں سے اکثر ان کے خونی رشتہ دار ہی تھے. لیکن انھوں نے دینی حمیت پر اس خاندانی محبت کو غالب نہیں ہونے دیا. جنگ میں مکہ والوں کے پاؤں اکھڑنے لگے اور اس دوران بعض مسلمانوں نے قتال روک کر مشرکین کو قیدی بنانا شروع کر دیا. اگرچہ اس اقدام سے جنگ کا نتیجہ تو مسلمانوں کے خلاف نہیں گیا تاہم سوره محمدؐ کی درج بالا آیت میں بتائی گئی ترتیب متاثر ہو گئی. آیت میں کہا گیا تھا کہ تمہارا پہلا کام کفار کو اچھی طرح کچلنا ہے اور اس کے بعد قیدی بنانے کا کام شروع کرنا ہے. جنگ میں کل ٧٠ کفار مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنائے گئے لیکن مشرکین کی ایک بہت بڑی تعداد کو بھاگنے کا موقع مل گیا اور وہ اس کے بعد بھی وہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل نبرد آزما ہوتے رہے.
غزوہ بدر کے بعد سوره انفال کا نزول ہوا جس کی آیت ٦٧ میں الله تعالیٰ نے اس چیز پر سرزنش کی اور فرمایا:
"کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے (٦٧)”
اگرچہ یہاں غلطی بعض مجاہدین کی طرف سے ہوئی تھی، تاہم جنگ کے کمانڈر انچیف ہونے کے ناطے یہاں پر خطاب اللہ نے اپنے رسول سے ہی کیا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ عمل درآمد کی غلطی تھی، معصیت کا ارتکاب نہیں تھا۔ بہرحال مکہ والوں کی اتنی بڑی تعداد کے فرار ہو جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ہی سال شوال ٣ ہجری میں احد کے مقام پر مسلمانوں اور کفار مکہ کا دوبارہ مقابلہ ہوا. اس جنگ میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا مگر کفار کے قدم اکھڑنے کے بعد بعض مسلمانوں نے نبی پاکؐ کا حکم ملنے سے پہلے ہی مال غنیمت سمیٹنا شروع کردیا. موقع پا کر کفار نے دوبارہ حملہ کیا اور مسلمانوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا اور جنگ احد سے واپسی پر مشرکین مکہ کے سردار نے مسلمانوں کو اگلے سال بدر کے مقام پر دوبارہ مقابلہ کا چیلنج دے دیا، جس کو نبی پاکؐ نے قبول کر لیا. سوره آل عمران کا نصف آخر غزوہ احد کے نتائج پر ہی تبصرہ ہے. اس فتح کا نہ ملنے کی وجہ بعض مسلمانوں کی طرف سے الله اور اس کے رسولؐ سے سوره بقرہ میں کیے گئے وعدے "سمعنا و اعطعنا” کے اقرار میں دوسری بار جزوی چوک تھی.
تاہم اس کے بعد جب مسلمانان مدینہ نے جنگوں میں "سمعنا و اعطعنا” کی مکمل پاسداری کی تو الله نے مسلمانوں کے قدم دوبارہ جما دیے یہاں تک کہ شوال ٤ ہجری آ گیا اور ایک سال پہلے ہی مشرکین کے ہاتھوں شدید نقصان اٹھانے کے باوجود بھی وعدے کے مطابق مسلمان بدر کی طرف روانہ ہو گئے. الله تعالیٰ مسلمانوں کی اس ادا سے خوش ہوا اور مشرکین مکہ کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ اپنے ہی دیے ہوئے چیلنج کا پاس نہ رکھتے ہوئے پیٹھ دکھا گئے. بغیر جنگ کی اس فتح نے جہاں مسلمانوں کے حوصلے کو بہت بلند کیا وہیں انکے سیاسی اور فوجی قد میں بھی بہت اضافہ کیا. میدان بدر سے واپسی پر ذوالقعدہ ٤ ہجری میں سوره مائدہ کا نزول ہوا. جس میں الله تعالیٰ نے فرمایا:
"… آج میں نے تمہارے غلبے کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے … (٣)”
یعنی کہ الله نے خوش ہوکر وعدہ کر لیا کہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ پر ابدی غلبہ حاصل ہو گیا ہے. یعنی مشرکین مکہ اب غزوہ احد کی طرح مسلمانوں کو کوئی قوی نقصان نہ پہنچا پائیں گے. ٥ ہجری میں غزوہ خندق ہوئی اور مشرکین مکہ اپنے ساتھ دیگر کئی قبائل کا ایک قوی لشکر لے کر آئے اور نامراد ہی لوٹ گئے. اس کا ذکر اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں کیا ہے اور فرمایا کہ "۔۔۔۔۔مومنین کی طرف سےاللہ ہی ان (دشمنوں) سے لڑنے کے لیے کافی ہوگیا ۔۔۔۔(احزاب ۲۵)”۔
٦ ہجری میں رسول الله نے جماعت صحابہؓ کے ساتھ عمرے کا قصد کیا، مسلمان جنگی ہتھیاروں کے بغیر احرام کی حالت میں عمرے کے لئے روانہ ہوئے. اس سفر کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کا الله کے عطا کیے گئے غلبے کے وعدے پر ایمان تھا. تاہم مضافات مدینہ کے منافق بدو یہی گمان کیے بیٹھے تھے کہ مشرکین مکہ، بغیر ہتھیار بندی کے اس سفر میں، مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دیں گے اور اسی وجہ سے وہ اس سفر میں شریک بھی نہ ہوئے (حوالہ فتح آیت ١٢) .
حدود حرم کے باہر حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو روک دیا. نبی کریمؐ نے حضرت عثمان غنیؓ کو بطور ایلچی سرداران مکہ سے مذاکرات کے لئے بھیجا، جہاں انھوں نے ان کو روک لیا۔ اس دوران مسلمانوں کے قافلے میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانؓ کو مکہ میں شہید کر دیا گیا ہے، جس پر نبی کریمؐ نے جماعت صحابہ سے شہادت عثمانؓ کے بدلے کی بعیت لی. عین مکہ کی حدود میں، بغیر کسی جنگی ہتھیار کے یہ بعیت کرنا الله کے عطا کے گئے غلبے کے وعدے پر بھرپور ایمان کا اظہار تھا. اس کا ذکر سوره فتح آیت ٢٤ میں الله نے اس طرح فرمایا ہے:
"وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں اُن کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، حالانکہ وہ اُن پر تمہیں غلبہ عطا کر چکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے دیکھ رہا تھا (٢٤)”
اس بعیت کے بعد مکہ والوں نے صلح کا معاہدہ کیا جس کو الله نے فتح مکہ کا دیباچہ قرار دیا. سوره فتح کی ابتدائی چار آیات میں ارشاد ہوتا ہے:
"اے نبیؐ ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی (١) تاکہ الله معاف کر دے تم کو، جو پہلے ہو گیا تمھاری غلطی کی وجہ سے اور جو پیچھے چلا گیا، اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دیکھائے (٢) اور تم کو زبردست نصرت بخشے (٣) وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں اطمینان نازل فرمایا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ایک ایمان اور بڑھا لیں….. (٤)”
ان چار آیات میں دو نکات انتہائی اہم ہیں. عموماً آیت ٢ میں ترجمہ کچھ اس طرح کیا جاتا ہے کہ "الله تمھارے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے”۔ حالانکہ یہاں یہ بات اس غلطی کو معاف فرمانے کی بیان ہوئی ہے کہ جب غزوہ بدر میں بعض صحابہ کی طرف سے سوره محمد ؐکی آیت نمبر ٤ کی ترتیب کے خلاف عمل درآمد ہوا تھا، یعنی کہ مشرکین مکہ کا کچلنا جو کہ پہلے ہونا چاہیے تھا وہ پیچھے چلا گیا اور قیدی بنانا آگے آ گیا. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کفار کی بہت بڑی تعداد میدان جنگ سے فرار ہو گئی، اور مسلمانوں کے خلاف انکی کاروائیاں جاری رہیں اور مکہ فتح ہونا ٹلتا گیا۔ اب جب کہ مسلمانوں نے انتہائی بے غرضی سے جان ہتھیلی پر رکھ کر بیعت رضوان کی تو الله نے مسلمانوں سے خوش ہو کر ان کی اس غلطی کو معاف کر دیا اور مکہ فتح ہونے کی خوشخبری دے دی. یہاں یہ بات واضح رہے کہ خطاب نبی کریمؐ سے اس لیے ہوا کہ غزوہ بدر کے کمانڈر انچیف رسول اللہ خود تھے، ورنہ وہ غلطی رسول اللہ کی اپنی ذات سے نہیں ہوئی تھی۔
دوسری غور طلب چیز آیت ٤ میں بیان ہوئی ہے کہ مومنین اپنے ایمان کے ساتھ ایک ایمان اور بڑھا لیں. عموماً اس آیت کا مفہوم ایمان میں مزید اضافے کا بتایا جاتا ہے یعنی کہ ایمان کی مقدار میں اضافہ. حالانکہ یہاں پر پچھلے ایمان کے ساتھ ایک اور ایمان کے اضافے کی بات ہو رہی ہے، یعنی کہ تعداد میں اضافہ. پچھلا ایمان اسی غلبے کے وعدے (مائدہ ۳) پر تھا جس کی بدولت مسلمانان مدینہ جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کے نرغے میں عمرہ ادا کرنے نکل پڑے تھے. اور جب بے سرو سامانی میں جنگ کی نوبت آئی اور بیعت رضوان رو بعمل آئی، تو مسلمانوں سے خوش ہو کر الله تعالیٰ نے سوره فتح کی آیت ١ کی صورت میں مکہ کے فتح ہونے کی خوشخبری دے دی. یہ وہ دوسرا ایمان تھا کہ مسلمانان مدینہ اب مشرکین مکہ پر غلبہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ مکہ کے فتح ہونے پر بھی ایمان لے آئیں.
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں نبیؐ کی دعوت کے ارتقاء کی پوری منظر کشی کی ہے. اس میں ایک طرف جہاں ہمارے لیے تبلیغ و اشاعت دین کے لئے رہنمائی ہے، وہیں نبی کریمؐ کی سیرت پر بھی یہ کتاب ایک فرقان ہے. سورتوں کے باہمی ربط کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے جب سوره فتح کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو نبی کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرنے کا عندیہ بیان کر دیا جاتا ہے، حالانکہ نبی کریمؐ معصوم عن الخطاء ہیں. سورہ محمدؐ، سوره انفال، سوره مائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے جب سوره فتح کو مطالعہ کیا جائے تو اس کی تفہیم میں کوئی مشکل باقی نہیں رہتی.