استخارہ اور مشورہ ! از قاری حنیف ڈار
اللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ کو صاحب وحی ھوتے ھوئے بھی مشورے کا حکم دیا حالانکہ جن کا دل سوتے میں بھی اللہ پاک کے ساتھ ہاٹ لائن پہ جڑا ھو اور جبرائیل جن کا مشیر ھو ان کو کسی اور سے مشورہ کرنے کی بھلا کیا ضرورت مگر چونکہ دین کے مناسک اور سنن انبیاء کے عمل سے لئے جاتے ہیں لہذا نبی ﷺ کو ھی حکم دیا [فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران ـ159)پس اللہ کے فضل کے سبب آپ ان کے لئے نرم خو ہیں ، اگر آپ تندخو، سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ یقینا آپ کے گرد سے چھٹ گئے ہوتے، پس ان سے در گزر کریں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگیں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں، پھر جب عزم کر لیں تو اللہ پر توکل کریں ، بےشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ـ
پس منظر اس آیت کا یہ ھے کہ غزوہِ احد میں رسول اللہ ﷺ کا اپنا ارادہ مدینے میں رہ کر لڑنے کا تھا ،مگر جو لوگ بدر میں شریک نہ ھو سکے تھے وہ بدر کی ہی طرح باہر نکل کر لڑنا اور اپنے جذبہ جہاد کو تسکین دینا چاہتے تھے لہذا ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی رائے پر اصرار نہ فرمایا اور جنگ کے لئے مدینے سے نکل پڑے ـ مگر اس جنگ میں ۷۰ مسلمانوں کی شھادت نے ایک طرف تو پورے مدینے کو سوگوار کر دیا دوسرا منافقین طعنے دینے لگے اور تیسرا مشورہ دینے والے صحابہ نفسیاتی طور پر سخت دباؤ میں آ گئے اور اپنے مشورے کے نتیجے پر پشیمانی کا شکار ھو گئے ، ان حالات میں اللہ پاک نے ان صحابہ سے مشورہ لیتے رھنے کا حکم دیا ـ
ہمارے یہاں والدین اولاد سے شادی کے بارے میں کوئی مشورہ نہیں کرتے اور استخارے کے لئے در در دھکے کھاتے پھرتے ہیں ،گویا کوئی نیک جو معاذ اللہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے اللہ پاک کے پی اے کے درجے پر فائز ھو چکا ھے وہ ان کو اندر کی خبر لا دے گا ،، استخارہ اللہ پاک سے خیر طلب کرنا ھے جو ہر چھوٹے بڑے کام میں طلب کرنی چاہئے ، اپنی زبان میں ہی اللہ پاک سے مانگنا چاہئے کہ میرے مولا اس کام کا انجام اچھا ھو ، تو شر میں سے خیر اور خیر میں سے شر برآمد کر سکتا ھے ، اس معاملے میں ہماری لا علمی ایک حقیقت ہے ،ھم اچھے کی نیت سے کوئی برا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں ، دعا کے بعد اللہ پر توکل کر لیں تو دل کو تسلی اور اطمینان ھو جاتا ھے ، یہ سب اپنی ذات کے لئے تو کیا جا سکتا ھے مگر جس معاملے میں دوسروں کی زندگیاں جڑی ھوں ، اس معاملے میں حکم مشورے کا دیا گیا ھے ، اپنی اولاد سے مشورہ کریں بیوی سے کریں ،بچوں کے ننھیال سے بھی کریں ، اپنے والدین سے بھی کریں اور کسی اور تجربے کار سے بھی کر لیں ـ
یہی معاملہ نظر کا بھی ھے رسول اللہ ﷺ کی 63 سالہ زندگی میں مجرد ایک واقعہ اور 144000 صحابہ میں سے صرف ایک بندے کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی بنیاد پر، جس کی حقیقت بھی مبہم ہے ھر گھر میں توھمات کی پوری کاٹیج انڈسٹری لگا لی گئ ھے اور جو جتنا دیندار ہے اتنا ہی توھم پرست ہے ، ان توھمات کی جڑیں ہمارے ھندو بیک گراؤنڈ کے ساتھ جڑی ہیں شریعت کے ساتھ نہیں ، شریعت کے مطابق قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا نص ھے ، کہ ھمارے ساتھ گزرنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اللہ پاک کے لئے ایکشن ری پلے کی حیثیت رکھتا ھے کسی کی نظر کچھ نہیں کرتی ، کہا جاتا ھے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں بلندی ہمیشہ سطح سمندر کی پستی سے ناپی جاتی ھے اور دن کو رات سے پہچانا جاتا ھے ۔ آپ کسی ھندو یا سکھ کے پاس ایک گھنٹہ بیٹھ جائیں یا ایک آدھ ساؤتھ انڈین فلم دیکھ لیں آپ کو بخوبی اندازہ ھو جائے گا کہ ھمارے توھمات کی اساس ھندو ہے ،اسلامی ھر گز نہیں ہے ،، نظر لگنا اگر اسی قدر کارگر ہے تو انگریز تو ایک بھی زندہ نہیں رھنا چاہئے اور گوریاں اور ان کے موتیوں کی طرح بچے تو لولے لنگڑے اور کوڑی و اپائج ھونے چاہیئں ،، مگر وہ لوگ بالکل بےخوف ہیں اور ہم تھرتھر کانپتے پھرتے ہیں ، نظر کے ڈر سے مکان پر کالی ھانڈی ھندو رکھتے ہیں ، اپنی گاڑیوں کے ساتھ کالے پراندے اور جوتے بھی وہ لٹکاتے ہیں ،