خلاصہ قرآن پارہ نمبر 23
تئیسویں پارے کا آغاز سورت یٰس کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ پچھلی آیات میں انبیا علیہم السلام کی تائید کرنے والے ایک مومن کا ذکر تھا، اس پارے میں اس مردِ مومن کی تبلیغ کا ذکر ہے کہ اس نے بستی کے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں اللہ کی پوجا کیوں نہ کروں کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف مجھ کو پلٹ کر جانا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر اگر میں کوئی اور معبود پکڑ لوں تو مجھے اس معبود کا کیا فائدہ کہ اللہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو دوسرے معبود میرا کچھ بھی بھلا نہیں کر سکتے۔ بستی والوں نے اس کی دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اس کو قتل کر دیا۔ خدا نے اس کو جنت میں داخل کر دیا اور خدا کی رحمتیں بستی والوں سے روٹھ گئیں۔ اس آدمی کو اللہ نے بخش دیا اور جنت میں داخل فرمایا. جب اس نے جنت کی نعمتیں اور آسائشیں دیکھیں تو کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا تو وہ بھی ہدایت پالیں. یہ آدمی دنیا میں بھی قوم کا خیر خواہ تھا اور جنت میں بھی اسے اپنی قوم کی فکر تھی.
اس کے بعد روزِ حشر کی ہولناکیوں کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن مجرموں کو حکم ہوگا کہ نیکوکاروں سے الگ ہو جائیں۔ اللہ پوچھے گا کہ اے آدم کی اولاد کیا تجھ سے عہد نہیں لیا گیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرنا کیونکہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے، بلکہ میری بندگی کرنا کیونکہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ اب تمھیں اس جہنم میں داخل کیا جا رہا ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ آج کے دن تمھارے منہوں پر مہر لگا دی جائے گی اور تمھارے ہاتھ بولیں گے اور تمھارے پاؤں گواہی دیں جو کچھ تم دنیا سے کما کر لائے ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ جیسے انھوں نے ہماری آیتوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں اگر ہم چاہیں تو دنیا ہی میں بطور سزا کے ان کی ظاہری بینائی چھین کر انھیں اندھا کر دیں کہ ادھر ادھر جانے کا راستہ بھی نہ سوجھے اور جس طرح یہ لوگ شیطانی راستوں سے ہٹ کر اللہ کی راہ پر چلنا نہیں چاہتے، ہم اس بات پر قادر ہیں کہ ان کی صورتیں بگاڑ کر بالکل اپاہج بنا دیں کہ پھر یہ کسی ضرورت کے لیے اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں، پر ہم نے ایسا نہ چاہا اور ان جوارح و قویٰ سے ان کو محروم نہیں کیا۔ یہ ہماری طرف سے مہلت اور ڈھیل تھی۔ آج وہ ہی آنکھیں اور ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ ان لوگوں نے ہم کو کن نالائق کاموں میں لگایا تھا۔
سورت یٰس کے آخر میں اللہ نے کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ کون بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ ہماری ہڈیاں چور چور ہو چکی ہوں گی، فرمایا کہ وہی ان ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا تھا اور اس کو ہر قسم کی تخلیق کی پوری خبر ہے۔ خدا کے ارادے کا نام وجود ہے۔ وہ جس کام کے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، اور وہ ہو چکا ہوتا ہے۔
اس کے بعد سورۃ الصافات ہے جس کے آغاز میں ستاروں کی تخلیق کے مقاصد واضح کیے گئے ہیں کہ ان ستاروں کے ذریعے آسمان دنیا کو زینت عطا کی گئی اور ان میں سے بعض کو خدائے تعالیٰ آسمان کی خبریں چوری کرنے والے شیاطین کو مارنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ سورت موت کے بعد اٹھنے اور حساب و کتاب سے بحث کرتی ہے. مشرکین کا اس بارے میں موقف عجیب تھا. وہ اس عقیدے کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ کیا ہم تب بھی اٹھائے جائیں گے جب ہم ہڈیوں کا چورہ ہو جائیں گے؟ اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ کچھ مشکل نہیں. جب تیسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں جمع ہوں گے اور اس وقت نادم ہوں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا ہم مذاق اڑایا کرتے تھے. پھر ان کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا وہاں اپنی بربادی کا باعث ایک دوسرے کو قرار دیں گے اور باہم دست و گریباں ہوں گے.
اس کے بعد جنتیوں کے ایک مکالمے کا ذکر ہے کہ جب وہ نعمتوں سے خوش حال ہوں گے تو اپنے ماضی کو یاد کریں گے. ایک کہے گا کہ میرا ایک ہم نشین تھا جو کہا کرتا تھا کہ بڑی عجیب بات پر تمھارا عقیدہ ہے کہ کیا ہڈیاں بوسیدہ ہونے کے بعد بھی اٹھایا جائے گا، یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں. پھر وہ اپنے ہمنشیں جنتیوں سے کہے گا کیا میں تمھیں اس کا انجام دکھاؤں؟ پھر وہ جھانک کر دیکھے گا تو اس منکر آخرت دوست کو دوزخ میں جلتا ہوا پائے گا اور کہے گا اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو تم مجھے بھی گمراہ کر دیتے.
پھر جنابِ ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کا ذکر ہے کہ اللہ نے ان کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ ابراہیم نے یہ خواب اپنے بیٹے سے ذکر کرکے پوچھا کہ تمھاری کیا رائے ہے؟ سعادت مند بیٹے نے جواب دیا کہ آپ وہ کام کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ جب ابراہیم نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا تو اللہ نے جنابِ ابراہیم کو پکارا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے۔ مقصد بیٹے کا ذبح کرانا نہیں بلکہ کھلی آزمائش تھی. ذبح عظیم میں اس کے بدلے یہ دنبہ ذبح کیجیے. اس طرح اللہ نے جنابِ ابراہیم کی قربانی قبول فرما کر جہاں اخروی جزا کو ان کا مقدر بنا دیا وہیں رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی قربانی کو ایک مثال بنا دیا۔
اسی سورت میں جنابِ یونس علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ رسولوں میں سے تھے اور خدا نے ان کو ایک لاکھ افراد کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ جنابِ یونس کو جب مچھلی نے نگل لیا تو انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں کثرت سے اللہ کی تسبیح کی جس کی برکت سے اللہ نے ان کو بڑی مصبیت سے نجات دے دی۔ حضرت الیاس کو اللہ نے بعلبک شہر کی جانب مبعوث کیا وہ بعل نامی بت کی پوجا کرتے تھے. حضرت الیاس نے ان کو منع کیا اور توحید کی دعوت دی. الیاس پر سلامتی ہو، چند مخلصین کے علاوہ سب نے ان کی بات کا انکار کیا.
اس کے بعد اللہ نے مشرکین کی اس بات کی بھی تردید کی کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جب کہ اللہ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ارشاد ہوا کہ اللہ کی ذات پاک ہے ان عیبوں سے جو مشرک اس سے جوڑتے ہیں، اللہ کا سلام ہو رسولوں پر، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے۔
اس کے بعد سورۃ ص ہے جس میں اللہ نے مشرکوں کے جنابِ محمد علیہ السلام کی دعوت پر اعتراض کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے الٰہِ واحد کی عبادت کا درس دیا اور باقی تمام معبودوں کی نفی کرتے ہیں. کفار کو اس پر اعتراض تھا کہ ایک اللہ کیسے تمام کام کر سکتا ہے. اللہ فرماتے ہیں یہ اعتراض انھوں نے کیسے گھڑ لیا ہے؟ کیا ان پر وحی آئی ہے یا انھوں نے آسمان کی جانب سیڑھی لگا لی ہے؟ کفار کی اس جاہلانہ سوچ کا جواب دینے کے بعد سابقہ امم کے مشرکین و متکبر کے انجام کا ذکر کیا. پھر جنابِ داؤد کی حکمت اور قوتِ بیان کا ذکر ہے۔ اللہ نے آپ کے فرزند جنابِ سلیمان کی دعا کا بھی ذکر کیا کہ انھوں نے اپنے پروردگار سے بخشش کی اور ایسی حکومت کی دعا مانگی جو ان کے بعد کسی دوسرے کو نصیب میں نہ ہو۔ یہ دعا قبول فرمائی گئی اور آپ کو ایسی سلطنت عطا ہوئی جس میں جانوروں اور جنات اور ہواؤں کو آپ کے تابع فرما دیا گیا تھا۔ خدا نے آپ پر بہت زیادہ انعامات کیے لیکن آپ اس تمام انعام و اکرام کے باوجود رب کی بندگی میں مشغول رہے اور اپنی توانائیوں کو اللہ کی توحید کی نشر و اشاعت کے لیے لگاتے رہے اور جب بھی کبھی آپ کے علم میں یہ بات آئی کہ کہیں اللہ کی ذات کے ساتھ شرک ہو رہا ہے تو آپ اس مقام تک رسائی حاصل کرتے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے۔ سبا کی ملکہ بلقیس سے آپ کے تنازعے کا اصل سبب یہی تھا کہ سبا کے لوگ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پرستش کر رہے تھے۔ چنانچہ آپ نے ملکہ بلقیس کو اپنے دربار میں حاضر کر کے توحید کی دعوت دی جس کو انھوں نے قبول کرلیا۔
اس سورت میں جنابِ ایوب کی بیماری اور شفا کا بھی ذکر ہے۔ جنابِ ایوب طویل عرصہ بیمار رہے اور اس بیماری نے آپ کو بے بس کر دیا۔ آپ نے دعا مانگی کہ اے پروردگار شیطان مجھے تکلیف دے رہا ہے، آپ مجھ پر رحم فرمائیں، بے شک آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اللہ نے ان کی تمام تکلیفوں کو دور فرما دیا۔ اس کے بعد چند انبیائے کرام حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت یعقوب، حضرت یعقوب اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کا اجمالی ذکر کیا. اس کے بعد آدم اور ابلیس کے قصہ کو ذکر فرمایا اور یاد دہانی کرائی کہ ابلیس تمھارا کھلا دشمن ہے.
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کی حقیقت بتائی گئی کہ اے پیغمبر کہہ دیجیے میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بغاوت کرنے والوں میں سے ہوں. اور قرآن تو اہلِ علم کے لیے نصیحت ہے جس کا حال تم کو ایک وقت کے بعد معلوم ہو بھی جائے گا.
اس کے بعد سورہ الزمر ہے جس میں حضرت محمد علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ اللہ نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے پس آپ مخلص ہوکر اللہ کی عبادت کریں۔ ارشاد ہوا کہ بہت سے لوگ اللہ کے علاوہ مددگار تلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی پوجا اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ ہمیں خدا سے قریب کر دیں گے۔ یعنی یہ سمجھایا گیا کہ خدا کے قریب کرنے کے لیے کسی انسان کی پوجا کی حد تک پیروی درست نہیں ہے.
اللہ فرماتا ہے کہ اختلافات کا فیصلہ وہ خود کرے گا اور بے شک وہ جھوٹ بولنے والے گمراہوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ پھر ارشاد ہوا کہ اللہ نے انسانوں کو تین اندھیروں میں سے پیدا فرمایا ہے۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ حقیقی گھاٹا ان لوگوں کے لیے ہے جن کو اللہ نے آخرت میں گھاٹا دیا، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو آگ کا عذاب سہنا ہوگا اور ان کے مقابلے میں جنتیوں کو ایسے کمرے ملنے والے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ نیز ارشاد ہوا کہ جس کے سینے کو اللہ تعالی نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو کھلی گمراہی میں ہیں۔
آگے ارشاد ہے کہ اللہ نے بہترین بات کو نازل کیا جس کے مضامین میں ہم آہنگی اور تکرار بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جن کے دلوں میں خوفِ خدا ہوتا ہے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر ان کے رونگٹے اور دل اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور جس کی راہ کو خدا گم کر دے اس کو راہ دکھانے والا کوئی نہیں۔
اللہ پاک ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین